نور پر کس کا حق تھا


بورے والا کے ایک مکان میں بچے کی پیدائش پر خوشی کے بجائے سوگ کا سماں تھا۔ وزیر علی ننگے پیر ایک دیوار سے دوسری دیوار تک لیفٹ رائٹ کر رہا تھا اس کی بیوی ثریا کونے والے پلنگ پر سر جھکائے بیٹھی تھی جیسے سارا قصور بس اسی کا ہے۔ تینوں بیٹیاں سہمی ہوئی ماں سے چپکی ہوئی تھیں۔ صورتحال کا مرکزی کردار نوزائیدہ پنگھوڑے میں بے خبر سو رہا تھا۔ یہ وہی پنگھوڑا تھا جس میں اس کی تینوں بہنیں اپنی طفل عمری میں جھولی تھیں۔

وزیر علی کو اس بار قوی امید تھی کہ بیٹا ہوگا وہ خود تین بہنوں پر نرینہ اولاد ہوا تھا۔ اس لئے وہ تاجے حلوائی سے لڈو لے آیا تھا۔ لڈووں کی وہ تھیلی زمین پر پھٹی پڑی تھی اور اس کے لڈو ٹوٹ کر بکھر گئے تھے بالکل وزیر علی کے ارمانوں کی طرح۔ دائی نے کہا تھا بچہ صحتمند تو ہے لیکن نر ہے یا مادہ اسے تو سمجھ میں نہیں آ رہا کسی ڈاکٹر کو دکھا دیں۔

ڈاکٹر علی رضا نے اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد انہیں مشورہ دیا کہ بچے کے پیٹ کا الٹراساؤنڈ، کچھ خون کے ٹیسٹ اور کروموسوم ٹیسٹ کے نتیجے کے بعد جنس کے بارے میں حتمی رائے دی جاسکے گی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کبھی کبھی جنس اور ظاہری صنف میں فرق ہو سکتا ہے۔ بچے کو لڑکے یا پھر لڑکی کی صنف میں پروان چڑھایا جائے، اس کا فیصلہ بہت سمجھداری سے کرنا ہوگا۔ غلط صنف کا فیصلہ آگے چل کر پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

وزیر علی کو یہ مشکل باتیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آئیں لیکن اس نے ڈاکٹر سے کچھ نہ کہا۔ وہ دو دن تک سوچتا رہا آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ نوزائیدہ کو لڑکے کی طرح پروان چڑھانے گا۔ اس کا نام بھی اس نے سوچ لیا نور علی۔ اسے لگا کہ فیصلہ ہو جانے کے بعد اتنے مہنگے ٹیسٹ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لہذا اس نے ثریا کو سمجھا دیا کہ بس سب کو بتادے کہ بیٹا ہوا ہے۔ دائی کا منہ بند رکھنے کے لئے ثریا کو اپنی واحد طلائی انگوٹھی کی قربانی دینی پڑی۔

بیٹے کا اعلان کیا تو لوگوں کا منہ بھی میٹھا کرانا تھا لیکن وزیر علی نے اپنے اندر کی جھنجھلاہٹ یوں نکالی کہ لڈو کے بجائے بالو شاہی تقسیم کی۔ وقت کبھی کچھوے کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا اور نور علی پنگھوڑے سے نکل کر پیروں پر کھڑا ہونے لگا۔ پھر وہ دن بھی جلد آ گیا جب یونیفارم پہنے نور علی اسکول جانے کو تیار کھڑا تھا وزیر علی نے اسے گورنمنٹ بوائز اسکول میں داخل کروایا تھا۔ وزیر علی ٹیکسٹائل مل میں چوکیدار تھا ٹیکسٹائل مل مالی مشکلات کا شکار تھی کام آدھا رہ گیا تھا بہت سے مزدور ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے مشینوں کی حفاظت بہت ذمہ داری کا کام تھا۔

بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کر کے وہ تھکا ہارا آتا اور کھا پی کر سو جاتا۔ چھوٹے سے گھر کو ثریا ہر ممکن آرام دہ رکھنے کی کوشش کرتی۔ کمرہ صاف اور کشادہ نظر آئے اس کے لئے وہ چوکی پر رکھی چیزوں پر سیاہ چادر ڈال کر نادیدہ کر دیتی۔ لیکن وزیر علی نے کبھی سوچا نہ تھا کہ ثریا بیٹے کی نسوانی حرکات و سکنات پر بھی اسی طرح کالی چادر ڈال دیتی ہے وہ بے خبر ہی رہا۔

عید کا وہ دن وزیر علی کے لئے عاشورے کا دن ثابت ہوا۔ اس نے ثریا سے کہا نور علی کو عید کی نماز کے لئے تیار کردے۔ ثریا کہنے لگی نور کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ اکیلا ہی چلا جائے لیکن وزیر علی نہ مانا کتنے عرصے بعد اسے اپنے بیٹے کے ساتھ عید کی نماز پر جانے کا موقع ملا تھا۔ پچھلے کچھ برسوں سے ہر عید پر اس کی ڈیوٹی لگ جاتی تھی۔ سنت کے مطابق ایک راستے سے عیدگاہ گئے اور دوسرے سے واپس آنے اس کے پیچھے حکمت یہ ہوتی ہے کہ عید کے دن زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کی جائے۔ بے چارے وزیر علی کو کیا معلوم تھا کہ اس طرح وہ خود پر ہنسنے والوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ لوگ گلے ملتے وقت عجیب استہزائیہ نظروں سے نور علی اور پھر اسے دیکھتے وزیر علی سمجھنے سے قاصر تھا کہ اسے نکو کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اخر چاچا شمشاد کی دریدہ دہنی سے معاملہ کھلا انہوں نے کہا

، ”تو نور علی کو عید گاہ کیوں لایا ہے عید گاہ میں صرف مرد آتے ہیں“

”کیا مطلب ہے تمہارا“ ۔ وزیر علی کو جیسے کسی نے طمانچہ دے مارا ہو۔ اتنے عرصے میں وہ نور کی پیدائش والا دن فراموش کر بیٹھا تھا۔

چاچا شمشاد کا اگلا جملہ کلہاڑی کے وار کی مانند سر سے پاؤں تک کاٹتا چلا گیا

”بھئی مردانہ نام رکھنے سے کوئی مرد تو نہیں بن جاتا ناں سب جانتے ہیں نور علی کی چال ڈھال بول چال سب زنانی ہے۔ وزیر علی بہتر ہے اس کا علاج کروا یا پھر اسے“ وہیں ”بھیج دے“ ۔

اس دن وزیر علی نے نور علی کو خوب پیٹا اور ثریا کے بھی خوب لتے لئے جس نے نور علی کی صحیح تربیت نہیں کی تھی۔ ثریا نے کہا اس کا کوئی سنگی ساتھی نہیں۔ گھر میں کوئی نر نہیں۔ سارا دن ماں اور بہنوں کے ساتھ رہ کر انہی کا طور طریقہ سیکھے گا۔ نور علی بارہ سال کا ہو رہا تھا وزیر علی نے اسے موٹر ورکشاپ پر رکھوا دیا کام بھی سیکھ لے گا اور مردانہ صحبت بھی حاصل ہو جائے گی۔ لیکن سادہ لوح وزیر علی نہیں جانتا تھا کہ ورکشاپ پر نور علی کو مردانہ صحبت کے ساتھ مردوں سے صحبت کرنا بھی بھگتنا ہوگا۔

استاد نے نہ صرف اس کے ساتھ بد فعلی کی بلکہ اس کی اوقات بھی جتلا دی نور علی کے کانوں میں وہ استہزائیہ جملہ خالی گنبد کی طرح گونجتا رہا جو اس نے قہقہہ لگا کر کہا تھا ”ابے سالے تو تو۔“ ۔ نور علی جب پہلی بار اس غلیظ اور تکلیف دہ عمل کا شکار ہو کر گھر آیا تو ثریا اس کے چہرے کے پیلے پن اور عجیب طرح چلنے سے گھبرا گئی۔ اس نے کہا وہ اپنے بچے کو ورکشاپ نہیں بھیجے گی لیکن وزیر علی نے جھڑک کر کہا

”، زندگی میں پہلی بار کام کیا ہے تو نڈھال تو ہوگا ہی، تھوڑے دنوں میں عادت پڑ جائے گی۔“

وزیر علی کا اندازہ درست نہیں تھا سال بھر میں بھی نور علی کو عادت نہیں پڑی وہ اس قبیح فعل سے تنگ آ گیا تھا کھل کر بات کرنے کی ہمت نہیں تھی پر اس نے باپ کے سامنے ورکشاپ جانے سے صاف منع کر دیا۔ وزیر علی پہلے ہی پریشان تھا ٹیکسٹائل مل بک گئی تھی اسے نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ ایک مشہور ٹیکسٹائل برانڈ کے مالک نے مل خریدی تھی۔ وزیر علی یونین والوں سے ملا تھا اور انہوں نے دلاسا دیا تھا کہ نئے مالک سے میٹنگ میں اس کی نوکری کی بحالی کی بات کریں گے۔

فراغت کے دن مالی طور پر تو دل شکن تھے ہی، لیکن اس سے زیادہ زمانے کے سنگ دلانہ رویے نے ہتھوڑے برسائے تھے۔ آتے جاتے اسے زنخے ہیجڑے کا باپ ہونے کی پھبتیاں سنائی دیتیں۔ کچھ ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر نور علی کو ہیجڑوں کے سپرد کرنے کا مشورہ دیتے۔ اس ذہنی پراگندگی میں وہ نور علی کا باغیانہ رویہ بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا اس نے اسے گھر سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ”جہاں اس کا سینگ سمائے چلا جائے“

پانچویں پاس نور علی کو سینگ سمانے کا ٹھکانہ کہاں ملتا۔ چند دن فٹ پاتھ پر گزار کر آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل گیا وہ گھر لوٹ کر آیا لیکن وزیر علی نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نور علی کے منتشر ذہن نے خودکشی کا راستہ سجھایا۔ اڈہ ظہیر نگر کے کھلے پھاٹک پر فرید ایکسپریس کے آنے کا وقت تھا۔ ٹرین کی وسل سنائی دی اور ٹریک پر ارتعاش محسوس ہوا تو نور علی نے ٹریک پر چھلانگ لگادی۔ فرید ایکسپریس کے اکانومی ڈبے ایک کے بعد ایک زمین دھمکاتے گزر گئے ٹرین کی کھڑکیوں سے ہاتھ ہلاتے مسافروں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اڈہ ظہیر کے پھاٹک پر مایوسیوں کی دلدل میں دھنسا نور علی موت کے منہ سے کھینچ لیا گیا۔

نور علی کا جسم اسٹیرائیڈ کی بھڑک سے کانپ رہا تھا دل ایک سو بیس کی رفتار سے دھڑک رہا تھا اور سانس سینے میں سمانا مشکل ہو رہا تھا۔ ٹرین سر پر آیا ہی چاہتی تھی کہ سخت ہاتھوں نے اس کا بازو دبوچ کر پیچھے کھینچ لیا تھا وہ ہاتھ اب بھی اس کا بازو سختی سے جکڑے ہوئے تھے۔ حواس لوٹے تو اسے بندش پر درد کا احساس ہوا اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک خواجہ سرا تھا نور علی کو جانے کیوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اپنے کے ساتھ ہے وہ اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

گرو روبی ایک ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ تھی نور علی نے اپنے بارے میں سب کچھ اسے بتایا۔ اس نے کہا کہ وہ شروع سے لڑکیوں کی مانند محسوس کرتا تھا اس کے جسم کی ابتدائی تبدیلیاں بھی لڑکیوں جیسی تھیں لیکن اس کا باپ اسے لڑکا بنانے پر مصر تھا۔ روبی اس کا درد سمجھ سکتی تھی کیونکہ یہ درد سانجھا تھا۔ اس نے نور کو اپنے گروہ میں شامل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد نور علی نے اپنی شناخت اور حلیہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جو درحقیقت ہمیشہ سے تھی۔ روبی اس وقت مسکرا دی جب ٹرانس جینڈر ٹیلر خرم کے پاس ماپ دیتے ہوئے نور نے وفور شوق سے کہا ”پیچھے کا گلا بھی گہرا رکھنا انڈین اداکاراؤں کے جیسا۔“ لیڈیز کپڑے پہن کر وہ قد آدم آئینے کے سامنے زاویے بدل بدل کر خود کو دیکھتی رہی تھی۔

روبی کے ساتھ بے فکر رہتے ہوئے اسے دو مہینے ہو گئے تھے کہ اسے آگاہ کیا گیا کہ معاش کے لئے اسے وہی کرنا ہوگا جو کمیونٹی کے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ اور تب نور پر یہ تلخ حقیقت کھلی کہ جس عمل کی وجہ سے اس نے گھر چھوڑا تھا اب پیٹ کی خاطر اسے کرنا ہوگا۔ روبی نے اس کی جان بچائی تھی اور اسے چھت کا آسرا دیا تھا نور اس کام کے علاوہ اس کی ہر بات ماننے کو تیار تھی۔ روبی نے فراخدلی سے اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اسے رقص اور گیت تک محدود کر دیا۔

نور نے اس فن میں جلد ہی مہارت حاصل کرلی۔ وہ مختلف محفلوں میں پرفارم کرنے لگی۔ اس کا لوچدار جسم ناگن کی طرح بل کھاتا اور اس کی ہائی پچ آواز اونچی تان لگاتی تو بہت سے منچلے مچل جاتے۔ جلال شاہ انہی میں سے ایک تھا نور کے بہت سے پروگرام اسی کی مدد سے طے پاتے تھے۔ شاید اسی لئے وہ نور پر اپنا حق سمجھ بیٹھا تھا۔ ایک محفل میں اس نے دست درازی کی کوشش کی تو نور نے سختی سے اس کی پیش قدمی کو روک دیا۔ تاہم جلال شاہ نے اسے عشوہ و غمزہ جانا اور اگلی محفل میں مزید بے باکی دکھائی وہ ہنس رہا تھا اور بے حجابی سے اسے چھو رہا تھا اچانک نور کا ہاتھ اٹھا اور جلال شاہ کے رخسار پر اس زور کی تالی بجائی کہ آخری کونے تک سنی گئی۔ اس زور کی تالی تو اس نے جلال شاہ کے بیٹے کی پیدائش کے شگن پر بھی نہیں بجائی تھی۔ جلال شاہ سناٹے میں آ گیا اتنی توہین، وہ بھی دو ٹکے کے ہیجڑے کے ہاتھوں۔ کیا رکھا ہے اس جسم میں جس پر اسے اتنا ناز ہے۔

”بہت پچھتاو گی“ اس نے صرف اتنا کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
”پیدا ہونے سے بڑھ کر کیا پچھتاوا ہوگا“ اسے پیچھے سے نور کی بے خوف آواز سنائی دی۔

گرو روبی اس واقعے سے خوفزدہ ہو گئی تھی نور کو یوں محفل میں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا وہاں موجود لوگ جلال شاہ کو طعنے مار کر اکسائیں گے اور اس کا خطرناک نتیجہ نکل سکتا تھا۔ پچھلے تین سالوں میں چھیانوے خواجہ سرا موت کے گھاٹ اتارے جا چکے تھے اور زیادہ تر کیسز میں قاتل قریبی واقف تھا۔ اس نے معاملہ ٹھنڈا ہونے تک نور کو باہر جانے سے روک دیا۔ چند مہینے تک نور کسی محفل میں رقص کرنے نہ گئی لیکن کب تک ایسا چلتا پیٹ کی آگ تو پیسے سے ہی بجھتی ہے۔

اخر اس نے روبی کو اگلے پروگرام میں جانے کے لئے منا لیا۔ چوہدری افتخار کے گھر بچے کا شگن تھا۔ روبی خود بالی اور نور کے ساتھ گئی۔ بالی اور روبی کی نغمہ سرائی پر نور کے پیر مہارت سے تھرک رہے تھے اس دن اسے داد اور بخشش خوب ملی۔ ادھی رات کے وقت ٹیکسی میں واپسی ہوئی۔ ابھی ٹیکسی نے گلی کا موڑ کاٹا ہی تھا کہ پیچھے سے آنے والے سفید کار سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ہیڈ لائٹ کی روشنی میں کار سے اترنے والے شخص کو پہچاننے میں کوئی مغالطہ نہیں ہو سکتا تھا اسلحہ بردار شخص ٹیکسی کی طرف آیا اور پچھلا دروازہ کھول کر ٹرگر دبا دیا آتشیں اسلحے سے چنگاریاں نکلیں اور نور اور بالی سرخ چنری میں لپٹی گٹھڑیوں کی مانند لڑھک گئیں۔ جلال شاہ مڑا، کار میں بیٹھا اور کار روانہ ہو گئی۔ اگلی سیٹ پر بیٹھی روبی جیسے سکتے سے جاگ اٹھی وہ چلائی ”ڈرائیور جلدی اسپتال چلو“

لیکن اسپتال پہنچنے میں دیر ہی ہو گئی۔ ہسپتال میں اسٹاف اور عوام کا رویہ بہت سنگدلانہ تھا۔ نور مر چکی تھی مگر بالی زخمی تھی۔ بالی کو مردانہ وارڈ میں رکھا جائے یا زنانہ وارڈ میں اسی قضیے میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا۔ پورے ملک میں PIMS کے علاوہ ٹرانسجینڈر کے لئے کسی اسپتال میں وارڈ مختص نہیں۔ ہاسپٹل انتظامیہ نے پولیس کو انفارم کر دیا تھا۔ پولیس بیان ریکارڈ کرنے کے بعد نور کی نعش اٹھا کر لے گئی تھی۔ وارثوں کو اطلاع دی گئی مگر وزیر علی نے لاش اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس کا کسی ناچ گانا کرنے والے ہیجڑے سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ پر روبی کا تو تھا اس نے اس کی آخری رسوم ادا کیں۔ اس نے ٹرانسجینڈر ایکٹو کے پلیٹ فارم سے نور کے قتل کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جلال شاہ جلد دھر لیا گیا۔ شواہد بہت مضبوط تھے اسے یقین تھا جلال شاہ بچ نہیں سکتا تھا۔

کیس چلتے کافی عرصہ ہو گیا تھا جلال شاہ پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی چند پیشیوں میں 302 کے تحت سزا ہونے کی توقع تھی۔ اگلی پیشی سے ایک دو دن پہلے وہ وکیل کے پاس گئی۔ وکیل نے جو بتایا اس نے اس کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔ وکیل نے کہا

’کیس ختم سمجھو کیونکہ وارثوں نے دیت لے کر جلال شاہ کو معاف کر دیا ہے ”
”کون سے وارث؟ اس کی وارث میں ہوں“ روبی نے کہا
”نور کا باپ وزیر علی“ وکیل نے کہا
”وزیر علی! جس نے لاش لے جانے سے انکار کر دیا تھا“
”بی بی عدالت جذبات پر نہیں قانون پر چلتی ہے اور قانوناً وزیر علی اس کا وارث ہے“

اور روبی سوچ رہی تھی قانون تو مظلوموں کی دادرسی کے لئے بنائے جاتے ہیں پھر یہ ظالموں کے ہاتھ میں کھلونا کیوں بن جاتے ہیں۔ کیا واقعی نور پر وزیر علی کا حق تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments