آئین عوام کے لیے


آج سے ساڑھے چار ہزار برس پہلے کا زمانہ تھا جب موجودہ عراق کے علاقے میں لاگاش کے سمیری بادشاہ یوروکجینا نے اپنی حکومت کے لیے ایک قانونی دستاویز تیار کی۔ اسے دنیا کا پہلا آئین کہا جاسکتا ہے۔ اس آئین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی ذمہ داری ریاست کو سونپی گئی تھی۔ نیز غریب لوگوں کو مالدار سود خوروں سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک دنیا بھر میں ہر طرح کے آئین بنتے، بگڑتے اور چلتے آرہے ہیں۔

ان میں امریکہ کا آئین دنیا کا سب سے پرانا مکمل تحریری آئین ہے۔ دنیا کا سب سے ضخیم آئین ہندوستان اور سب سے مختصر آئین فرانس کے ہمسائے مناکو کا ہے جبکہ برطانیہ کا آئین غیر تحریر شدہ ہے۔ پاکستان کے قیام سے تین روز قبل ہی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کو قائدین کے ذمے جو کام لگایا وہ نئے ملک پاکستان کے لیے آئین سازی ہی تھی۔ یہ بدقسمتی تھی کہ وہ آئین ساز اسمبلی بانی پاکستان کی زندگی میں کوئی آئینی خاکہ ان سے منظور نہ کرا سکی۔

آئین کی تیاری کی بدقسمتی کا یہ سلسلہ قائداعظم کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک جاری رہا۔ آئین ریاست کو چلانے کے لیے ملک کے حالات، ثقافت اور زمینی حقائق کے پس منظر میں تیار کیے جانے والے قوانین کا نام ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین سازی کے حوالے سے جو تجربات کیے گئے انہیں اس سادہ سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک نوزائیدہ بچے کی مستقبل کی صحت کے لیے دائیاں، ڈسپنسر، حکیم، سنیاسی بابے، نقلی پیر اور ڈاکٹر وغیرہ سب اپنے پیشے اور علم و دانش کے مطابق ہدایات دے رہے ہوں اور ان سب کا دعویٰ بھی ہو کہ صرف انہی کی دوائی یا ٹوٹکا بچے کی مستقبل کی صحت کا ضامن ہوگا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف قسم کی دوائیوں اور ٹوٹکوں کے سائڈ ایفیکٹ سے معصوم بچے کو وہ جسمانی اور نفسیاتی جان لیوا بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں جو ان دوائیوں کے نہ کھانے سے ہرگز نہ لگتیں۔

پاکستان کے ابتدائی 26 برسوں میں آئین سازی کی جو بھی کوشش ہوئی اسے ذاتی پسند کے نظریات کی چھاپ یا مارشل لاء ڈکٹیٹر کی خواہشات کی تکمیل سمجھا گیا۔ اس دوران مغربی تعلیم یافتہ نوجوان وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کے سامنے طبقاتی کشمکش ختم کرنے والے سوشلسٹ لیڈر کے طور پر نمودار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ابتدائی تقریروں میں بارہا کہا کہ وہ پاکستان میں سوشلزم کا انقلاب لائیں گے جس سے غریب اور امیر کا فرق ختم ہو جائے گا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگا کر سوشلزم کے نظریے کو بھی دھوکا دیا کیونکہ اس نعرے سے وہ خود اور ان کی جماعت تو مقبول ہو گئی لیکن طبقاتی فرق ختم کرنے والی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی اپنی حکومت کے دور میں 1973 ء کا آئین منظور کروایا جو اب تک پاکستان میں نافذ ہے۔ اس آئین کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی نے زمینی حقائق سے مختلف کچھ باتیں پھیلا رکھی ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ پیپلز پارٹی کے مطابق 1973 ء کا آئین متفقہ آئین ہے جبکہ یہ بات ریکارڈ کے مطابق درست نہیں ہے۔ اب یہ بات مکمل ریکارڈ یافتہ ہے کہ اس وقت کی ریاست بہاولپور، بلوچستان، سندھ، سرحد اور پنجاب وغیرہ کے بعض اراکین اسمبلی نے اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے آئین کی منظوری کے ایشو کو گلیمرائز کرنے کے لیے 1973 ء کے آئین کو متفقہ آئین کہا گیا۔ حالانکہ اگر وہ اس آئین کو کثرت رائے سے منظور ہونے والا اکثریتی آئین کہتے تب بھی کیا حرج تھا کیونکہ اکثریتی ووٹوں کے باعث منظور ہو کر یہی آئین نافذ ہوتا۔

اس آئین کو مقدس بنانے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے تمام بڑے سیاسی لیڈروں نے اس آئین کی منظوری کی تحریک کے آگے سرتسلیم خم کر دیے تھے۔ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ تمام سیاسی رہنما دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس وقت کے زخم خوردہ پاکستان کو خود اعتمادی دے کر آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ سب سیاسی رہنما بہت کم اور ناکافی پر بھی راضی ہو گئے۔ دوسرا یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے پیچھے چھپے ہوئے ضدی شخص سے شاید سب اپنا دامن بچانا چاہتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ وہ تمام بڑے سیاسی رہنما جنہوں نے 19 اپریل 1973 ء کو آئین کی توثیق میں ذوالفقار علی بھٹو کا اگر دل سے ساتھ دیا تھا تو ان پر ساڑھے تین سال بعد مارچ 1977 ء میں اسی بھٹو کے خلاف سازش میں شریک ہونے کا الزام کیوں ہے؟ اگر وہ سیاسی لیڈر کسی خوف یا مفاد کے باعث بھٹو کے خلاف سازش میں شریک ہوسکتے تھے تو آئین کی منظوری کے وقت کسی خوف یا مصلحت کا شکار بھی کیا نہیں ہوسکتے تھے؟ لہٰذا پیپلز پارٹی کے پاس اس منطقی دلیل کا کیا جواب ہے؟

جیسا کہ بتایا گیا کہ دنیا کا سب سے پہلا مبینہ آئین عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تھا اور آئین کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے لیکن 1973 ء کا آئین طرز حکمرانی پر ہی زیادہ مبنی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ آئین عوام کی فلاح و بہبود کی ضروریات پوری کرنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہو پا رہا۔ 1973 ء کا آئین قائم رکھنا زیادہ تر پیپلز پارٹی اور چند دوسری سیاسی جماعتوں کی بقا کا مسئلہ ہو سکتا ہے جبکہ عوام نئے تقاضوں کو پورا کرنے والا آئین چاہتی ہے۔

آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا کہ جس میں رد و بدل یا ترمیم نہ کی جاسکے۔ 1973 ء کے آئین سے مفادات حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ اگر اس آئین کی بعض شقوں میں رد و بدل کیا گیا تو ملک میں بڑے فساد کا خطرہ ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے اراکین اکیسویں ترمیم سمیت دوسری کئی اہم ترامیم متفقہ طور پر منظور کر سکتے ہیں تو وہ طرز حکمرانی میں گڈگورننس کے لیے اہم ترامیم بھی منظور کر سکتے ہیں۔ عوام آئین کے لیے نہیں ہوتے بلکہ آئین عوام کے لیے ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments