یوم آزادی: لڑکی کو ہراساں کرنے والے ملزمان میں 6 کی شناخت

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


مینار پاکستان
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ لاہور میں یو م آزادی کے موقع پر مینار پاکستان کے قریب ہونے والے واقعہ میں ملوث چھ ملزمان کو شناخت کرلیا گیا ہے جبکہ اس واقعہ میں ملوث دیگر افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ ان چھ ملزمان کی شناخت پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے نہیں کی بلکہ متاثرہ لڑکی عائشہ اکرام نے بدھ کے روز کوٹ لکھ پت جیل میں جاکر ان افراد کو شناخت پریڈ کے دوران پہچانا۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس میں پنجاب پولیس کی طرف سے جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ اب تک اس واقعہ میں141 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ملزمان کی شناحت کا عمل جاری ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کی تحققیات کے لیے پولیس کی چار ٹیمیں تشکیل دی گئیں ہیں جو مختلف پہلوؤں پر اس واقعہ کی تحققیات کر رہی ہیں۔

اس واقعے کی تحققیات کرنے والی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جن افراد کو شناخت پریڈ کے عمل سے گزارا گیا ہے ان کو ایک مرتبہ پھر شناخت پریڈ کے عمل سے گزارا جائے گا اور اگر ان میں سے جو افراد شناخت نہ ہوئے اور ان کے خلاف اس کے علاوہ کوئی اور مقدمہ درج نہ ہوا یا وہ عدالتی مفرور نہ ہوئے تو ان کو رہا کرنے کے بارے میں متعقلہ عدالت کو لکھا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ان افراد کی رہائی کے احکامات متعقلہ عدالت ہی دے سکتی ہے۔

قائمہ کمیٹی کی رکن سینیٹر عابدہ عظیم نے کہا کہ اس واقعہ میں اس لڑکی کا بھی قصور ہے اور اس کو اتنے رش میں نہیں جانا چاہیے تھا۔

یہ بات سن کر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری برہم ہوگئیں اور مذکورہ سینیٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے الفاظ پر غور کریں اور انھیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس واقعہ میں عورت کا قصور تھا اور اس کو اس رش میں نہیں جانا چاہیے تھے۔

بلوچستان سے منتخب ہونے والی سینیئر عابدہ عظیم نے کہا کہ عورت کو اکیلے نہیں نکلنا چاہیے جس پر انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اصول مردوں پر بھی عائد ہونے چاہیں اور انھیں گھر سے اکیلے نہیں نکلنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ پابندیاں عورتوں پر نہیں بلکہ مردوں پر لگائی جانی چائیں۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ملکی قانون میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ سینیٹر عابدہ عظیم کا کہنا تھا کہ عورت کو اکیلے نہیں نکلنا چاہیے اور اگر وہ اکیلی نکلے گی تو پھر اس طرح کے واقعات تو ہوں گے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عورت اکیلی گھر سے کیوں نہ نکلے۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورت اس وقت تک گھر سے نہ نکلے جب تک کوئی مرد اس کے ساتھ نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ ہونے والے واقعات میں قصوروار عورتیں نہیں بلکہ مرد ہیں۔

کمیٹی کے متعدد ارکان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ہو رہے ہیں جبکہ اس حوالے سے پنجاب حکومت کی کاکردگی انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سے کہا کہ وہ اس بارے میں پنجاب حکومت سے بات کریں جس پر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی پنجاب حکومت کو سفارشات بھیج سکتی ہے اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتی۔

کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پنجاب میں تو پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کہتے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تو ایسے ہی ہیں سارا کچھ وزیراعظم ہی اسلام آباد سےچلا رہے ہیں، شیریں مزاری نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اس طرح کے الزامات لگاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp