چوتھی بیٹی کی بوسیدہ کہانی


آج کچھ وقت نکال کر ہمسائیوں کی طرف ہو آئیں۔ میں باہر نکلی تو صاحب خانہ ملے تھے۔ میرے پوچھنے پر کہ دو چار روز سے آپ کے دروازے پر تالا تھا، بتانے لگے کہ نواسی پیدا ہوئی اور اسی دن چل بسی۔ بس اسی وجہ سے ہم لوگ یہاں نہیں تھے۔ اور یوں میں ان کے ہاں تعزیت کے لئے موجود تھی۔ بچی کی نانی سے اچھی دعا سلام ہے اور انھی کے ہاں ان کی بیٹی سے بھی جان پہچان ہے جو کہ پہلے بھی ماشاءاللہ تین صحت مند، خوبصورت اور معصوم بچیوں کی والدہ ہیں۔ اور اس وقت اسپتال میں ہیں۔

ڈرائنگ روم کی فضا افسردہ اور خاموش ہے اور میرے پاس بھی رسما کہنے کو کچھ نہیں۔ جانے والی بچی کی نانی رو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ بولتی ہیں کہ اتنی خوبصورت اور صحت مند تھی کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ لیکن تین چار گھنٹوں کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا، کس کی بری نظر لگی، کچھ سمجھ نہیں آیا اور وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔ اس کی ماں اور میری بیٹی کی طبیعت اچھی نہیں۔ سی سیکشن اور بچی کی وفات کا غم، وہ بہت نڈھال اور پریشان ہے اور ان کی بیٹی کی کچھ ماہ پہلے کی یاد میرے ذہن میں آتی ہے۔

جب وہ سردیوں کی دھوپ سینکنے کو مرکزی دروازے سے ملحقہ لان میں بیٹھی تھی اور آنٹی (بچی کی نانی) بھی پاس تھیں۔ میرے باہر نکلنے پر بلا کر کہتی ہیں کہ آپ ہی اسے سمجھائیں۔ میری تو کچھ سنتی ہی نہیں ہے۔ بس خود بھی ہلکان ہو رہی ہے اور ہمیں بھی ہولایا ہوا ہے۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ اس کے ہاں کچھ ماہ پہلے سے دوبارہ اولاد ہونے کی خبر ہے اور ضد کر کے ڈاکٹروں سے پتہ کر آئی ہے کہ آنے والی ننھی جان بیٹی ہے اور اس وقت سے ان کی بیٹی ماتم کر رہی ہے کہ اسے بیٹے کی شدید خواہش ہے۔ بیٹی وہ بھی چوتھی اس کے لئے بہت اضافی ہے۔ آنٹی اور بیٹی دونوں اس بات پر شاکی ہیں کہ ان کے خاندان میں تو ہمیشہ پہلی اولاد بیٹا رہا ہے۔ پتہ نہیں اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ تو اس خبر کے بعد ڈپریشن سے بالکل چپ ہی ہو گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

واپس اسی تعزیتی بیٹھک کی طرف آئیں تو آنٹی اسی طرح رو رہی ہیں اور میرے ذہن میں مسلسل جھماکے ہو رہے ہیں۔ ماضی اور حال کے تضادات کے نکتے سکڑ اور پھیل رہے ہیں اور میں اتنی بے یقین اور اذیت میں ہوں کہ دو لفظ ادا کرنے سے قاصر ہوں اور اتنی کم ہمت ہوں کہ نا شکری کا آئینہ ان کو نہیں دکھا سکی۔ اور فاتحہ پڑھ کے واپس چلی آئی۔

سارا راستہ دل اتنا بوجھل تھا کہ قدم اٹھانا دو بھر تھا۔ میں تو آنٹی کو بتانا چاہتی تھی کہ اس نومولود کلی کو کسی کی نظر نے نہیں کھایا بلکہ اس کی جان اس کی ماں کی کم عقلی نے لی ہے۔ بیٹی ہونے کا سوگ اور اندیشہ اس میں پلنے والی جان نے قطرہ قطرہ اپنے اندر اتنے مہینے اتارا ہے۔ ماں کی آنکھ سے نکلنے والے ہر آنسو نے اس کی سانسوں کی تعداد کم اور گھٹن زدہ کی ہے۔ بیٹی ہونے کے دکھ نے آنے والی بیٹی کی ہر احساس کو مارا ہے۔ نا چاہی ہونے کا درد وہ ماں کے پیٹ سے سہتی آئی ہے جس پر مہر پیدا ہونے کے فوراً بعد اس قسم کی آوازوں نے لگائی ہے :

ہائے ہائے چوتھی بیٹی۔
اللہ اس دفعہ بیٹا ہی دے دیتا۔
ایک اور ذمہ داری، ایک اور بوجھ۔
پرے کرو، اس کو دیکھ کے کیا کریں گے۔ اور بہت کچھ۔
جو سینہ چھلنی کر دیں، کانوں میں زہر بھریں، لمس کی دھتکار ماریں اور کسی ننھی جان کی زندگی لے لیں۔

یہ باتیں بہت دفعہ لکھی جا چکی، بولی گئیں، کہی جاتی رہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اثر ہونے میں ابھی کئی زمانے درکار ہیں۔ ہمیں نہ ڈگریوں نے اس خوف سے نکالا کہ بیٹی ہونا یا پیدا کرنا جرم نہیں۔ نہ ہمارے ایمان نے ہمیں یہ سمجھایا کہ بیٹا ہو یا بیٹی، بذات خود صاحب اولاد ہونا کیسی نعمت ہے۔ نہ ہماری تربیت ہمیں بیٹا اور بیٹی کے ترازو کو بیلنس کرنا سکھا سکی۔ نہ ہماری تعلیم ہمیں یہ شعور دے سکی کہ انسان ہونا اشرف المخلوقات ہے جس میں مرد، عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ نہ زینب و فاطمہ کی عزاداری ہمیں یہ بتا سکی کہ بیٹیاں ہونا کیسا با کمال ہے۔ نہ اہل بیت کی محبت ہمیں اس بات پر آمادہ کر سکی کہ اللہ کے ہاں عمل، ہمت، درجے اور رتبے صرف بیٹوں کا نصیب نہیں۔ اور نہ قرآن کا پڑھنا ہمیں یہ یقین دلا سکا کہ بیٹیاں رحمت ہیں۔

کیونکہ ہماری ڈگریاں کمرشل، ہمارا ایمان کمزور، ہماری تربیت بے حد ناقص، ہماری تعلیم کھوکھلی، ہماری عزاداری ایک رسم، ہماری اہل بیت سے محبت لفظی اور ہماری تلاوت بے عمل ہے۔ جب ہم ان سب میں اخلاص کا رنگ بھریں گے تو انفرادی اور اجتماعی طور پر کسی کو بھی بیٹیاں پیدا ہونے کا خوف اور پھر اپنے ناشکرے رویوں سے ان کے دنیا سے چلے جانے کا پرسہ نہیں لینا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments