افغان طالبان، سعودی عرب اور عورتیں



طالبان کے افغانستان پہ قبضہ کے بعد شریعہ قانون نافذ ہو چکا ہے۔ وہاں کی سختیاں ہمارے علم میں ہیں۔ مردوں کے لیے داڑھی سے لے کر لباس تک اور خواتین کے لیے پردے کی سختیاں، تعلیم پر پابندی کسی بشر سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں کی شرح خواندگی % 43 ہے۔

حضرت علیؓ کا قول ہے۔ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن نا انصافی اور ظلم کا نہیں۔ جب کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق امن شریعت کے قانون میں موجود سزاؤں سے ہی آ سکتا ہے۔ افغانستان ایک مرتبہ پھر 90 کی دہائی میں واپس لوٹ رہا ہے۔ جہاں افغان سیاست دان فوزیہ کوفی کو محض ناخن پالش لگانے پر طالبان کی جانب سے سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ بھلے جتنے بھی سبز باغ دکھائے جائیں لیکن ملک میں ایک بار پھر وہ ہی خانہ جنگی کا قوی امکان ہے۔

شریعت نافذ کرنے والے ممالک کو بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک زمانہ تھا سعودیہ عرب بھی ایسی ہی تنقید کے زد میں تھا۔ کیوں کہ وہاں انسانی حقوق، مساوات، خواتین کے حقوق، انفرادی ترجیحات اور آزادی کے تحفظ کی کمی پائی جاتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب مسلم امہ کے لیے سب سے بابرکت زمین بھی ہے۔ مسلمانوں کے دو مبارک ترین شہروں کے یہاں وقوع ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اور اسی نسبت سے دنیا بھر کے مسلمان سعودیہ عرب سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ زمین نا صرف مقدس ہے بلکہ یہاں کے قوانین شریعت کے عین مطابق ہیں۔

کچھ عرصہ قبل یہاں سختیاں اور انتہا پسندی عروج پر تھی مگر اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ اور شدت پسندی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ تحریر حالات حاضرہ کے تناظر میں سعودی عرب کی بڑھتی آزادی اور افغانستان کی بڑھتی پسماندگی کے مابین واضح فرق کی نشاندہی ہے۔

2015 میں جب سلمان بن عبد العزیز نے اقتدار سنبھالا، تبدیلی کا آغاز تب ہی ہو گیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ان تمام تبدیلیوں کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔ اگر کچھ عرصہ پیچھے جائیں تو ہر ایک شخص اس بات سے واقف ہوگا کہ سعودی عرب کافی قدامت پسند ملک تھا، مگر برق رفتاری سے یہاں کافی تبدیلیاں آئیں۔

چند سال قبل نماز کے اوقات اگر کوئی باہر گھومتا نظر آتا تو مذہبی پولیس اس کو گرفتار کر لیتی اور تمام نمازیں پڑھوائیں جاتیں۔ عورتیں اگر میک یا لپ اسٹک بھی لگا لیتی تو مطوع اسی وقت میک اپ اتارنے کا حکم صادر کرتے۔ غیر مسلم کو بھی عبایہ پہننا لازم تھا۔ عبایہ بھی صرف سیاہ رنگ کا ہونا شرط تھی۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ کوئی عورت نا محرم مرد کے ساتھ باہر نظر نا آئے۔

اب علاقوں میں مذہبی پولیس نظر نہیں آتی، یقیناً یہ انتہا پسندی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اب خواتین جتنا چاہے میک اپ کر کے باہر (تنہا) نکل سکتی ہیں۔ لباس کے لیے عبایہ، نقاب، حجاب کی کوئی پابندی نہیں۔ لباس ایسا ہو کہ جسم نمایاں نا ہو مگر شاپنگ مالز، ریستوران، پارکوں، اسپتالوں میں خواتین جینز، ٹی شرٹ اور اسکرٹ میں بھی آزادی سے گھومتی ہیں۔ لیکن کوئی سختی نہیں۔ نا ہی چھیڑ چھاڑ یا ہراسانی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ مرد بھی قومی لباس کے ساتھ ساتھ مغربی طرز کا لباس اور شارٹس وغیرہ کھلے عام پہنتے ہیں۔

ملک کے تمام بڑے شہر بالخصوص ریاض میں کچھ ایسے ریستوران اور کیفے کھل گئے ہیں جہاں مخلوط ماحول ہے۔ جہاں تیز آواز میں میوزک اور انگلش اور عربی گانے چل رہے ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی افغانستان کی طرح موسیقی کے دلدادہ ہیں۔

کچھ عرصہ قبل سعودی وزیر ثقافت نے ٹویٹر پر ایک پرانی تصویر پوسٹ کی۔ جس میں اسکول کے میوزیکل بینڈ کے بچے نظر آرہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ عبارت تحریر کی ”خوب صورت دن۔ جلد واپس آئیں گے“

اسکول میں اب باقاعدہ موسیقی، تھیٹر اور دیگر فنون متعارف کرائے جائیں گے۔

گزشتہ سال سے عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی۔ اس عمل سے معیشت کو بھی تقویت ملی ہے۔ اب خواتین آزادی کے ساتھ گھروں گلیوں کے باہر اسکوٹی چلا رہی ہیں۔ اور وہ اپنی سرزمین پر محفوظ بھی ہیں۔

سنہ 2019 میں ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے انتہائی رجعت پسندانہ تاثر کو ختم کرنے کے لیے ملک میں فلم تھیٹر، موسیقی کے مخلوط کونسرٹس اور کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کا آغاز کیا۔ تاکہ ملک کو اعتدال پسندی کی جانب لے جایا جائے۔ جس کے بعد سعودی عرب کے بڑے شہروں میں سینما گھر قائم کیے گئے۔ ایک منصوبہ کے تحت سنہ 2030 تک سینما کی تعداد 350 اور مووی اسکرین کی تعداد تقریباً 2600 ہو جائے گی۔

شہر جدہ باقی شہروں کی نسبت پہلے بھی ذرا ماڈرن تھا اور وہاں پابندیاں سخت نہیں تھیں۔ اسی شہر میں اوپرا ہاؤس کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جدہ اور خبر نامی شہروں کے نجی ساحل سمندر میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ وہاں مکمل شخصی آزادی ہے جو کہ دبئی یا مغرب میں دیکھی جاتی ہے۔

سعودی عرب کے اسی دور میں خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔ تعلیم کے حصول کے لیے یہاں کبھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں شرح خواندگی % 95.33 ہے۔

خواتین اب سیلز سے لے کر اعلیٰ افسر کے عہدوں تک ہر شعبہ میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ اب ہر جگہ سیلز گرلز اور سیلز کاؤنٹر پر خواتین بلا خوف و خطر مردوں کے شانہ بشانہ فرائض نبھا رہی ہیں۔ حکومت وقت نے خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبوں اور دکانوں میں خواتین کو بڑے پیمانے پر ملازمت کے مواقع مہیا کیے۔ حال ہی میں جدہ لولو سپر مارکیٹ کا افتتاح ہوا۔ جہاں تمام اسٹاف 103 خواتین پر مشتمل ہے۔ اسی طرح خواتین ڈاکٹر، نرس مردوں کے ہمراہ نائٹ ڈیوٹیز سر انجام دیتی ہیں۔ پردہ کی کوئی سختی نہیں۔

غیر ملکی خواتین بھی پارکوں، سڑکوں مساجد کے قریب، وادیوں، پہاڑوں، تفریحی مقامات پر دیر رات تک کھانے پینے اور ضرورت کی دوسری چیزیں فروخت کرتی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اصلاحاتی اور اقتصادی پروگرام کے تحت سعودی عرب میں پہلی بار خواتین کا فیشن ویک منعقد کیا گیا تھا، جس میں نہ صرف سعودی بلکہ دیگر ممالک کی خواتین نے جدید اور ماڈرن طرز کے ملبوسات کی نمائش کی۔ خواتین کو غیر محرم کے ساتھ ماڈلنگ و اداکاری کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔

سعودی وزارت دفاع کے احکامات کے بعد خواتین کی فوج میں تعیناتی کا عمل جاری ہے۔ اب خواتین آرمی، ائر فورس، نیوی، اسٹرٹیجک میزائل فورس، اور میڈیکل سروس میں سپاہی سے لے کر سارجنٹ تک اپنی خدمات انجام دیں گی۔ 2019 میں ہی سعودی خواتین کو فضائی طیارے اڑانے کی بھی مکمل اجازت دی گئی۔

دور رواں میں ماضی کے برخلاف خواتین کو اپنے سرپرست کی منظوری کے بغیر نجی کاروبار کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی خواتین کو بچوں کی پیدائش، وفات، شادی، طلاق اور خلع وغیرہ کی رپورٹ از خود کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے قانون میں اہم تبدیلی کی ہے، جس کے بعد خواتین اپنے سرپرست کی مرضی کے بغیر آزادانہ زندگی گزار سکیں گی۔ لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18 برس اور اس سے کم عمر کی کوئی بھی لڑکی یا اس کے گھر والے خصوصی عدالت کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتے۔

علاوہ ازیں نگراں یا محرم کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے یا پھر تنہا سفر کرنے کی بھی اجازت مل گئی ہیں۔ جس کی پہلے دور میں ممانعت تھی۔ ایسے اقدامات سے خواتین پہلے سے زیادہ با اختیار اور پراعتماد ہو گئیں ہیں۔ اسلامی مملکت میں خواتین کو پہلی بار میونسپل انتخابات میں حصہ لینے کی بھی اجازت دی گئی۔ خواتین کو وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اور پہلی مرتبہ خواتین کے لیے لیڈیز اسپورٹس کلب کھول دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ریسلنگ کے میچز کا بھی آغاز ہو گیا۔

سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حج کی ادائیگی کے لیے خواتین اکیلی اجازت نامے کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔ ان خواتین کو حج کا فریضہ انجام دینے کے لیے کسی محرم کی اجازت درکار نہیں ہو گی۔

ماضی کے برعکس 14 فروری ویلینٹائنز ڈے کے موقع پر ہر جگہ کارڈز اور سرخ پھول اور گلدستے وغیرہ دستیاب ہوتے ہیں۔ گو کہ کھل کے یا کوئی لیبل دیے بنا یہ سب خرید و فروخت ہوتا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس پر بھی کوئی پابندی نہیں۔

موسیقی کی بات کریں تو 2019 میں ریاض سیزن نامی فیسٹیول میں کورین پوپ بینڈ بی ٹی ایس، ایلن واکر جیسے دیگر شہرہ آفاق مغربی گلوکار نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، جس سے شائقین محظوظ ہوئے۔ اسی فیسٹیول سے جڑے کونسرٹ میں راحت فتح علی خان، عاطف اسلم جیسے مایہ ناز فنکاروں نے پرفارم کیا، اور بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

36 سالہ ایم بی ایس نے اکتوبر 2017 میں کہا تھا کہ گزشتہ 30 سال میں جو کچھ ہوا، وہ سعودی عرب کا حقیقی روپ نہیں تھا۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد لوگوں نے مختلف ممالک میں اس کی نقل کرنا چاہی تھی۔ یہ انتہا پسندی کا مسئلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

رواں برس اسلامی مملکت میں سب سے زیادہ حساس قانون پاس ہوا ہے، جس کے نفاذ کے بعد اب لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان اور اقامت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد بیرونی لاؤڈ اسپیکر بند کر دیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ نبی ﷺ کی ایک حدیث کی روشنی میں کیا گیا، جس کا مفہوم ہے کہ تم جب اپنے رب کو پکارو تو بالکل خاموشی سے پکارو، اس طرح کہ دوسرا کوئی شخص تکلیف میں نا آئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بغیر کسی ضابطے کے ہو رہا ہے۔ جس کے باعث مساجد کے پڑوس میں واقع گھروں کے رہائشیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص کر مریضوں، بزرگوں اور بچوں کو مساجد سے آنے والی اونچی آوازوں سے تکلیف ہوتی ہے۔

گزشتہ عرصہ میں ایک اور اپنی نوعیت کا اہم اور حساس فیصلہ لیا گیا۔ جو کہ نماز کے اوقات میں کاروبار اضافی فیس کے عوض چلانے کی اجازت تھا۔ اس فیصلہ کے بعد لوگوں میں کافی ہلچل مچ گئی۔ کچھ لوگوں کو یہ فیصلہ پسند آیا اور کچھ نے تنقید کی۔ ایڈوائزری شوریٰ کونسل کے مطابق ایسے قوانین میں نرمی سے سعودی معیشت کو سالانہ اربوں ریال کا فائدہ ہوگا۔ لیکن بڑے شہر کے مالز کے برعکس ملک کی چھوٹی دکانیں اب بھی نماز کے اوقات میں بند کر دی جاتی ہیں۔ حکومت فی الحال عوامی ردعمل کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں سرکاری سطح پر باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔

سزاؤں کے نفاذ میں پہلے کے مقابلہ میں خاطر خواہ نرمی دیکھی گئی ہے۔ کوڑے مارے جانے کی سزا کے بارے میں ایک اور اہم فیصلہ سازی کی گئی۔ اسلامی ریاست کے وزارت انصاف نے ٹویٹر پر بیان جاری کیا، جس میں کہا کہ کہ سعودی عرب میں کوڑے مارنے کی سزا کو باضابطہ ختم کر دیا گیا۔ کوڑوں کے متبادل جیل یا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ماضی میں بیشتر سزائے موت پانے والے افراد کے جرائم بے حد معمولی اور غیر سنگین ہوتے تھے۔ مگر اب غیر سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو بھی دوسرا موقع دیا جا رہا ہے۔ منشیات سے متعلق جرائم کے قوانین میں اہم تبدیلی کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد موت کی سزاؤں میں % 85 کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے سزائے موت کو کالعدم قرار دیا گیا۔

مملکت ‫سعودی‬ عرب دین اسلام اور قبلہ کی وجہ سے ہمارا حوالہ ہے۔ اسے حرمین شریفین کی خدمت کا شرف حاصل ہے، جب یہاں شخصی آزادی اور روشن خیالی عام ہو گئی ہے تو دیگر روایت پسند ملک اور قومیں اپنے حال پر نظر ثانی کریں۔ یہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کا دور ہے چائنہ مصنوعی سورج بنا رہا ہے اور ہم اندرونی اختلاف اور مسائل میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب عالم اسلام کا فخر ہے، تو کیوں نہ افغانستان اور پاکستان جیسے ملک بھی بنا کسی تاویل کے اسی تناظر میں تبدیلی لائیں۔ اور اپنے ملک اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ حق و باطل کا فیصلہ جھنڈے پہ کلمہ لکھ دینے سے نہیں ہوتا بلکہ گمراہی سے نکل کر روشن خیالی، رواداری اور انسان دوستی سے اپنے حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments