”پیڈ ایجنٹ اور جاہل بڈھا“


دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں تحریکات آور قیادتیں آزادی کی ہیں، مزاحمت کی ہیں اور یا کسی تبدیلی کے لئے ہیں عموماً اس کی قیادت دو سوچ رکھنے والوں پہ مشتمل چلی آ رہی ہے۔

ایک وہ ہیں جو اس فکر کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں کہ
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

اس پر دنیا نے ”بنیاد پرستی“ کا لیبل لگا لیا ہے۔ یہ سوچ اور فکر دراصل اسلامی احیاء اور اقامت ہے۔ خاصہ ان کی یہ معلوم اور معروف ہیں کہ یہ اصولوں کے پکے ہیں اور اپنے نظریات پر مکمل ایمان اور ایقان کے ساتھ جمے ہوئے ہیں اور جبر کی اندھیری رات میں بھی آگے بڑھنے کی ہمت رکھتے ہیں اور دنیا کے لئے درد سر یہی لوگ ہیں۔ ان میں سے افغانستان کے ”اجڈ، گنوار، جاہل اور بندوق بردار“ بھی ہیں اور مصر کے اعلی تعلیم یافتہ اور مغرب ہی کے تعلیم گاہوں سے نکلے ہوئے ”تہذیب مغرب سے آشنا“ بھی ہیں لیکن معتوب دونوں ہی ہیں کہ ان کا عقیدہ ”اسلام ایک مکمل نظام حیات“ ہے اور ایمان ان کا جہاد ہے۔

جبکہ دوسرے وہ جو ایک لحاظ سے ”قناعت“ کی زندگی گزارنے کے قائلین ہیں۔ حسن ظن یہ ہے کہ بلاشبہ ان کے ”مقاصد جلیل“ ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی ”امیدیں قلیل“ ہی ہوتی ہیں۔ ان کی فخر ”اعتدال پسند اور روشن خیالی“ ہیں۔ صفت ان کی یہ ہے کہ یہ دنیا کے لئے ”قابل قبول“ ہیں۔ اس ضمن میں مناسب تبصرہ یہی گا کہ

”‏زندگی تو حسن البنا، سید قطب، سید مودودی، سید علی گیلانی، شیخ احمد یاسین، حکمت یار اور ملا عمر جیسے ہی جیتے ہیں۔ ‏ورنہ سانسیں تو پرویز مشرف، جنرل سیسی، محمود عباس، فاروق عبداللہ اور اشرف غنی جیسوں کی بھی چلتی ہی رہتی ہیں۔“

تحریک آزادی کشمیر کی بھی یہی کل کہانی ہے۔ سید علی گیلانی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال جو اصولی موقف پر مفاہمت کرنے کے قائل نہیں اور استقلال و استقامت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں تو ’ہارڈ لائن‘ یعنی سخت گیر کہلائے جاتے ہیں اور فاروق عبداللہ کا تسلسل میر واعظ اور ان کا ہمنوا دھڑا جو کچھ دو، اور کچھ لو اور ایک قدم آگے اور دس قدم پیچھے والی پالیسی پر عمل پیرا ہے کو ’ماڈریٹ‘ یعنی اعتدال پسند قرار دیا جاتا ہے۔

”پاکستانی پیڈ ایجنٹ“ ۔

سید علی گیلانی کی پوری زندگی اور جدوجہد کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت، پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت اور کشمیری کاز سے حد درجہ کمٹمنٹ سے مالا مال رہے۔ کشمیری نوجوانوں کی نس نس میں پاکستان سے جو محبت بھری ہوئی ہے اس کا سہرا سید علی گیلانی کو جاتا ہے۔ آج سید کا یہ نعرہ کشمیر کا مقبول ترین نعرہ ہے جسے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان جھوم جھوم کر گاتے ہیں۔

”اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے، اسلام کی محبت سے ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“ ۔
پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ان کی پوری زندگی اس کی عکاس ہے۔

”میرا نام علی ہے اور میں دہشت گرد نہیں ہوں، میں کشمیر میں پاکستان کا پرچم ہوں، ہاں وہی کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے۔“ ۔

ہندوستان تمام تر ترغیبات اور ظلم و جبر کے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود انھیں ایک قدم بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہیں رہا۔ اسی وجہ سے ”بھارت میں ان پر پاکستان کا ’پیڈ ایجنٹ‘ ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے“

”جاہل بڈھا“ ۔

سید گیلانی کی پاکستان سے محبت بھی عیاں ہے اور یہ بھی ان کا اصولی موقف تھا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا اہل کشمیر کی آرزو ہے، لیکن ساتھ وہ پاکستان کی قیادت کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑے ہونے کا دم خم رکھتے تھے۔ جب پاکستانی قیادت نے مسئلہ کشمیر پر تساہل سے کام لیا تو انھوں نے بروقت اور پرزور انداز میں اسے متوجہ اور متنبہ کیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کہ ”ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے“ ۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ ”ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات استوار کرنا اچھی سوچ ہے لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے کی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟“

2003 میں اس وقت کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے اصولی اور دیرینہ موقف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو فارمولہ پیش کیا وہ گیلانی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھایا، اس کی بھر پور اور برملا طور پر مخالفت کر کے اسے کشمیری عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔ مشرف اور سید دونوں میں خوب ٹھن گئی۔ پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے جرات رندانہ کا اظہار کر کے فرمایا ”آپ کو کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر ان کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں“ ”دلی کے پاکستانی ہائی کمشن میں نوبت تلخی تک جا پہنچی۔ آوازیں غیر معمولی طور پر اونچی ہو گئیں۔ مشاہد حسین نے بتایا کہ انہوں نے گیلانی صاحب کو روکنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بے سود رہی۔ ہائی کمیشن کا سٹاف حیران و پریشان تھا کہ آج تک اس نے کبھی کوئی ایسا کشمیری دیکھا نہ سنا تھا جو اس قدر بے خوف ہو۔

”گیلانی صاحب کی رخصت کے بعد مشرف نے ٹھیٹ پنجابی میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ’باباجی نو گل سمجھ نی آندی، انھاں نوں کی پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کی ہوندا ہے {بابا جی کو بات سمجھ نہیں آتی، انھیں کیا پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کسے کہتے ہیں۔ پرویز مشرف نے سید زادے کو“ جاہل بڈھا ”تک کہنے کی حماقت کر ڈالی۔“

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر اور افغانستان پر جو بزدلانہ اور غلامانہ پالیسی ”ٹیکٹیکل ریٹریٹ یعنی پسپائی کی حکمت عملی“ اپنائی تھی اس کا انجام ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔ پسپائی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ بدستور جاری ہے اور ذلت و خواری کی گہری کھائی اور جہنم کا مطالبہ ”ہلۡ منۡ مزیۡدٍ یعنی ڈو مور“ ہی رہا۔

آج کی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ”کشمیر کا آج ہر پیر و جواں (مشرف فارمولے اور پاکستانی پالیسیوں سے نالاں ) اور بھارت کے طرزعمل سے بے زار اور شاکی ہے۔ سید علی گیلانی کی آواز چار سو گونج رہی ہے۔ کشمیر کے گلی محلوں میں گیلانی کی روح تازہ ہوا بن کر پھیل گئی ہے“

ان کا قابل قدر اثاثہ۔

تحریک آزادی کشمیر ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہی تھا۔ اسی خاطر انہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور تین بار ممبر کشمیر اسمبلی منتخب ہوئے لیکن جب قریب سے ہندوستانی ریشہ دوانیوں، وعدہ خلافیوں اور ”اعتدال پسندوں“ کو مفاہمتوں اور رخصتوں کا اسیر پایا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مسئلہ کشمیر کا حل پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ عزیمت پر مبنی عظیم جدوجہد میں ہے اسی خاطر ”نوے کی دہائی میں انہوں نے اسمبلی سے استعفی دیا اور پھر مڑ کر بھی پیچھے نہ دیکھا۔ پابند سلاسل ہوئے۔ ہر طرح سے ان کا راستہ روکا گیا، تشدد کا سامنا کیا حتیٰ کہ ان کے عزیر و اقربا کو بھی جیل کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اس مرد درویش کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لغزش تک نہ آئی“

انھوں نے واشگاف اور پرعزم انداز میں فرمایا۔

”جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض، روح کے مضمحل ہونے کے مترادف نہیں ہے، نہ قلب و ذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔ اس دار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسب استطاعت ادا کرتا رہوں گا“

تحریک آزادی کشمیر کی ابتداء سے لے کر آخر تک اور اپنی جدوجہد کے پہلے دن سے آخری سانس تک مقدمہ کشمیر لڑنے اور پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر جم کے کھڑے رہنا، زمانہ حوادث کی پرواہ کیے بغیر ایک لمحہ کے لئے بھی کسی دباؤ میں نہ آنا، وقتی بہاو کو اپنے موقف پر حاوی نہ ہونے دینا اور کسی مصلحت کا شکار نہ رہنا ان کی زندگی کا قابل قدر ورثہ ہے۔

وہ استقلال، استقامت، عزیمت اور جدوجہد کا استعارہ بن کے ثابت قدم رہے تبھی تو کشمیری نوجوانوں کے حقیقی ہیرو ٹھیرے اور لوگوں کی ان کے ساتھ محبت و عقیدت ہی نہیں رہی بلکہ ”ان کی پوجا“ کرنے کے مصداق انھیں دلوں میں بسایا۔

سید علی گیلانی کشمیر ہی کیا ساری دنیا کے آزادی کی تحریکات کے لئے ماڈل قرار پائے ہیں۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر۔
رسم شبیری ادا کرنے والا سید زادہ
مقتل میں کھڑا پاکستانیوں سے بڑا پاکستانی
جدوجہد، تحرک اور زندگی کا استعارہ
قربانی، ایثار، عزیمت اور استقامت کا کوہ گراں
امید، یقین، عزم، حوصلہ اور اخلاص کا نمونہ
مسئلہ کشمیر کی واحد توانا، سنجیدہ، موثر، مربوط اور جاندار آواز
آزادی کے متوالوں کا حقیقی ہیرو
محبتوں کا مرکز، عقیدتوں کا محور
منزل دکھلانے والا راہبر
مرد حر اور مرد مجاہد

نفۡس مطۡمئنة، اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر رہا کہ دنیا ان کے مضبوط ایمان اور پاکیزہ عمل پر نہ صرف رشک کیا کرتی بلکہ انگشت بدندان بھی رہی۔

ہماری امید اور دعا ہے کہ عظیم رب اور بندہ مومن ایک دوسرے سے راضی ہوں۔

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ان کی دلی خواہش اور ریاست پاکستان کے ذمہ قرض۔

”جب قدرت کی رحمت کاملہ سے ہم دریائے جہلم کی اچھلتی اور اٹھلاتی لہروں کی طرح پاکستان کے وجود کے ساتھ ہم آغوش ہوجائیں تو ہماری قبروں پر آ کر ہمیں یہ مژدہ روح پرور سنا دینا، تاکہ عالم برزخ میں ہماری ارواح سکون و طمانیت سے ہمکنار ہوجائیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments