بستی بھونگ کا مندر



بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ 4 اگست کو بستی بھونگ تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں ایک ہندو عبادت گاہ میں کچھ شرپسندوں نے گھس کر توڑ پھوڑ کی اور مندر کے ایک حصے کو آگ لگا دی قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ حکومت کے بروقت اقدام سے مندر اور علاقے کا امن اومان دونوں بحال ہو گئے 11 اگست (یوم اقلیت) پر وہاں ایک باقاعدہ تقریب بھی منعقد کی گئی، سب کچھ دیکھ کر من میں ایک چبھن سی تھی، دل نے چاہا کہ ہم اس بار جشن آزادی بستی بھونگ کے ہندو بھائیوں کے ساتھ منائیں اور پھر اپنے صحافتی ساز و سامان (قلم، کاغذ، کیمرا اور مائیک) لے کر ہم۔

بستی بھونگ کے سفر پر روانہ ہو گئے، مقامی دوستوں سے رابطے پر پتہ چلا کہ صرف مندر ہی نہیں قریب موجود امام بارگاہ کو بھی معاف نہیں کیا گیا اب اس شہر نا پرساں جانے کا عزم اور بھی پختہ ہو گیا۔ مقامی دوست بتلانے لگے حالات کشیدہ ہیں پولیس اور رینجرز نے جگہ جگہ چیک پوسٹیں لگا رکھی ہیں آپ کے ساتھ کیمرا مین بھی ہے اور مقامی انتظامیہ کا اجازت نامہ ملنا بھی مشکل ہے اس لیے وہاں نہ جائیں لیکن ”ہمارا عزم نہ ہو کم“ کے مصداق ہم کہاں ٹلنے والے تھے 14 اگست شام پانچ بجے کے لگ بھگ ہم بستی بھونگ پہنچ گئے جہاں پولیس رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ پولیس اہلکار ہمیں تاک رہے تھے ہمارے ڈرائیور اور گائیڈ نے ہمیں مین چوک میں اتار دیا کیونکہ وہ اس سے آگے جانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا میں اور میرا کمرہ مین ڈیوڈ خفیہ والوں سے آنکھ بچا کر تنگ گلیوں میں گھس گئے

محلے کے بچوں سے مندر کا پتہ پوچھا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہندو بھائیوں کی بستی جا پہنچے بستی کے آگے قناتیں اور پولیس بیرئیر لگا کر راستہ بند کر دیا گیا تھا تا لیکن ہم پھر بھی کسی نہ کسی طرح مندر کے صحن میں جا پہنچے مندر کا صحن کسی عبادت گاہ کی بجائے فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا تھا عبادت گاہ کی روحانیت خوف کا لبادہ اوڑھے بیٹھی تھی میرے اندر کا مسلمان شرمندہ تھا

ایسے میں دور سے آئے حیران و پریشان مسافر کو دیکھ کر ایک نوجوان میرے پاس آیا بڑی اپنائیت سے مقصد آمد پوچھا میرے بتلانے پر اس نے باقی لوگوں کو بھی وہاں اکٹھا کر لیا اور مجھے بتانے لگا کہ میں اور آپ لاہور کی رسم دیوالی کی ایک تقریب میں مل چکے ہیں تعارف اور پرانی شناسائی کے بعد بے تکلفی کے مرحلے میں چاند کمار نامی اس نوجوان کی گفتگو نے مجھے مزید شرمندہ کر دیا وہ بتا رہا تھا ہے کہ ہم تو یہاں صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں مقامی مسلمان اور ہندو کسی الجھاؤ کے بغیر رہتے ہیں

اس کے مطابق ہندو برادری اپنے تجارتی دائرے میں خوب آگے ہے مقامی مسلمان ساہوکار کار اور وڈیروں کو یہ بات برداشت نہیں تھی بی ایسے میں ساہو کار نے وہی پرانا ہتھکنڈہ استعمال کیا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ملا سے ہاتھ ملا لیا بہت کم مقامی لوگ مولوی کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوئے تو دریا کے دوسرے کنارے پر آباد بستی روجھان (لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز کا آبائی شہر) جو بستی بھونگ کے سامنے دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر واقع ہے وہاں سے مولوی عبدالعزیز کے کچھ مریدین کو کرائے پر بلوایا گیا اور یہ نام نہاد اسلامیان ایک جھوٹی کہانی گھڑ کے مندر پر چڑھ دوڑے۔

مقامی ہندو آبادی 120 خاندانوں اور چھ سو سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے 13 اگست تک وہاں صرف تین خاندانوں کے 20 کے لگ بھگ لوگ موجود تھے 14 اگست تک صرف 15 خاندانوں کی واپسی ممکن ہو سکی تھی اور چاند کمار جو اس بستی کا واحد گریجویٹ ہے اسے امید ہے کہ بہت جلد ہندو خاندان واپس گھروں کو لوٹ آئیں گے اور علاقے کا امن بحال ہوگا

طویل نشست کے بعد جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو میں نے واپسی کی اجازت چاہی چاند کمار بھائی ہمیں شہر کے مرکزی دروازے تک چھوڑنے آئے واپسی کے راستے پر انہوں نے کہا آپ شاید اسے مقامی مسئلہ سمجھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر منانا تھا چار اگست کو یہ ڈرامہ کر کے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی وہ کہنے لگا آج بستی بھونگ کا مندر، کل کوئی اور ہدف ہوگا، دشمن گھات میں ہے لیکن ہمیں متحد اور ہوشیار رہنا ہو گا اور اپنی صفوں کی صفائی کرنا ہوگی۔

کشمیر سے اس ہندو پاکستانی کا لگاؤ اور اپنے گھر کی صفائی کی خواہش نے مجھے چپ سادھنے پر مجبور کر دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments