شدت پسندی اور یوٹوپیا؟


افغانستان سے فوجی انخلا پر امریکی رائے عامہ خوش ہے مگر انخلا کے طریقہ کار پر لوگوں کو شدید اعتراض ہے۔ اس پر کئی دانش ور اور رائے ساز لوگ غصے میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انخلا کے اس طریقہ کار کی وجہ سے امریکہ کی مالی اور جانی قربانی رائیگاں گئی ہے۔ اس انخلا سے امریکہ کا بطور واحد سپر پاور غرور خاک میں مل گیا ہے۔ کچھ لوگ اسے ویت نام کی طرح کا زخم قرار دیتے ہیں، جو آنے والے برسوں میں دنیا میں امریکی بالا دستی اور غرور کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو اتنی بڑی قیمت پر بھی امریکی انخلا کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس فیصلے نے امریکہ کو ناحق خون خرابے اور مالی نقصانات سے نجات دلائی ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ اس فیصلے نے امریکہ کو شکست سے بچایا ہے کیونکہ امریکہ نے ایک با ضابطہ معاہدے کے تحت انخلا کا فیصلہ کیا ہے، جو باعزت راستہ ہے۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرنے والوں میں ہر قسم کی رائے کے حامل لوگ شامل ہیں۔ میں نے حال ہی میں نیو یارک ٹائمز میں ڈیوڈ بروس کا ایک پُر مغز مضمون پڑھا۔ بروس اس مسئلے کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے:

کچھ سال دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں پندرہ سو سترہ، سترہ سو چھہتر اور انیس سو سترہ بھی شامل ہیں۔ ان سالوں میں طاقت ور خیالات دنیا کے سٹیج پر نمودار ہوئے۔ پندرہ سو سترہ میں دنیا میں اصلاحی خیالات اور اصلاحی تحاریک سامنے آئیں‘ سترہ سو چھہتر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا نظریہ ابھرا‘ اور انیس سو سترہ میں انقلابی اشتراکیت کا نظریہ دنیا کے سٹیج پر نمودار ہوا۔ یہ دنیا کو تبدیل کرنے والے بڑے بڑے واقعات تھے۔ اسی طرح آگے چل کر سال انیس سو اناسی بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس برس ایرانی انقلاب کی وجہ سے سیاسی اسلام کا نظریہ پردہ سیاست پر نمودار ہوا۔ اس کے بعد افغانستان میں مجاہدین نمودار ہوئے، اور پاکستان میں اسلامی نفاذ کا عمل شروع ہوا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب عرب دنیا میں اخوان المسلمین جیسی پختہ نظریات کی حامل تنظیم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

اس پولیٹیکل اسلام کے جن خیالات نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا، ان کی جڑیں کافی پرانی تھیں۔ مثال کے طور پر بیسویں صدی کے نصف میں سید قطب نے امریکی مادیت پرستی پر تنقید شروع کی۔ اس نے اس مادیت پرستی کی وجہ ریاست سے چرچ کی علیحدگی کو قرار دیا۔ اس کے خیال میں یہ علیحدگی ایک خطرناک غلطی تھی، جس نے جسم سے روح کو الگ کر دیا تھا۔ اس کے خیال میں مسلمانوں کو اس غلطی سے اجتناب کرنا چاہیے‘ اور مغرب کی طرح مسلم دنیا میں جسم کو روح سے الگ نہیں کیا جانا چاہیے‘ بلکہ اس کو خلافت اور شریعت کے زیر اثر متحد رہنا چاہیے۔ اسلام کا یہ سیاسی تصور مسلم دنیا میں کئی شکلوں میں نمودار ہوا۔ اسی تصور کے تحت طاقت کے زور پر مذہب کو نافذ کرنے کی بات بھی کی گئی، اور کئی لوگوں نے عرب حکومتیں بدلنے کی کوشش شروع کی۔ ان تصورات کو آگے چل کر القاعدہ نے زیادہ پُر تشدد انداز میں منظم کیا۔ انہوں نے جو بڑے بڑے منصوبے بنائے ان میں عراق سے امریکی انخلا، خلافت کا قیام، عرب حکمرانوں کے تختے الٹنا، اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد، مغربی معیشت کو محدود کرنا، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کرنا اور دو ہزار بیس تک یقینی فتوحات کے ذریعے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دینا شامل تھے۔ یہ ایک طرح کے دلیرانہ خواب تھے، جو بڑے پیمانے پر انتہا پسندی کی وجہ بنے اور مسلم دنیا میں ایک یوٹوپیا کا تصور پیدا ہوا۔

حال ہی میں کابل ایئر پورٹ کے باہر بم دھماکے اسی یوٹوپیا کے سلسلے کی کڑی تھے۔ امریکی انخلا ان لوگوں کے نزدیک مغربی جمہوریت کی بد ترین شکست اور امت مسلمہ کے اتحاد کی طرف ایک قدم ہے‘ لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس طرح کی بہت ساری تحریکوں کے پیچھے کار فرما مقناطیسی نظریات اپنی کشش کھو چکے ہیں۔ اگر شدت پسندوں کا یہ خیال تھا کہ وہ تشدد کے ذریعے رائے عامہ کو بدل سکتے ہیں، تو اس میں ان کو ناکامی ہوئی ہے۔ دو ہزار تیرہ میں گیارہ مسلم ممالک میں کیے گئے پیو سروے کے مطابق صرف تیرہ فیصد لوگ القاعدہ کے بارے میں مثبت خیالات رکھتے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں چارلس کورزمین نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ گیارہ ستمبر کے بعد ایک لاکھ مسلمانوں میں کوئی ایک آدھ شخص ایسا ملے گا، جو دہشت گردی کی طرف مائل ہوا ہو۔ مسلمانوں کی وسیع اکثریت نے دہشت گردی کو مجموعی طور پر مسترد کیا ہے اور جب بھی مذہب کے زیر اثر طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی‘ ان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال عراق اور شام میں خلافت کے قیام کی کوشش تھی، جو ان کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن گیا۔ عراق و شام کے علاوہ پُر امن اور اعتدال پسند جگہوں پر بھی اس سوچ کو مخالفت کا سامنا رہا ہے۔

دو ہزار انیس میں ”دی اکانومسٹ‘‘ نے اس سلسلے میں ایک سروے کیا تھا۔ انہوں نے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا بھر میں لوگ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لوگوں کے خلاف ہو رہے ہیں۔ ایران کے آیت اللہ محمد تقی یزدی نے ایک دفعہ واضح کیا تھا کہ ایران کے عام لوگوں کا مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں انسٹھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ القاعدہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی زمین پر کوئی کامیاب حملہ نہ کر سکا۔ سعودی عرب میں محمد بن سلمان نے اصلاح کا عمل شروع کر دیا ہے، اور شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے تیز رفتار اقدامات کیے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت دنیا میں شدت پسندی کم ہو رہی ہے۔

اس سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے فرید زکریا نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ دہشت گردی کا رخ بدل رہا ہے، اور اس کا شکار اب مقامی حکومتیں بنتی جا رہی ہیں جس کی مثال افغانستان میں طالبان، داعش نائیجیریا میں بوکوحرام اور ہارن آف افریقہ میں الشباب وغیرہ ہیں۔ یہ نئی پالیسی القاعدہ کی ان پالیسیوں کا الٹ ہے، جن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مقامی حکومتوں کے خلاف کارروائی کے بجائے مغرب کو نشانہ بنایا جائے‘ لیکن حقیقت میں یہ مقامی کارروائیاں بھی بڑا خطرہ پیدا کر سکتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی اس کی مثال ہے‘ لیکن عالمی سطح پر حملوں اور فتوحات کا جو تصور چالیس سال قبل دیا گیا تھا‘ اب نیچے آ گیا ہے۔ مسئلہ ختم نہیں ہوا، مگر اس کی شدت کم ضرور ہوئی ہے۔ ہم نے اس وقت غلطی کی جب ہم نے اس مسئلے کا حل عسکری طاقت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی‘ لیکن دبائو بڑھانے، آزادیوں کی حمایت کرنے اور سیاست میں مذہب کے استعمال کی مخالفت سے ہم نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ ان اقدامات سے بنیاد پرست اپنی خامیوں کے بوجھ تلے دب گئے۔ ڈیوڈ کے خیالات افغانستان اور دیگر ممالک میں سیاست میں مذہب کے استعمال اور شدت پسندی کے بدلتے ہوئے رجحانات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments