پاکستان میں پناہ لینے والے افغان پناہ گزین: ’ہمسائیوں کو کہا ہے کہ اگر میرے شوہر واپس آئیں تو بتا دیں کہ میں پاکستان میں ہوں‘

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


Kabul
اس وقت کوئٹہ میں افغانستان کے صوبے غزنی، میدان وردک، کابل کے دشتِ برچی علاقے اور دیگر مقامات سے لوگ مسلسل پہنچ رہے ہیں
’میرا قصور یہی ہے کہ میں ہزارہ ہوں۔۔۔ میرا جُرم بھی یہی ہے کہ میں ہزارہ ہوں۔‘

یہ الفاظ تھے ایک 24 برس کی افغان ہزارہ لڑکی کے جو بی بی سی کو اپنی افغانستان سے پاکستان آنے کی روداد سنا رہی تھیں۔

میں ایک ایسے کمرے میں بیٹھی تھی جہاں یکے بعد دیگرے کئی افغان ہزارہ افراد نے مجھے اپنے افغانستان سے پاکستان آنے کے سفر کی کہانیاں سنائیں۔

اس وقت دنیا بھر کی نظریں جہاں افغانستان پر جمی ہوئی ہیں، وہیں ایک بہت بڑی افغان آبادی پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔ اس آبادی کا ایک حصہ وہ افغان ہزارہ بھی ہیں جو حالیہ دنوں میں مختلف راستوں کے ذریعے پاکستان کے شہر کوئٹہ تک پہنچے ہیں۔

کوئٹہ پہنچنے پر ایسا محسوس ہوا جیسے یہ تمام باتیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔ یہی مناظر پہلے بھی قلمبند کیے جا چکے ہیں۔

ہزارہ چاہے پاکستان میں ہوں یا پھر افغانستان میں وہ ہمیشہ در بدری کی حالت میں ہی رہے ہیں۔ ایسے میں افغانستان سے پناہ کی غرض سے راہ فرار اختیار کرنے والے ہزارہ کیسے یہاں تک پہنچے جبکہ پاکستان کی جانب سے خاصے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ کسی بھی قسم کے پناہ گزینوں کو ملک کے اندر آنے کی اجازت بھی نہیں ہے؟

پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے پیر کے روز اپنے بیان میں پاکستان میں پناہ گزینوں کی موجودگی کی تردید کی ہے لیکن کوئٹہ میں بی بی سی نے تقریباً چھ ایسے خاندانوں سے ملاقات کی ہے جو اس وقت افغانستان کے مختلف علاقوں سے بھاگ کر نہ صرف چمن اور طورخم بلکہ دیگر راستے اختیار کر کے پاکستان پہنچے ہیں۔

یہ جاننے کے لیے میں نے ان چند لوگوں سے بات کی جو حال ہی میں بےسر و سامانی کی حالت میں کوئٹہ پہنچے ہیں۔ ان تمام افراد کی شناخت ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ظاہر نہیں کی جا رہی۔

افغان پناہ گزین

ایک افعان پناہ گزین: خدا کسی کو مجبور نہ کرے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں بھاگ کر نہ آتی، وہیں رہتی۔ میرے شوہر کو طالبان لے جاچکے ہیں اور مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مرچکے ہیں۔

اس وقت کوئٹہ میں افغانستان کے صوبے غزنی، میدان وردک، کابل کے دشتِ برچی علاقے اور دیگر مقامات سے لوگ مسلسل پہنچ رہے ہیں۔ کسی کا بیٹا پہنچ سکا ہے تو والدین افغانستان میں رہ گئے ہیں، کوئی دو بچوں کے ساتھ پہنچ سکا ہے تو باقی دو بچے ہمسائے کے ساتھ کسی اور محفوظ مقام پر بھیج دیے گئے ہیں۔

تقریباً ان سبھی افراد نے بتایا کہ ان کے گھر یا علاقے سے ایک یا دو فرد طالبان کے قبضے میں ہیں۔ ان کے یہاں آنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہزارہ برادری کے خلاف طالبان کے حالیہ حملے ہیں، جن میں اطلاعات کے مطابق اب تک نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سب سے پہلے میری بات ہوئی بامیان سے آئی دو بہنوں سے۔

ان کو صرف قندھار سے کوئٹہ تک پہنچنے میں چار دن لگے۔ میرے سوال پوچھتے ہی ان میں سے ایک 24 برس کی لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر افغان فوج میں کمانڈنٹ تھے اور انھیں طالبان اپنے ساتھ لے جا چکے ہیں۔

’خدا کسی کو مجبور نہ کرے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں بھاگ کر نہ آتی، وہیں رہتی۔ میرے شوہر کو طالبان لے جا چکے ہیں اور مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مرچکے ہیں۔

’میں نے آنے سے پہلے اپنے ہمسائے کو بتایا کہ اگر میرے شوہر واپس آجائیں تو انھیں بتا دیں کہ میں پاکستان میں ہوں۔‘ یہ بات سنتے ہی اس کمرے میں موجود تمام افراد کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ سب لوگ جیسے گہری سوچ میں گم ہو گئے۔

افغان پناہ گزین

تقریباً ان سبھی افراد نے بتایا کہ ان کے گھر یا علاقے سے ایک یا دو فرد طالبان کے قبضے میں ہیں۔ ان کے یہاں آنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہزارہ برادری کے خلاف طالبان کے حالیہ حملے ہیں، جن میں اب تک نو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

’میرا قصور یہ ہے کہ میں ہزارہ ہوں۔ میرے ساتھ ایک چھ برس کی بچی اور ایک تین ماہ کا بچہ ہے۔ ہم دو بہنیں تنہا یہاں تک پہنچی ہیں۔ مجھے تین بار چمن سرحد سے واپس بھیجا گیا۔ کہا گیا کہ ہزارہ کو نہیں آنے دیں گے۔ میں قندھار سے کابل، پھر کابل سے جلال آباد پہنچی تو بتایا گیا کہ واپس جاؤ اور چمن بارڈر سے آؤ۔ میرے بچوں نے جب رونا شروع کیا اور میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں واپس نہیں جا سکتی تو مجھ پر شاید رحم کھا کر مجھے اندر آنے دیا گیا۔‘

اسی طرح ایک 18 برس کا لڑکا بھی تنہا کوئٹہ تک پہنچا ہے۔

اسے لڑکے کو بتایا گیا کہ یا تو امام بارگاہ چلے جاؤ یا پھر کسی مسجد میں پناہ لے لو، تو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں غزنی میں تین ماہ پہلے فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ جیسے ہی غزنی طالبان کی قبضے میں آیا تو انھوں نے افغان فوج سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں اور افسران کی تصویریں لوگوں کو دکھا کر ان کی رہائش کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔‘

’میں ایک دن گھر پر نہیں تھا۔ اسی دوران مجھے میرے والد کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ طالبان تمہاری تلاش میں ہیں۔ تم پہلی فرصت میں یہاں سے چلے جاؤ۔ تو میں قندھار کے راستے کابل اور پھر کوئٹہ پہنچا۔ میری اس کے بعد اپنے والد سے بات نہیں ہوئی ہے۔‘

اس وقت کسی کو نہیں پتا کہ انھیں یہاں سے کہاں جانا ہے۔

افغان پناہ گزین

ایک 18 برس کے افغان پناہ گزین کو بتایا گیا کہ یا تو امام بارگاہ چلے جاؤ یا پھر کسی مسجد میں پناہ لے لو، تو کوئی کچھ نہیں کہے گا

یہاں پہنچنے والوں میں غزنی کے زمیندار اور کسان بھی ہیں، مویشی اور بھیڑ بکریاں دوسروں پر بیچ کر بھی بہت سے لوگ سرحد پار کر کے یا پھر دوسرے رستوں سے سمگلروں کو پیسے دے کر پہنچے ہیں۔

ایک کسان نے بتایا کہ ’جو ٹیکسی والے عام دنوں میں سرحد سے شہر تک پہنچانے کے دو ہزار روپے لیتے ہیں انھوں نے مجھ سے پندرہ ہزار روپے لیے ہیں۔ مجھے ایجنٹ نے کہا کہ راستے میں جو بھی پیسے مانگے دے دینا کیونکہ تمھیں واپس تھوڑی جانا ہے افغانستان۔۔۔‘

یہاں ایک ایسا جوڑا بھی موجود تھا جو اس سے پہلے تین بار افغانستان سے فرار ہوکر پاکستان آ چکا ہے۔ اپنے چھ ماہ کے بچے کو گود میں لیے اس جوان جوڑے نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ اپنے خاندان کے ساتھ سنہ 1996 میں طالبان کی پہلی حکومت آنے کے وقت بھاگے تھے۔

ان دونوں کی عمر پچیس اور چھبیس سال ہے۔ لڑکے نے بتایا کہ ’میں اپنے خاندان کے ساتھ پہلے سنہ 1996 اور پھر سنہ 2003 میں پاکستان آ چکا ہوں۔‘ لڑکی نے بتایا کہ ’اُس وقت لگتا تھا کہ یہ بھی گھر ہے۔ اب تیسری بار فرار ہونے کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہمارا بچہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بار طالبان کے آنے پر کہا گیا کہ وہ لوگ تبدیل ہوگئے ہیں۔ ’لیکن ہم لوگ مزید تجربہ نہیں کرنا چاہتے اور تھک گئے ہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد ہر کوُچے (گلی) سے دو سے تین افراد لاپتہ ہیں، ہمارے اپنے رشتہ دار اور دوست لاپتہ ہیں، اور ان میں زیادہ تر تعداد جوان لڑکوں کی ہے۔‘

لیکن ہزارہ برادری نے اپنی حفاظت کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا ہے وہ بھی ان کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں ہے۔ وہ کوئٹہ کو ’ہزارہ کا قبرستان‘ کہتی ہے جس کی وجہ ان کے خلاف یہاں ہونے والے حملے ہیں جن میں اب تک کئی سو افراد مارے جاچکے ہیں جن میں سے کئی یہاں کہ قبرستانوں میں دفن ہیں۔

2012 سے لے کر حالیہ دنوں تک ہزارہ برادری کے خلاف حملوں میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

افغان پناہ گزین

کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش کے خراسان گروہ نے قبول کی اور یہ وہی گروہ ہے جو اس سے پہلے بھی ہزارہ برادری کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہدف بناتا رہا ہے۔ افغانستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف بھاگ نکلنے کی ایک وجہ افغان ہزارہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر طالبان کے حملوں سے بچ گئے تو داعش کے حملوں کا شکار ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان آنے والے افغان شہری ’پناہ گزین‘ کیوں نہیں ہیں؟

صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

پاکستان آنے والے افغان پناہ گزین: ’طالبان خوفناک لوگ ہیں۔۔۔ ان کے سینوں میں دل نہیں‘

ان تمام تر آنے والوں میں شکم دار خواتین بھی ہیں۔ اور ان کی تمام تر مدد اور حفاظت کا ذمہ اس وقت کوئٹہ میں مقیم برادری نے اٹھایا ہوا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ افغانستان کی ہزارہ برادری اپنے لیے کسی محفوظ مقام کی تلاش میں ہے۔ لیکن اس بار ایک بے بسی بھی ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

خود کو لاحق خطرات کے باوجود افغان ہزارہ برادری کے کئی افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت کوئی بھی جگہ افغانستان واپس جانے سے کئی گنا بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp