قدیم زمانے کی مرغیاں زیادہ عرصہ زندہ رہتی تھیں!


مرغ ہماری محبوب غذا ہیں۔ شادی کی دعوت ولیمہ ہو کہ عقیقے کی رسم، قل ہوں کہ چالیسواں، شامت مرغ ہی کی آتی ہے۔ خواہ وہ مرغ پلاؤ ہو، مرغ مسلم ہو، کوئلوں پہ سنکا ہوا ہو کہ مرغ سجی ہو، یا شوربہ ہو، مرغ ہمارے سامنے کسی بھی کھانے کی شکل میں پیش کیا جائے، مزیدار ہی ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ مرغ پوری طرح سے پکا ہوا نہ ہو، ہمیں اس کو کھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ موجودہ دور میں زیادہ تر لوگ مرغیوں کو ذائقے کی بنیاد پر پسند یا نا پسند کرتے ہیں

لیکن ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ انسانوں نے مرغ کے مزیدار ذائقے پر حال ہی میں توجہ مرکوز کی ہے۔ محققین نے دریافت کیا ہے کہ لوہے کے دور سے لے کر رومی اور سیکسن دور تک مرغیوں کی اوسط عمر دو سے چار سال تک ہوتی تھی جبکہ آج کل کے دور میں ایک فارمی مرغی بس تین ماہ تک ہی زندگی کی بہار دیکھ پاتی ہے۔ یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے برائے آسٹیو آرکیلوجی میں شائع ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں شام اور گرد نواح کے علاقوں میں کی جانے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں مرغیاں کھانے کے مقصد سے نہیں بلکہ لڑانے کے مقصد سے پالی جاتی تھیں یا دیوتاؤں کی خوشنودی کی غرض سے پالی جاتی تھیں۔

مطلب یہ کہ ان کی پرستش نہیں کی جاتی تھی بلکہ دیوتاؤں کے حضور قربانی کا نذرانہ دینے کی غرض سے پرورش کی جاتی تھی۔ موجودہ دور میں اوسطا مرغیاں تینتیس سے اکیاسی دن کے بعد کھانے کی غرض سے ذبح کر دی جاتی ہیں۔ یہ عمر ایک مہینے سے لے کر تین مہینے سے بھی کم بنتی ہے۔ لیکن اگر مرغیوں کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی جائے تو یہ بڑے آرام سے چھ سال تک زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر زیادہ ناز نخرے اٹھائے جائیں تو اس سے بھی زیادہ جیسے کہ ”مفی“ نامی امریکی مرغی بائیس سال کی عمر میں سنء 2011 میں فوت ہوئی۔ اس کے علاوہ ”مٹلڈا“ نامی مرغی سنء 2006 ء میں سولہ سال کی عمر میں فوت ہوئی۔

اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قدیم برطانیہ میں بھی مرغیاں کم عمری میں وفات پا جاتی تھیں لیکن اتنی کم عمری میں نہیں کہ جتنی موجودہ دور میں کھانے کے مقصد سے پالی جانے والی مرغیاں ہوتی ہیں۔

لیکن یہ سوال کرنے سے پہلے کہ آخر اس دور میں کھانے کے مقصد سے نہیں تو پھر کس لیے مرغیاں پالی جاتی تھیں، سے بھی پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ دور میں ماہرین کو ہزاروں سال پہلے زندگی گزار کر چلی جانے والی مرغیوں کی عمریں کیسے معلوم ہو گئیں؟

دانت رکھنے والے جانداروں کے دانتوں کی عمر گزرنے کے ساتھ گھساؤ اور رنگت وغیرہ دیکھ کر عمر کا تعین کیا جاتا ہے مگر جیسے کہ ہم اپنے ایک پچھلے مضمون ”ڈائنو سار چڑیا“ میں بتا چکے ہیں کہ چڑیاں، مرغیاں اور دیگر پرندے خوفناک ”تھیرا پوڈ“ اور ”ٹی ریکس“ جیسے خوں خوار ڈائنو سارزکی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابتداء میں یہ پرندے دانت اور جبڑا رکھتے تھے مگر کوئی دس کروڑ سال پہلے ان کے دانت چونچ میں بدل گئے اور چونچ کے گھسنے سے کسی پرندے کی عمر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

اس لیے محققین نے مرغیوں کے پنجوں سے ان کی عمر جاننے کا طریقہ وضع کیا۔ یہ واضح رہے کہ چوزوں کے پنجوں میں پیچھے کی طرف کے پنجے کی انگلی ( tarsometatarsal spur ) صرف بالغ ہونے پر ہی مرغیوں میں ابھر کر نکلتی ہے جسے ہمارے یہاں مرغی کی کیل کہا جاتا ہے۔ چوزوں کے پنجوں میں یہ نہیں ہوتی۔ ماہرین نے تقابلہ کرنے کے لیے موجودہ دور کی ایک سال عمر رکھنے والی مرغیوں کی جانچ کی تو ان میں سے صرف بیس فیصد مرغیوں میں پیچھے کی طرف کی انگلی نکلی ہوئی تھی۔

ماہرین نے اسی طرح زیادہ عمر کی مرغیوں کی جانچ کی تو انہیں پتا چلا کہ صرف چھ سال کی عمر میں تمام مرغیوں کی یہ انگلی پوری طرح سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ ماہرین نے اپنے نتائج کی تصدیق کے لیے موجودہ دور کی ایسی مرغیوں کی جانچ کی کہ جن کی عمریں انہیں پوری طرح سے معلوم تھیں اور پھر ان کا تقابل قدیم رکازات سے کیا۔ یوں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ قدیم زمانے میں مرغیاں موجودہ دور کے مقابلے میں زیادہ عمر جیتی تھیں۔

لوہے کے دور، سیکسن اور رومی دور کے ایک سو تئیس نمونوں کی جانچ کی گئی تو ان میں سے آدھی سے زائد مرغیوں کی عمریں دو سال سے زیادہ پائی گئیں جبکہ ایک تہائی کی عمریں تین سالوں سے بھی زیادہ پائی گئیں۔ ڈاکٹر شان ڈوتھری جنھوں نے یہ تحقیق کی، یہ وضاحت کرتے ہیں کہ انہیں جو ہڈیاں ملیں، ان پر کاٹنے یا ذبح کرنے کے کوئی نشانات نہیں ملے۔ یہ ہڈیاں انہیں کسی کچرے کے ڈھیر وغیرہ سے نہیں ملی تھیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مرغیاں پوری کی پوری سالم دفن کی گئی تھیں۔ یہ تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ان مرغیوں کو اس وقت معاشرے میں اہم حیثیت حاصل تھی اور ان کا بہت اچھی طرح سے خیال رکھا جاتا تھا۔ اور یہ مرغیاں دو سے چار سال آرام سے زندہ رہ جاتی تھیں۔

یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ موجودہ دور میں لوگ مادہ مرغیوں کو زیادہ عمر تک پالتے ہیں کیونکہ وہ انڈے دیتی ہیں جبکہ مرغوں کو جلد ہی کھانے کی میز پر سجا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ انڈے نہیں دیتے، آپس میں یا مرغیوں کے ساتھ لڑتے ہیں اور مرغیوں کے مقابلے میں انہیں گوشت کے حصول کے لیے بہتر ذریعہ نہیں سمجھا جاتا اور اسی لیے فارمی مرغیوں کے باڑے میں مرغ چوزوں کو چھوٹی عمر میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ قدیم دور میں مرغ پالنے کو ترجیح دی جاتی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ مرغ لڑاکے ہوتے ہیں اور انہیں لڑانے کے مقصد سے ہی پالا پوسا جاتا تھا۔ قدیم دور میں مرغوں کی لڑائی پر شرطیں لگانا لوگوں کا مرغوب کھیل تھا خاص طور پر یونان میں۔

یہ خبر پڑھ کر ہمیں مشہور امریکی ڈرامہ سیریز ”بوسٹن لیگل“ کی یاد آ گئی۔ یوں تو اس ڈرامے میں امریکی معاشرے میں کئی ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر تنقید اٹھائی گئی تھی جیسے کہ عراق میں غلط وجہ سے جنگ شروع کرنا، ہر موقع پر اسرائیل کی بے جا حمایت، اسقاط حمل کا حق، بندوق رکھنے کا آئینی حق، تارکین وطن اور دیگر بہت سے موضوعات مگر اس کے چوتھے سیزن کی تیسری قسط کو اسی مناسبت سے ”مرغی اور اس کی ٹانگ“ کا عنوان دیا گیا تھا جس میں ”کارل“ ایک مرغ لڑانے والے شخص کا عدالت میں دفاع کرتا ہے اور اپنے مؤکل کے دفاع میں کچھ ایسے ہی دلائل پیش کرتا ہے کہ لڑانے والے مرغ زیادہ عمر پاتے ہیں اور ان کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

ویسے اگر آپ کو یہ پڑھ کر کہ موجودہ دور میں مرغیوں کی عمریں تین ماہ سے بھی کم ہوتی ہیں، پر یقین نہ آ رہا ہو تو بتاتے چلیں کہ پچھلے سال استاد محترم نصرت جاوید نے کورونا کی وبا کے دوران مرغیوں کے چوزوں کے تلف کرنے پر اپنے کالم میں یہی مدت بتائی تھی۔ اور فارمی مرغیوں کی کلغیوں کے چھوٹے پن سے بھی تقریباً یہی عمر لگتی ہے لیکن اگر آپ اس عمر کو دگنا یا تین گنا زیادہ یعنی نو ماہ یا ایک سال تک بڑھا بھی لیں تو تب بھی یہ عمر قدیم زمانے میں رہنے والی مرغیوں کے برابر یا اس سے زیادہ نہیں بنتی ہے۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: ہیرٹز، رائیٹرز اور دیگر اخبارات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments