انصاف کی شریان اور سازش کی بدرو


یکم ستمبر 2021 کی رات بزرگ کشمیری حریت پسند رہنما سید علی گیلانی سری نگر میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر بانوے برس تھی۔ سید علی گیلانی ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے علمبردار تھے۔ انہوں نے کبھی خود ہتھیار نہیں اٹھائے لیکن ان کی عزیمت نے کشمیری نوجوانوں کی کئی نسلوں میں روح حریت کو مہمیز کیا۔ بدھ کی رات جب ان کا انتقال ہوا تو وہ پیرانہ سالی کے باوجود سرکاری طور پر اپنی رہائش گاہ پر نظر بند تھے۔ ایک روز بعد 2 ستمبر 2021 کو بزرگ بلوچ قوم پسند رہنما عطا اللہ مینگل کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر بانوے برس تھی۔ سردار مینگل بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کی حکومت فروری 1973 میں برطرف کی گئی۔ ان کے صاحبزادے اختر مینگل بلوچستان کے نویں وزیر اعلیٰ تھے اور ان کی حکومت جون 1998 میں برطرف کی گئی۔ سردار عطا اللہ مینگل کے ایک صاحبزادے اسد مینگل 1976 میں پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان کی موت کی کچھ تفصیل ذوالفقار علی بھٹو نے دوران اسیری لکھی گئی اپنی کتاب میں درج کر رکھی ہے جس کا اعادہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔ مینگل صاحب کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی صوبائی حقوق کی علمبردار ہونے کے علی الرغم وفاق پاکستان کی وفادار ہے۔ عطا اللہ مینگل نے مختلف ادوار میں قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کے صاحبزادے اختر مینگل انتہائی اذیت ناک حالات میں اسیری کاٹنے کے باوجود پارلیمانی سیاست کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔ سید علی گیلانی کی وفات پر پاکستان میں سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا گیا۔ سردار عطااللہ مینگل کی وفات پر صدر پاکستان سمیت متعدد قومی رہنماﺅں کی طرف سے تعزیتی پیغامات جاری ہوئے ہیں تاہم وزیر اعظم عمران خان نے حرف تعزیت کی زحمت نہیں کی۔ میر نے کہا تھا، جگر چاکی، ناکامی دنیا ہے آخر / نہیں آئے جو میر کچھ کام ہو گا۔ درویش نے آج ملک کے بیشتر قومی اخبارات پر نظر ڈالی۔ سید علی گیلانی کی تدفین صفحہ اول کے بالائی نصف میں شہ سرخیوں کے ساتھ بیان ہوئی ہے جب کہ عطا اللہ مینگل کے انتقال کو زیریں نصف میں دو کالمی خبر مل سکی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ موقر اخبارات نے کسی ہدایت پر یہ ترتیب اختیار کی ہو لیکن غیر شفاف ریاستوں میں صحافت نادیدہ طور پر سرکاری بیانیے کی حنا بندی سیکھ لیتی ہے۔
یکم ستمبر کی عالمی تاریخ میں ایک خاص اہمیت ہے۔ ٹھیک بیاسی برس قبل اس روز پولینڈ پر جرمن حملے سے دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی۔ ہالینڈ پر فوج کشی اور نازی قبضے کے پانچ برس بھی اس خونچکاں تمثیل کا حصہ ہیں۔ ان دنوں جب کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ملکی اور غیر ملکی باشندوں کے انخلا کا تانتا بندھا ہے، مناسب ہو گا کہ ہالینڈ کی افتاد سے متعلق ایک مختصر سی حکایت عرض کی جائے۔ رمز اس بیان میں یہ ہے کہ قابض قوتوں کے سفارتی نزاکتوں میں ملفوف اعلانات سے قطع نظر انسان اپنی بقا اور بہبود کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ ہالینڈ کی طرف سے غیرجانبداری کے اعلان کے باوجود جرمنی نے 10 مئی 1940 کو حملہ کر دیا۔ 14 مئی کو روٹرڈیم کا شہر تباہ کن بمباری کی زد میں آیا اور ایک روز بعد ہالینڈ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے۔ شاہی خاندان اور حکومتی عہدیدار رود بار انگلستان پار کر کے جلاوطنی کے گوشہ عافیت میں پہنچ گئے۔ نوے لاکھ ڈچ باشندے قابض نازی افواج کے رحم و کرم پر رہ گئے جن میں 148000 یہودی بھی تھے۔ 1944 تک صرف 38000 یہودی زندہ بچ سکے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ کسی یورپی ملک میں مارے جانے والے یہودیوں کی سب سے زیادہ شرح ( 70 %) تھی۔ 16 سالہ این فرینک کی ڈائری ہم سب نے پڑھ رکھی ہے، وہ بھی ہالینڈ میں قتل ہوئی تھی۔ 15 مئی کو ہالینڈ کے ہتھیار ڈالنے کی شام ایمسٹرڈیم میں مقیم ایک نوجوان خاتون ایٹی ہیلسم کو سڑک پر اپنے ایک سابق استاد ولم بونگر نظر آئے۔ وہ لپک کر ان کی طرف بڑھی۔ نکولسن بیکر کی کتابHuman Smoke میں دونوں کا مکالمہ کچھ اس طرح درج ہے۔ ’پروفیسر صاحب، کیا ملک چھوڑ جانا مناسب ہو گا؟‘ پروفیسر نے جواب دیا کہ ’نوجوانوں کو زندہ رہنا چاہیے‘۔’پروفیسر، کیا اس جنگ میں جمہوریت کی فتح ممکن ہو سکے گی؟‘۔ ’جمہوریت ضرور کامیاب ہو گی لیکن اس کے لئے کئی نسلوں کو قربانی دینا ہو گی۔‘ دونوں کچھ دور تک ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ بالآخر جب ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تو نیلگوں عینک کے پار پروفیسر کی آنکھیں کہیں دور دیکھ رہی تھیں۔ اس رات پروفیسر بونگر نے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ جس زمین پر بندوق دلیل کی جگہ لے لیتی ہے وہاں بوڑھوں کی امید اٹھ جاتی ہے اور نوجوان بے گھر ہو جاتے ہیں۔ اس زمین پر ہم میں سے کسی کا قیام کچھ زیادہ طویل نہیں۔ اب دیکھیے، سید علی گیلانی اور عطا اللہ مینگل نے نوے برس سے زیادہ عمر پائی لیکن یہ ممکنہ طور پر طویل زندگی انصاف کی طلب میں گزر گئی۔ انصاف کا مطالبہ ایک عظیم نصب العین ہے لیکن اس سے بھی عظیم تر ہدف ایک ایسی دنیا کی تعمیر ہے جہاں انسانی زندگی بے معنی دیواروں میں رائیگانی کے ملال کی بجائے تخلیق، پیداوار، آزادی، امن اور محبت کی شادمانی میں بسر کی جا سکے۔
سکول میں ہمیں سائنس کے ایک ابتدائی سبق میں شریان اور ورید کا فرق پڑھایا گیا تھا۔ شریان دل سے صاف اور آکسیجن بھرا خون لے کر بدن کے مختلف حصوں تک پہنچاتی ہے۔ ورید استعمال شدہ اور آکسیجن سے خالی لہو دوبارہ دل تک لاتی ہے۔ شریان اور ورید کا باہم ربط جمہوری بندوبست ہے۔ آمریت کا ظلم یہ ہے کہ آزادی کا آکسیجن سے بھرپور لہو جسد اجتماعی کو سیراب کرنے کی بجائے سازش کی بدرو میں ضائع ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments