بھول جانے کا ہنر


یاد ماضی کا عذاب نہ جانے کیوں انسان کئی بار بوجھ کی صورت اپنے ساتھ لے کر چلتا رہتا ہے، حالانکہ گزرے وقتوں کی باتیں لمحے کس قدر گہرے اثرات ہمارے دل و دماغ پر چھوڑ گئے ہوتے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بے شمار حسین یادیں کسی فلم کی صورت ایک جھٹکے سے چل پڑتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ تلخ حقائق بھلائے نہیں بھول پاتے، وہ جیسے رستے زخموں کی مانند ہوتے ہیں، جن کی تکلیف درد کی شدت ایک ذہنی تسکین بھی دیتی ہے، کیونکہ ہم وہ لمحات جیسے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔

صرف یہ یاد تازہ کرنے کے لئے کہ کیسے ہمارے اپنوں اور پیاروں نے تیکھے نشتر چلائے جنہیں دل پر پیوست کرتے کتنا دکھ ہوا، آنکھوں سے بہنے والے چشمے کیسے دامن تک بھگو گئے تھے۔ نگاہیں اس غم کے بوجھ سے جیسے دھندلا سی گئیں۔ ہم نے کیا کہا اور وہ نہ جانے کچھ اور سمجھ کر جان ہی لے گیا۔ بڑھے ہوئے ہاتھ کو ایک ہی جھٹکے سے اپنے سے الگ کر کے فاصلے کچھ یوں وسیع کر گیا کہ نظریں ایک مدت تک اس سائے کا تعاقب ہی کرتی رہ گئیں جسے کبھی اپنے انتہائی قریب سانسوں کے پاس پاتا تھا۔

یہ سب کچھ نہ جانے کب ہوا معلوم ہی نہیں پڑنے دیا، وہ ظالم محبت کا دعویدار نہ جانے کب ہمیں حریفوں کی فہرست میں شامل کر کے اگلی منزل کا راہی بن چکا تھا۔ خبر ہی نہ ہوئی کہ ہم اب ساتھی نہیں یہ محض تعارف یا دکھاوا تھا۔ وہ کہیں اور جا چکا تھا ہم وہیں اس کے ہمراہی ہونے کا بھرم لئے بیٹھے رہے۔ ایک آس تھی کہ شاید وہ لوٹ آئے ایک بھروسا دل کو آس دلائے رکھتا۔ نہیں ایسا کچھ نہیں تمہارا وہم ہے، لیکن کبھی وہم بھی غلط ہوئے وہ تو جیسے بنے ہی ہمیں بہکانے کے لئے ہیں۔

ایک بات تھی کہ کیا کچھ فراموش کریں بہت کچھ ایک سہانے خواب کی مانند تھا وہ تو جیسے یاد آتے ہی جان سی نکال دیتا، اگر اسے سہارا بنائیں تو زندگی خوب گزر جاتی مگر تلخ جملے دل میں پیوست ہونے والے طعنے، سب سے بڑھ کر سچ پر مبنی ایسے منہ پر دکھائے گئے آئینے جنہیں خود سے دوبارہ نگاہ ڈالنے پر جیسے موت طاری ہونے لگتی، وہ ایک عرصہ گزرا بھول کر کہیں اور زندگی بسر کر گیا، ہمیں اس فن سے لاعلمی کا شکار بنائے رکھا، ویسے کوئی مشکل نہیں لیکن ایک طرح سے دیکھیں تو محبت میں گزرے لمحات فراموش کرنا کوئی آسان بھی نہیں۔

اس کی پیچیدگی اور گہرائی جاننے میں وقت لگتا ہے، انسان مطلب یا مادیت کی دنیا میں بس رہا ہوتا تو پھر بھلانے کا فن جلد جان لیتا ہے ایک کے بعد ایک انسان اس کی ذلت آمیز اور تکلیف پہنچا دینے والی رسوائیوں کے تیر کھاتا اور گھائل ہوتا جاتا ہے۔ جس نے ساتھ نبھانے کے عہد و پیمان کیے ایک وقت دوسرے سے اپنائیت اور پیار بھرپور کیفیت کے تبادلے میں گزارا ہو، وہ کسی طور یک دم سب کچھ پاش پاش نہیں کر پاتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہاتھ چھوڑنا اور پلٹ کر نگاہ تک نہ ڈالنے کی نوبت آ جانے کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اندر گہرے زخم لگا چکا ہے، اس کی حالت بھی ماضی میں کوئی اچھی نہ تھی کہیں اس کا بھی بھروسا بہت بری طریقے سے ٹوٹا ہے، اس ٹوٹ پھوٹ نے اب دونوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے، انہیں کچھ زیادہ اچھا یاد نہیں، تلخیاں باہمی تبادلے کا وسیلہ بن چکی ہیں۔

اب کون سچا اور کون جھوٹا اس کا تعین یا فیصلہ بھی مشکل ہے، دکھوں کی گٹھڑیاں ہر فریق نے کندھے پر اٹھا رکھی ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ زیادہ دور تک سفر کرسکیں بہتر یہی ہے کہ کہیں پھینک کر اگلی منزل اور کسی سہارے کی تلاش کی جائے، ضروری نہیں نیا آسرا کوئی ویسا ہی ہو۔ وہ فرصت کے لمحے ہوسکتے ہیں کوئی نئی مصروفیت یا پھر خدا سے رابطے کے طے شدہ طریقے ہیں۔

فراموش کر کے ساتھ چلنا سب سے مشکل ہے، جیسے بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔ یہ کبھی کبھی منافقت پر مبنی ساتھ لگتا ہے، اسے نبھانے میں جو بوجھ محسوس ہوتا ہے، وہ تکلیف میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اچھے انداز سے بھول جانے کا ہنر سیکھ لیا جائے۔ اور زندگی کسی دوسری راہ پر ڈال دی جائے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments