دل دہلا دینے والی خبروں کی تکرار!



گزشتہ دنوں کی خبریں بہت عجیب اور خوفناک تھی جو تکرار کے ساتھ پڑھنے اور سننے میں آئی، وہ کچھ اس طرح کی تھی :

لاہور میں غالب مارکیٹ میں نوکری کا جھانسہ دے کر ملزم نے خاتون کو اسلحہ کے زور پر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

حجرہ شاہ مقیم میں اوباش نوجوانوں نے اسلحے کے زور پر 15 سالہ لڑکی کو اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔

میاں چنوں میں سسر کی اپنی بہو سے زیادتی کی کوشش، سسر گرفتار۔
راولپنڈی میں 16 سالہ لڑکی کا ریپ، ملزم مفتی شاہنواز گرفتار۔
بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر با اثر افراد کا تین بھائیوں پر تشدد، بھائیوں کو لہو لہان کر ڈالا۔
قصور میں طالبعلم سے زیادتی کی ویڈیو وائرل، ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔
منڈی بہاؤ الدین میں 8 ویں کلاس کے طالبعلم سے مبینہ زیادتی کے 2 ملزم گرفتار۔
سانگلہ ہل میں 2 بچوں کی ماں سے 14 دن تک اجتماعی جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔
فیصل آباد میں 15 سالہ لڑکی سے منگیتر اور اس کے دوستوں کی اجتماعی زیادتی۔
راولپنڈی میں مالک مکان نے 15 سالہ لڑکی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔
پتوکی میں 13 سالہ بچے سے بد فعلی، ملزم فرار۔
دادو میں ذہنی معذور بچی سے مولوی کی زیادتی۔

یہ سالوں کی یا ہفتوں کی خبریں نہیں ہے یہ گزشتہ ہفتے کے دو دنوں کی خبریں ہیں یہ تو وہ خبریں ہیں جو سامنے آ گئی ورنہ نہ جانے کتنی خبریں ہیں جو لٹی ہوئی عزت کو مزید لٹنے سے بچانے کے لئے چھپا لی جاتی ہے یا پھر دبا دی جاتی ہے اور تو اور اگر کوئی لٹی ہوئی عزت پر آواز اٹھانے کی ہمت کرتا ہوگا اسے باعزت طریقے سے دھمکا کر، خوف دلا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

خبریں تو ایک جیسی ہیں مگر کردار بدل گئے ہیں، علاقے بدل گئے ہیں، ظالم بدل گئے ہیں۔ اب میں تاویل پرستوں کے قبیلوں سے سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں؟ مینار پاکستان میں جو واقعہ پیش آیا تھا؟ اس میں تو آپ کے نزدیک ٹک ٹاکر لڑکی کا ہی قصور تھا، مگر ان تمام واقعات میں کس طرح لڑکیوں کا قصور گنوائیں گے؟

یہ خبر پڑھیں : دادو میں ذہنی معذور بچی سے مولوی کی زیادتی؛ سمجھ آیا کچھ، اس کے ساتھ زیادتی کی گئی جو غلط اور صحیح میں فرق بھی نہیں کر سکتی تھی اور زیادتی اس نے کی جو گلے پھاڑ پھاڑ کر غلط اور صحیح بتاتا ہے۔ اب دو تاویل کہ ”لڑکی کے ماں باپ نے کوئی گناہ کیا ہوگا جس کی وجہ سے وہ ذہنی معذور ہوئی اور پھر اس بچی نے کچھ ایسی حرکت کی ہوگی کے مولوی بے قابو ہو گیا، اس میں مولوی کا کیا قصور بھلا۔“ مجھے معلوم ہے یہ بھی تاویل دی جا سکتی ہے۔

یہ بھی خبر پڑھیں :پتوکی میں 13 سالہ بچے سے بد فعلی، ملزم فرار؛ اچھا اب تو عورت بھی نہیں، ٹک ٹاکر بھی نہیں، ٹائٹ شرٹ پہنی لڑکی بھی نہیں۔ ریپ کرنے والا بھی مرد اور ریپ ہونے والا بھی لڑکا۔ بد فعلی کیا؟ زیادتی بھی بد فعلی ہے اور بد فعلی بھی زیادتی ہے۔ اب یہ جو نفسیات ہے نہ؛ جنس کی بھوکی ہوتی ہے، نہ کہ صنف کی۔ یہ اتنے بھوکے ہوتے ہیں کہ ڈولفن کو نشانہ بنا دیتے ہیں، یہ اتنے بھوکے ہوتے ہیں کہ بکری کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ ان بھوکوں کو تاویل کی چادر اڑھا کر چھپانے والوں کے اندر بھی اس قسم کی بھوک پروان چڑھتی ہے۔

ڈرو اس قسم کی تاویلات سے اور بولو کے ظلم ہوا ہے۔ یہ تاویلات دراصل مجرم کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لیے ہوتی ہیں۔ کیونکہ مجرمانہ کیفیت کا شکار ہر تاویل دینے والا شخص ہوتا ہے، البتہ اس کو موقع نہیں ملتا۔ ویسے بھی تاویلات سے اس لئے بھی ڈر و کے یہ پلٹ کر واپس آتی ہیں اور پھر تم یہ صفائیاں دیتے رہنا کہ میری بہن تو صرف سبزی لینے گئی تھی، میری بیوی تو بچوں کے ساتھ تھی، میری بیٹی تو کالج گئی تھی آخر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو گیا؟ تاویل کا جلا ہوا دامن چھوڑ کر سچ کا صاف دامن تھام لیں، تاکہ مستقبل میں پلٹ کر نہ آئے کچھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments