سیکولر، جمہوری نظام کے مشن کے ساتھ محسن داوڑ کی نئی سیاسی جماعت

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


محسن داوڑ

پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بدھ کو پشاور میں نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے جس کا نصب العین ملک میں سیکولر، وفاقی، جمہوری نظام کے فروغ ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ یا قومی جمہوری تحریک کے نام سے اس جماعت میں سینیئر سیاستدان شامل ہیں اور اس کے منشور میں خواتین اور نوجوانوں کے حقوق فراہم کرنے کے لیے کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ ‘میرا تو پہلے دن سے یہی ارادہ تھا کہ پارلیمانی سیاست کروں گا اور پی ٹی ایم میں جانے سے پہلے بھی میں ایک سیاسی جماعت کا حصہ تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لے گی اور اب بھی وہ اس پر قائم ہیں، میں کبھی پی ٹی ایم کا عہدیدار نہیں رہا۔’

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ یا قومی جمہوری تحریک کا اعلان ایک تقریب منعقد میں کیا گیا جس میں سینیئر سیاستدان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ، افراسیاب خٹک، بشیر خان مٹہ، بشری گوہر، اور دیگر رہنماوں نے شرکت کی۔

محسن داوڑ میں اس تقریب کے بعد ایک اخباری کانفرنس میں خطاب کرتے وقت کہا کہ ان کی سیاسی جماعت ملک میں حقیقی سیکولرجمہوری نظام کے لیے کوششیں کرے گی جس میں تمام لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔ اس تقریب میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی اور یہ وہ نوجوان تھے جو عام طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں موجود ہوتے ہیں۔ ان میں صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے بھی لوگ آئے تھے۔

محسن داوڑ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ٹی ایم کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس وقت بھی وہ ایک سیاسی جماعت کا حصہ تھے اور پی ٹی ایم ے منشور کی تیاری کے وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا رکن پی ٹی ایم کا حصہ ہو سکتا ہے ۔

پشتون تحفظ موومنٹ پارلیمانی سیاست کے ذریعے حقوق کے حصول کو قابل عمل نہیں سمجھتی اس وجہ سے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لے رہے۔ محسن داوڑ نے بتایا کہ پی ٹی ایم کے بنیادی پانچ نکات وہی ہیں جو پہلے تھے اور وہ ان نکات پر پی ٹی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

محسن داوڑ کے ساتھیوں سے بات چیت کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ پی ٹی ایم سے الگ نہیں ہوئے بلکہ وہ اب بھی پی ٹی ایم اور منظور پشتین کے ساتھ موجود ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ منظور پشتین کو آپ لوگوں نے اکیلا چھوڑ دیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے وہ منظور پشتین کو اپنے ساتھ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس تقریب میں شرکت کی دعوت کیا منظور پشتین کو دی گئی تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ جائیں گے منظور پشتین سے ملاقاتیں کریں گے اور پھر ہو سکتا ہے کہ میڈیا کو ساتھ لے کر جائیں گے۔

موجودہ حکومت کے خلاف جب حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں تو اس میں ابتدائی طور پر محسن داوڑ کو بھی دعوت دی گئی تھی اور وہ اس میں شرکت کرتے رہے لیکن پھر اچانک پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کی شرکت پر اعتراض کیا اور یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ محسن داوڑ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہے بلکہ ایک رکن قومی اسمبلی ہے اور انھیں اس اتحاد میں شرکت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ اس کے بعد محسن داوڑ نے اپنی سیاسی جماعت کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں۔

اس نئی جماعت کے دستور میں پہلی سطر میں یہی لکھا گیا ہے کہ ‘ہم ایک سیکولر، وفاقی، جمہوری، پارلیمانی نظام کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔’

اس بارے میں محسن داوڑ سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی کوئی پہلی سیکولر جماعت ہے بلکہ دیگر کچھ سیاسی جماعتیں بھی جمہوری سیاست کرتی ہیں جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے افراد آزادی سے اپنے مذہبی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے کہ اس ملک 98 فیصد عوام کا مذہب اسلام ہے اور یہی رہے گا۔ ان کی جماعت برسر اقتدار آ کر تمام مذاہب اور عقائد کو بلا تعصب اور امتیاز تحفظ اور سہولیات پہنچائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنا ہے اور آئین میں درج ہے کہ قران اور سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی اور اس سے کسی کو کوئی انکار نہیں ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر مذہب اور اور ہر فرقے کو اپنی رسومات ادا کرنے کی آزادی حاصل ہو۔

پشتون قوم پرست جماعتوں میں ایک اور اضافہ، کیا فرق پڑے گا ؟

پاکستان میں اس وقت بڑی تعداد میں ایسی سیاست جماعتیں متحرک ہیں جو قوم پرستی کی بنیاد پرقائم ہیں ان میں سندھی، بلوچی، پشتون، پنجابی اور سرائیکی جماعتیں شامل ہیں۔

جہاں تک بات ہے پشتون قوم پرست جماعتوں کی تو ان میں عوامی نینشل پارٹی کا انتظامی ڈھانچہ کافی موجود ہے اور اس جماعت کے یونٹ پاکستان بھر میں ہیں۔ اسی طرح پختونخوا ملی عوامی پارٹی بظاہر بلوچستان کے شمالی علاقوں میں زیادہ متحرک ہے لیکن اس جماعت کی شاخیں بھی ملک بھر میں موجود ہیں۔

آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی بھی قوم پرستی کی سیاست کرتی ہے ۔ اگرچہ آفتاب شیرپاؤ نے پاکستان پیپلز پارٹی سے جب راہیں جدا کیں تو انھوں نے پیپلز پارٹی کے نام سے ہی ایک جماعت قائم کی تھی لیکن جلد ہی انھوں نے قوم پرستی کی سیاست شروع کر دی تھی۔ اسی طرح حال ہی میں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر الحاج شاہ جی گل نے اپنی سیاسی جماعت تحریک اصلاحات کے نام سے شروع کی ہے۔

محسن داوڑ سے جب پوچھا کہ پہلے ہی اتنی قوم پرست جماعتیں ہیں تو ان کی جماعت کیا کر لے گی اس پر انھوں نے کہا کہ وہ سیاسی جماعتیں اپنے طور پر کام کر رہی ہیں لیکن یہاں خلا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جو انتخابات ہوئے اس میں مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں نے ووٹ حاصل کیے اور پشتون قوم پرست جماعتیں کوئی زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکیں اس لیے ان کی جماعت اس میں اہم کردار ادا کرے گی۔

کیا یہ اتفاق ہے کہ محسن داوڑ نے اپنی جماعت کا اعلان ایسے دن پر کیا جس دن خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد آج سے تقریباً بانوے سال پہلے ڈالی گئی تھی اور یکم ستمبر کو اس تحریک کا یوم تاسیس ہوتا ہے۔ محسن داوڑ سے جب اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ خدائی خدمت گار تحریک تمام تحریکوں کی بنیاد ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تاہم ان کی جماعت کے اعلان کا فیصلہ اس جماعت میں شامل تمام اراکین نے متفقہ طور پر کیا ہے اور آج ہی کا دن اس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp