میڈیا اتھارٹی بل پر صحافیوں کے تحفظات برقرار، حکومت کی متنازع شقیں ختم کرنے کی یقین دہانی


پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کے مجوزہ ڈرافٹ میں سے تمام کریمنل شقیں واپس لے لی ہیں، تاہم جرمانے کی شقیں برقرار رکھی گئی ہیں۔

پاکستان میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل پر صحافی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی سے متصادم قرار دے رہی ہیں۔ تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ بل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے لایا جا رہا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین جاوید لطیف نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی شقوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے رُکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

جمعرات کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی جاوید لطیف کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں بعض مواقع پر حکومتی وزیر اور صحافیوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ فواد چوہدری نے اسد طور اور ابصار عالم کو صحافی ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

اجلاس میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے بات چیت کی گئی جس میں اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے بتایا کہ صحافی اسد طور پر حملے کے حوالے سے فوٹیج اور فنگر پرنٹس پر نادرا کی رپورٹ پولیس کو موصول ہو گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق فوٹیج اور فنگر پرنٹس میچ نہیں ہوئے۔ اجلاس میں موجود اسد طور نے کہا کہ پولیس انوسٹی گیشن رپورٹ تک شیئر نہیں کر رہی۔ ہم عدالت کا حکم لے کر آئے لیکن پھر بھی پولیس تعاون نہیں کر رہی۔ پولیس ملزمان کو پکڑ نہیں رہی مگر ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹس دیے جا رہے ہیں۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری (فائل فوٹو)
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری (فائل فوٹو)

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ شہر میں سیف سٹی کے 1900 کیمرے لگے ہیں لیکن وہ صرف تیس فی صد شہر کو کور کر رہے ہیں، ابھی مزید 1900 کیمروں کی منظوری دی گئی جس کے بعد اسلام آباد کا بیشتر علاقہ کور ہو سکے گا۔

کمیٹی چیئرمین جاوید لطیف نے کہا کہ اسلام آباد میں صرف صحافیوں کو کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اسد طور کے کیس میں وزیرِ داخلہ نے کہا تھا کہ ملوث لوگوں کے قریب پہنچ گئے ہیں، وزیرِ داخلہ حقائق بتا رہے تھے یا صرف خبر بنا رہے تھے۔

اس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ صحافیوں پر حملے کی انوسٹی گیشن پر نظر ثانی کریں گے اور ملوث ملزمان کو پکڑنے کی پوری کوشش کریں گے۔

سینئر صحافی ابصار عالم نے کہا کہ پولیس اپنی بہترین کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔

سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے کہا کہ اب تک ایسے لگ رہا ہے کہ کوئی ایسی قوت ہے جو صحافیوں پر حملے کی تحقیقات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ حامد میر کی گاڑی کے نیچے بم لگانے کے واقعے کو نو برس ہو گئے مگر کوئی نتیجہ نہیں آیا۔ انصاف نہ دیا گیا تو ملک جنگل بن جائے گا۔

جاوید لطیف نے کہا کہ حامد میر کا واقعہ (ن) لیگ کے دور میں ہو ا تھا۔ ہم نے اپنے دور میں کہا تھا کہ ہم غلیل کے ساتھ نہیں قلم کے ساتھ ہیں تو ہم نے اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ ہم بات کریں تو ‘ڈان لیکس’ بن جاتی ہے کوئی اور بات کرے تو وہ محبِ وطن قرار دیا ہے۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ میری گاڑی کے نیچے بم لگانے کا کیس 2012 میں ہوا اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اسلام آباد پولیس نے تمام انوسٹی گیشن مکمل کر لی تھی اور تحریکِ طالبان کے احسان اللہ احسان نے ذمہ داری قبول کی۔ جس نمبر سے احسان اللہ احسان کو کال گئی اس کے خلاف پولیس کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کے پیچھے اگر کوئی کھڑا ہو جائے تو پولیس تمام کیسز کو حل کر سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے صحافیوں کو کسی سیاسی جماعت کے دور میں انصاف نہیں ملا۔

وزیرِ مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا کہ صحافیوں کی سیکیورٹی کی ضمانت آئین بھی دیتا ہے، ہم پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں، صحافیوں پر حملوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے میڈیا پروٹیکشن بل پارلیمنٹ میں ٹیبل کیا گیا۔ لیکن یہ بل انسانی حقوق کمیٹی میں التوا کا شکار ہے۔

فواد چوہدری نے اجلاس کے دوران کہا کہ ابصار عالم ابھی تک صحافی ہیں انہوں نے تو کہا تھا کہ (ن) لیگ کے کارکن ہیں۔ ابصار عالم کی بات پر جائیں تو 22 کروڑ عوام صحافی ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافت آزاد ہے۔ صحافی عاصمہ شیرازی اور حامد میر پر کوئی کیس نہیں ہے۔

فواد چوہدری کے ابصار عالم کو صحافی تسلیم نہ کرنے پر ابصار عالم نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ پی آئی ڈی کا ایکریڈیشن ہولڈر ہی صحافی ہو گا؟

مریم اورنگزیب نے کہا کہ قائمہ کمیٹی جانتی ہے کہ کون صحافی ہے اور کون نہیں۔ فواد چوہدری کے پاس صحافیوں پر ہونے والے حملوں کا جواب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کے مطابق ملک میں کوئی سنسر شپ نہیں صرف ایک پروپیگنڈا ہے۔

اجلاس میں اس وقت صورتِ حال کشیدہ ہو گئی جب فواد چوہدری کی طرف سے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں اپنا تعارف کروائیں، اس پر ناصر زیدی نے کہا کہ میں پی ایف یو جے کا سیکرٹری جنرل اور آپ کے والد کا دوست ہوں۔

اس پر پارلیمنٹری رپورٹرز ایسویسی ایشن کے سیکرٹری آصف بشیر چوہدری کھڑے ہو گئے اور کہا کہ صحافیوں پر نادیدہ قوتیں حملہ کرتی ہیں آج ان کے ساتھیوں کا بھی پتا چل گیا۔ صحافیوں کا مذاق اڑایا جائے گا تو ہمارے جذبات ایسے ہی ہوں گے ،پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل سے کہا جاتا ہے آپ کون ہیں اپنا تعارف کروا دیں ۔وزیر کی کم علمی ہے تو سینئرز کا مذاق نہ اڑایا جائے۔

اس پر جاوید لطیف نے فواد چوہدری سے کہا کہ چوہدری صاحب آپ نے کمیٹی کا جیسا ماحول بنایا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کمیٹی کو میڈیا ڈیویلمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی اور کہا کہ اس اتھارٹی کا فریم ورک تیار کیا ہے اور اس پر متعلقہ تنظیموں سے رائے لی گئی ہے۔

اُن کے بقول وزیرِ اعظم چاہتے ہیں کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اتفاق رائے سے آگے بڑھیں۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی ریگولیشن نہیں ہونی چاہیے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے خلاف سازشوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، پاکستان کے خلاف ٹوئٹر ٹرینڈز چلائے گئے۔ ہم نے پاکستان کے خلاف سازشوں کو مل کر ناکام بنانا ہے۔ یہاں سی پیک کے خلاف آرٹیکل چھپتے ہیں مگر ہمارا مؤقف نہیں آتا۔

بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایاکہ اب اتھارٹی کا مجوزہ ڈرافٹ مکمل طور پر سول نیچر کا ہوچکا ہے اور اس میں موجود کریمنل چارجز سے متعلق تمام شقیں نکال دی گئی ہیں، تاہم جرمانے برقرار ہیں اور فیک نیوز پر میڈیا کے انفرادی شخص کو 10 کروڑ اور میڈیا ادارے کو 25 کروڑ تک جرمانہ ہو سکے گا۔

کمیٹی چئیرمین جاوید لطیف نے کسی نتیجہ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے مریم اورنگزیب کی سربراہی میں سب کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس میں کنول شوزب، ناز بلوچ اورنفیسہ شاہ شامل ہیں۔

میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے کیا؟

پاکستان حکومت نے حالیہ دنوں میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے گزشتہ تمام اداروں کو ختم کرکے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹٰی کے قیام پر قانون سازی کا آغاز کیا ہے اور اسی حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومت کی مشاورتی کوششوں کے برعکس صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کو یکسر مسترد کیا ہے۔ صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پہلے ہی ملک میں قوانین اور ادارے موجود ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments