اس نے کہا تھا: اردو کا پہلا پوسٹ ماڈرن ناول


اشعر نجمی کے ناول ’اس نے کہا تھا‘ کو پڑھتے وقت مجھے بار بار شہرۂ آفاق چیک ناول نگار میلان کنڈیرا کی یاد آتی رہی۔ اس لیے نہیں کہ اس ناول کی مطابقت میلان کنڈیرا کے کسی ناول سے ہے بلکہ اس لیے کہ میلان کنڈیرا کے ناول پر لکھی اپنی تحریروں میں ناول کی فنی خوبیوں پر جو گفتگو کی ہے، اس کا عکس اشعر نجمی کے ناول میں حیرت انگیز طور پر نظر آتا ہے۔ میلان کنڈیرا کی یہ تفصیلی گفتگو اس کی تین تصنیفاتThe Art of Novel، Testament BetrayedاورThe Curtainمیں بالترتیب موجود ہے۔

ناول کے روایتی اور مکتبی ناقدوں کے بر خلاف میلان کنڈیرا نے ناول کی صنف، ہیئت اور اسی کی فنی خوبیوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں بلکہ بے حد بصیرت افروز بھی ہیں۔ میلان کنڈیرا نے رسمی اور درسی قسم کے آلات نقد نہ استعمال کر کے ناول کے بارے میں جو اپنا نظریہ پیش کیا ہے، وہ کلیشوں اور فرسودگی سے یکسر پاک ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ خود ایک اعلیٰ درجے کا ناول نگار ہے۔ جب ایک تخلیق کار کسی ادبی تھیوری، صنف پر لکھتا ہے یا عملی تنقید کا کوئی نمونہ پیش کرتا ہے تو وہ ایک چیزے دیگر کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

ماضی میں یہ مثالیں ڈی۔ ایچ۔ لارنس، ژاں پال سارتر، البیئر کامیو، بورخیس اور رولاں بارت کی تحریروں سے بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں ہندی کے نامور ادیب نرمل ورما کی وہ تحریریں جو ناول اور کہانی کی ماہیت اور ان کی روایت سے متعلق ہیں، اسی زمرے میں آتی ہیں۔

میلان کنڈیرا کا معاملہ ذرا ان سب سے اس لیے مختلف اور امتیازی حیثیت کا حامل ہے، کیوں کہ اس نے باضابطہ طور پر، تواتر کے ساتھ ناول کے فن پر بے حد تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ میلان کنڈیرا کی تنقید اس ضمن میں محض ایک دو مضامین لکھنے یا تبصرہ نگاری تک محدود نہیں ہے۔ آج ساری دنیا میں اسے ناول کی تنقید کے حوالے سے ایک ’جہادی نظریہ ساز‘ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

اب میں واپس نفس مضمون کی طرف آتا ہوں۔ اشعر نجمی کا یہ پہلا ناول ہے اور مجھے سب سے زیادہ اس بات پر حیرت ہے کہ کسی نامعلوم طریقے سے اس ناول میں وہ تمام فنی خوبیاں جمع ہو گئی ہیں جن کا ذکر میلان کنڈیرا بھی کرتا ہے اور خود مجھے ان پر ایمان و ایقان ہے۔ مثلاً میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ ناول کی تکنیک استعمال کرتے وقت چیزوں کو جذب کرنے کا ہنر بہت اہم ہوجاتا ہے۔ کنڈیرا کہتا ہے، اسے ناول کو ایک ایسی عمارت یا قلعہ نہیں ہونا چاہیے جس کا بڑا حصہ ہماری آنکھ سے اوجھل ہو جائے ورنہ اس کی تعمیر کی خوب صورتی اور ہنر ہم پر نہیں کھل سکتے۔ انسانی حافظے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ناول کو ختم کرتے وقت ہم اس کی ابتدا یا درمیانی متن کو بھول جائیں تو ناول کی تعمیر میں جو فنکارانہ باریکیاں اور ہنر بروئے کار لائے گئے ہیں، وہ بیکار ثابت ہو جاتے ہیں۔

اشعر نجمی کے ناول کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے اور اس بات پر ہرگز منحصر نہیں ہے کہ یہ ایک طویل یا ضخیم ناول نہیں ہے۔ یوں دیکھیں تو اس کی تکنیک میں سینمائی مونتاژ اور فلش بیک کا استعمال بھی ہے مگر اس کے باوجود متن کہیں بھی گنجلک نہیں ہوتا بلکہ ناول کی تعمیر کی ساری خوب صورتی مع اپنے تمام تر عناصر کے، بغیر کسی روک ٹوک کے ہماری آنکھوں کے سامنے ہر وقت موجود رہتی ہے۔ میں اس تکنیک کو ’پوسٹ ماڈرن تکنیک‘ ماننے پر مجبور ہوں، اگرچہ میرا اس پر اصرار بھی نہیں ہے کہ کوئی قاری یا خود اشعر نجمی اسے ماننے سے انکار کردیں۔

اصل میں ہر قاری کا اپنا نظام حواس و ادراک ہوتا ہے جس سے گزر کر چیزیں، خیالات، احساسات اور کیفیات ایک مخصوص زمان و مکان کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ زمان و مکان کو کانٹ نے ایسی عینکیں قرار دیا تھا جس کو لگائے بغیر ہمارا حسی نظام کسی بھی کیفیت کا ادراک کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے۔ زمان و مکان جتنے معروضی ہیں، اتنے ہی موضوعی بھی ہیں، اس لیے اس ناول کی قرات کرتے وقت میں لاکھ معروضیت سے کام لوں، مگر موضوعیت (subjectivity) سے پیچھا کبھی نہیں چھڑا سکتا اور پھر یہ بھی ہے کہ میں یہاں کوئی رسمی سا تنقیدی مقالہ لکھنے کے لیے نہیں بیٹھا ہوں۔ سچ پوچھیے تو میں اس کا اہل ہی نہیں۔

پوسٹ ماڈرن تکنیک رسمی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ ادب ہی نہیں، فلم، تھیٹر، موسیقی، رقص اور مصوری ؛ سب میں اس آزادیٔ فکر کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اسلوب میں بھی ایک خاص قسم کا احتجاج، دبا دبا سا غصہ اور فرسودہ روایت کو ایک زیریں سطح پر چیلنج کرنے کا رویہ ’اس نے کہا تھا‘ میں بڑے واضح انداز میں موجود ہے۔ یہ خصوصیات نہ تو کلاسیکل ناولوں میں موجود تھیں، نہ ہی ترقی پسند اور نہ ہی جدید ناولوں میں۔ کبھی کبھی تو یہ ناول اپنی بے باکی کی اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے جہاں ناول کا متن ہمارے اخلاقی اور سماجی نظام کی ایک پیروڈی سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ جو لوگ ناول کی اصل طاقت اور اس کے فن سے واقف ہیں، وہ اشعر نجمی کو اس کارنامے کے لیے مبارکباد دینے میں نہیں ہچکچائیں گے۔

اشعر نجمی نے بقول میلان کنڈیرا، سچے ناول نگاروں کا یہ فرض بھی نبھایا ہے کہ وہ متواتر ان بنیادی تصورات کو للکارتے رہتے ہیں جن پر ہمارا وجود قائم ہے۔ ’اس نے کہا تھا‘ میں معاشرے کے ایک پوری طرح تسلیم شدہ تصور کو ہی للکارا گیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ اس تیور اور نوعیت کا کوئی ناول اردو میں اس سے پہلے میں نے پڑھا ہو۔

مجھے اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ میں ’اس نے کہا تھا‘ کا پلاٹ بیان کرنے لگوں یا اس کا خلاصہ بیان کرنے لگوں۔ کسی بھی غیر معمولی تخلیق پر گفتگو کرنے کا یہ ایک غیر منصفانہ اور ناقص طریقہ ہوگا۔ میں اس ناول کو پڑھ کر جس تجربے سے دو چار ہوا ہوں، اسے ان قاریوں تک پہنچانے کی ایک کوشش کر رہا ہوں جو یہ ناول پڑھ چکے ہیں یا پڑھنے والے ہیں۔ ’اس نے کہا تھا‘ کو پڑھنا بجائے خود میرے لیے ایک تخلیقی تجربے سے کم نہیں تھا، اس لیے میں اس بارے میں بھی شک میں مبتلا ہوں کہ کیا میں قرات کے اس تجربے میں واقعتاً دوسروں کو شریک کر سکتا ہوں۔

تخلیقی تجربے علامتوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی مکمل ترسیل ممکن نہیں، مگر ان سطروں کو لکھتے وقت مجھے بھی احساس ہے کہ یہاں میں قرات کے اس تجربے کو پوری طرح احاطۂ تحریر میں لانے میں ناکام ہوں۔ یہ شاید میری وہ یادداشتیں ہیں جو ناول کی روشنی میں چمک رہے ہیں، اگرچہ ہر یادداشت کو ایک دوسری یادداشت بھی چاہیے جس سے وہ منسلک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں شاید ناول کی تفہیم و تشریح کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ تفہیم و تشریح احساس کی سطح کو دھندلا کر دیتی ہے۔ میں یہ کام سکہ بند نقادوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔

اشعر نجمی کا بیانیہ اس قدر معنی خیز اور توانا ہے کہ وہ بہت سے لکھنے والوں کے لیے ایک رول ماڈل کا کام انجام دے سکتا ہے۔ بیان کندہ کے حوالے سے انھوں نے دو صورت حالیں ایجاد کی ہیں۔ ایک، جب وہ ضمیر غائب کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ (ضمیر غائب کی بھی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ ) اور دوسری وہ جب واحد متکلم کے ذریعے کہانی آگے لے جاتے ہیں۔ اگرچہ واحد متکلم کے ذریعے زیادہ ڈسکورس قائم کیا گیا ہے اور یہاں بھی بیانیہ کے فن پر ان کی گرفت اور قدرت کی داد دینی پڑتی ہے کہ واقعات کی نوعیت اور بیانیہ کی لے (tone) اور کیفیت کی شدت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اسے موسیقی کی ایک کامیاب جگل بندی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور دو رقاصوں کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی سے بھی۔ اس جگل بندی کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں، اگرچہ میں مثالیں پیش کرنے سے احتراز کرتا ہوں :

(1)
اس نے اپنی موت کے لیے دیوالی کی رات کا انتخاب کیا تھا۔

جشن کی رات۔ مہاویر کے ’موکش‘ کی رات۔ اندھیرے پر روشنی کے غلبے کی رات۔ نادانی پر دانشوری اور مایوسی پر امید کی فتح کی رات۔

ایسا نہیں ہے کہ اس نے دنوں یا مہینوں پہلے اس کی تیاری کی ہو یا کوئی منصوبہ بنایا ہو، نہیں، سب کچھ اچانک ہی ہو گیا۔ بس بیٹھے بیٹھے یوں ہی خیال آیا کہ مرنے کے لیے آج سے بہتر کوئی دوسری رات نہیں ہو سکتی۔ (ص8)

(2)

پتہ نہیں میں کب وہ ناول مکمل کر پاؤں گا جو میں نے کبھی لکھنا شروع ہی نہیں کیا۔ اگر تم مجھے تھوڑا پیار کرلیتے تو شاید مجھے اتنی مشقت نہ کرنی ہوتی، کبھی ناول کو مکمل کرنے کے بارے میں نہ سوچتا کیوں کہ جو ناول ختم ہو جائے وہ ناول ہی کیا۔ ناول تو آپ کو بس ایک دن اچانک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور پھر کسی دوسرے کی زندگی کا باب بن جاتے ہیں۔

معاف کیجیے گا، میں اسی زبان میں بات کر سکتا ہوں، اسے آپ مصنوعی یا بناوٹی کہہ سکتے ہیں، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ خودکشی کی بات بھی نہیں کروں گا چونکہ خود کشی کی بات کرنا ایک فحش ڈرامہ ہے۔ کرنا ہے تو خود کشی ہی کرلو۔ (ص 43)

(3)

چھت کے فرش پر لڑکے کے تلوے جلنے لگے۔ شاید دھوپ بہت تیز ہو گئی تھی۔ آنگن والا لڑکا اندر جا چکا تھا۔ ماں نے نیچے سے آواز لگائی، اسے پودوں کو جلانے کے لیے تھوڑا سا کوسا۔ اس کی بد دعاؤں سے ڈر کر چھت والا لڑکا نیچے اتر گیا۔

شام کو لڑکا پھر چھت پر آیا۔ آنگن خالی تھا۔ اس نے دیر تک آسمان پر تیرتی پتنگیں دیکھیں، کھیتوں سے لوٹتے توتے دیکھے، چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں دیکھا، چرچ کے مینار کے گلے میں پینڈنٹ سا لٹکتا زرد چاند دیکھا، گھروں میں جلتے ہوئے چولھوں کے شعلے دیکھے، ان پر جلتی ہوئی روٹیاں دیکھیں، خوب سارے تارے دیکھے اور پھر وہ نیچے آ گیا۔ (ص 24)

(4)

مجھے ہم سفر کی بھی ضرورت ہے لیکن میری کوئی منزل نہیں، اس لیے تم مجھے آخر تک برداشت نہیں کر سکتے کیوں کہ میرا کوئی آخر ہی نہیں ہے۔ اس لیے، جب تک ہم دونوں کی کہانی ختم نہ ہو جائے، میرے ساتھ چلتے رہنا۔ میں کوشش کروں گا کہ کہانی ختم ہونے سے پہلے ہمارا سفر ختم ہو جائے۔ تمھارے سفر کی بات کر رہا ہوں۔

میرا سفر تو تمھاری کہانی کے ساتھ ہے۔ جب کہانی ختم ہوگی، سفر بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن میں کچھ وقت بچا کر رکھ لوں گا۔ کہانی ختم کر کے تم سے الگ ہو کر سڑک کے دوسرے کنارے پر چلا جاؤں گا۔ تمھارے سفر کو میری نظر نہیں لگے گی۔ میں کچھ دور چل کر تمھاری آنکھوں سے اوجھل ہو جاؤں گا اور اپنا سفر تنہا ہی طے کروں گا۔ تمھیں خبر نہ ہوگی۔ ڈرنا مت کہ تم میرے سفر کے ساتھی ضرور بنو گے مگر منزل کے ساجھے دار نہیں۔ (ص 60)

(5)

روشنی سے دور اندھیرے میں ایک خالی پلیٹ چمکتی ہے اور شہر ٹوٹ کر اس پلیٹ میں بھر جاتا ہے۔ پلیٹ میں پڑے ہوئے شہر کے ٹکڑے کو ایک لڑکا اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے۔ ایک ندی آنکھوں سے نکلتی ہے اور پہاڑ کے؟ خری پتھر پر جا کر سوکھ جاتی ہے۔ ایک اور لڑکا اس آخری پتھر کو اپنی روح کی سطح پر توڑ دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فروری کی ایک مقدس تاریخ کو اس کی آنکھوں میں سمندر دکھائی دیتا ہے۔ (ص 96)

(6)

شہر سو رہا ہے۔ رات برس رہی ہے اور چھتیں اندھیرے کی نمی سے گیلی ہو چکی ہیں۔ ایک چھوٹا سا چاند آسمان کے ایک گوشے میں ہینگر سے یوں لٹکا ہوا ہے جیسے ابھی ہوا کے ایک جھونکے سے وہ ٹپک کر زمین پر آن گرے گا۔ چاند جب بھی زمین پر گر کر ٹوٹتا ہے تو اس کے ٹوٹنے کی آواز نہیں آتی، البتہ اس کے ٹوٹنے کے ٹوٹنے کی آواز آتی ہے۔

شہر کا ٹوٹنا چاند کے ٹوٹنے جیسا ہے۔ آدھی رات کا آدھا حصہ شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے گزرتا ہے۔ آدھی رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر شہر کے خواب بھی سنتا ہوں اور اس کی کراہ بھی۔ واپسی کے گیت بھی سنتا ہوں اور جدائی کا نوحہ بھی۔ (ص 110)

(7)

میرا جسم ایک بار پھر تیزی سے نیچے کی طرف لڑھکنے لگا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے سے میرے فلیٹ کی کھڑکی، میری بالکنی اور پنڈت جی کا چہرہ تیزی سے پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔ نقطوں میں سمٹتے جا رہے ہیں۔ لا تعداد نقطوں میں۔ پھر ہر نقطہ دوسرے نقطے کے اندر سماتا جا رہا ہے۔ جیسے۔ جیسے۔ ایک بلیک ہول بنتا جا رہا ہو، جس کے دائرے سے فرار ممکن نہیں، روشنی کو بھی نہیں۔

اس نے کہا تھا۔

تمھیں وہ فقیر یاد ہے جو جلاد کے سامنے سر جھکا کر بدبدایا تھا، ’آؤ، تم جس بھی راستے سے آؤ گے، میں تمھیں پہچان لوں گا‘ ۔

شہر قاضی نے اس ننگ دھڑنگ فقیر سے پوچھا تھا، ”آپ اتنے بڑے عالم ہیں، پھر بھی اس طرح برہنہ کیوں پھرتے ہیں؟“ (ص 210)

(8)
اس نے کہا تھا:

”اے شہر قاضی! سن، غور سے سن۔ عشق دلوں اور آنکھوں پر مہر لگا دیتا ہے، جسم میں چڑھ جاتا ہے اور جگر میں تیزی سے اثر کرتا ہے۔ صاحب عشق ظنون و اوہام کو تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اس کی نظر میں کوئی چیز صاف نہیں ہوتی اور نہ کوئی اس سے خاص وعدہ کی ہوئی بات ہوتی ہے، مصائب اس کی طرف جلد آتے ہیں، وہ موت کے شربت کا جرعہ گمشدگی کے حوض کا بقیہ ہوتا ہے، البتہ اس کی طبیعت میں بشاشت اور اخلاق میں شائستگی ہوتی ہے اور صاحب عشق سخی ہوتا ہے جو روکنے کے داعیہ کی طرف کان نہیں لگاتا اور نہ ہی ملامت کے داعیہ سے وہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔“ (ص 312)

یہ چند مثالیں بغیر کسی شعوری کاوش کے نقل کردی گئی ہیں، کیوں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام ناول ہی اس گھنے اور معنی خیز بیانیہ سے مالا مال ہے۔ اشعر نجمی کی نثر اتنی تہہ دار اور تخلیقیت سے بھری ہوئی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ ان کا پہلا ناول ہے۔ یہ ایک وجودی بیانیہ بھی ہے جس کا سروکار صرف اور صرف ’سچ‘ سے ہے۔ مجھے آئرلینڈ کی مشہور کہانی کار کیتھرین مینسفیلڈ کا یہ قول بے اختیار یاد آ گیا ہے کہ ’سچ ہی اکلوتی قابل حصول شے ہے۔‘

’اس نے کہا تھا‘ کا بیانیہ گویا صرف سچ کو ہی گرفت میں لینے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اشعر نجمی کی نثر ایک ایسے پر اسرار جال کی مانند ہے جس میں ’سچ‘ مچھلی یا کسی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا ہوا نظر آتا ہے، یا اس نثر میں کچھ ایسی جادوئی طاقت ہے کہ خود بہ خود ’سچ‘ اس کے رگ و پود میں سما جانے کے لیے چلا آتا ہے۔ یہ نثر اور سچ کے درمیان عشق کا رشتہ ہے۔

زبان کا اخلاقانہ استعمال کس طرح کیا جاتا ہے، یہ کوئی اشعر نجمی سے سیکھے، بشرطیکہ اسے توفیق ہو۔ ہمارے یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ تخلیقی زبان کے آداب ہی سے ناواقف ہیں۔ وہ نہ اس گھنی اور سرکش زبان کو پڑھ سکتے ہیں اور نہ اس سے کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں، لکھنا تو دور کی بات ہے۔ تخلیقی زبان کے حوالے سے جتنی عمدہ اور بصیرت آموز بات مشہور فلسفی وٹگنسٹائن نے کہی ہے، وہ کوئی اور نہ کہہ پایا۔ وٹگنسٹائن نے لکھا ہے کہ تخلیقی زبان کی ماہیت میں ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ جو لفظوں کے ذریعے کچھ کہہ نہیں پاتی، اسے دکھا دیتی ہے، جھلکا دیتی ہے۔

اس نظریے کو Picture Theory of Language کا نام دیا گیا ہے۔ اشعر نجمی کے ناول میں بیانیہ جو کہتا نہیں، اسے تصویر کی طرح دکھا دیتا ہے۔ یہ تصویر الفاظ اور جملوں کے درمیان کی خاموشی اور بیانیہ کی سرحد کی لکیروں میں سے دھوئیں کی طرح ابھرتی ہے اور قاری کے ذہن و وجود میں اپنا نقش ثبت کر دیتی ہے۔ یہ محض معنی نہیں ہیں، یہ معنی سے بڑی چیز ہے ؛ ایک پکار، ایک کراہ، ایک چیخ یا ایک سرگوشی کی تصویر۔ یہ کارنامہ تجریدی اور علامتی بیانیہ لکھنے والوں کی بات نہیں جہاں ایک مخصوص قسم کی موضوعیت (subjectivity) شدید جذباتیت سے جکڑ کر ذات کے اندھیرے بل میں چوہے کی طرح دبکی رہتی ہے اور بالآخر ایک دن دم توڑ دیتی ہے۔

کوئی بھی تخلیقی عمل اس موضوعیت کو اس اندھیرے بل سے باہر لا کر اظہار کے پیرائے میں ڈھالنے سے ناکام رہتا ہے۔ مگر اس ناول میں کمال تو یہی ہوا ہے کہ حقیقت پسند بیانیہ نے اپنے ان تمام امکانات کو پا لیا ہے جو اس سے پہلے بروئے کار نہیں لائے گئے تھے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں پھر چند اقتباسات پیش کروں مگر پھر مایوس ہو کر سوچتا ہوں کہ اس طرح تو مجھے پورا ناول ہی نقل کرنا پڑ جائے گا۔

ادھر گزشتہ بیس بائیس سال سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے اور جس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے کہ کچھ سطحی قسم کے انگریزی ناول لکھنے والوں کی ایک باڑھ سی آ گئی ہے۔ ایسے ناول نگاروں میں چند تو ایسے ہیں جو بر صغیر کے ہی باشندے ہیں اور زیادہ تر وہ ہیں جو ہجرت کر کے باہر جا بسے ہیں۔ انھیں آپ N۔ R۔ I۔ یاIndian Diasporaبھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے ناول نگاروں میں چند ایک کو چھوڑ کر، سب ایسے ہیں جو ’نرم صحافی‘ کہے جا سکتے ہیں، تخلیق کار نہیں۔

اپنے عہد اور سماج کی دہائیاں دے کر وہ اس طرح ناول لکھتے ہیں جیسے فیچر لکھا جاتا ہے۔ اوڈرنو نے اس کوCultural Industry کا نام دیا ہے جسے اس نے صارفیت کے رجحان سے منسلک کرتے ہوئے ایک Productکہا تھا۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ان ادیبوں کی سستی شہرت اور ان کو ملنے والے نام نہاد اعزازات سے مرعوب اور متاثر ہو کر ہمارے یہاں اردو، ہندی اور علاقائی زبانوں کے ادب میں بھی یہ بدعت عام ہو گئی۔ سپاٹ بیانیہ اور سہل انگاری کو تخلیقی ادب کی خوبیاں مانا جانے لگا۔

قاری کی ذہنی تربیت بھی رک گئی۔ ادب کو دو خانوں میں تقسیم کر کے دیکھا جانے لگا۔ یعنی ’سمجھ میں آنے والا ادب‘ اور ’نہ سمجھ میں آنے والا ادب‘ ۔ کسی بھی سنجیدہ فکر کو ناول کے دائرے سے نکال کر باہر کر دیا گیا، کیوں کہ لوگوں کو ہر سنجیدہ بات کو فلسفہ کہہ دینے کی عادت پڑ گئی۔ رہی سہی کسر ٹی۔ وی پر دکھائے جانے والے soap operasنے پوری کردی جو سب کی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ادب کو بھی ایسی Kitschکی کسوٹی پر پرکھ کر اس کے معیار کا تعین کیا جانے لگا۔ یہ Kitschہی موجودہ دور میں ہمارے اجتماعی ادبی شعور کی شناخت بن گیا۔ میلان کنڈیرا نے بروخ کے حوالے سے Kitschکی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک فنکارانہ موقع پرستی ہے جس کا مقصد لوگوں کو جذباتی طور پر متاثر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں یا صرف لوگوں کو خوش کرنا۔

آگے چل کر میلان کنڈیرا یہ بھی کہتا ہے کہ Kitschہی تمام سیاست دانوں، سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کا جمالیاتی آدرش ہے۔ ’کچ‘ کا اصل کام موت پر پردہ ڈالنا ہے۔

میں اسے ایک مایوس کن صورت حال سمجھتا ہوں۔ اگر یہی حالت رہی تو یقین کیجیے کہ ایک دن سارا آرٹ ختم ہو جائے گا۔ وہ صرف اجتماعی زندگی کے ایک غلام کی حیثیت سے زندہ رہے گا۔

اس لیے میرے لیے یہ بے حد خوش آئند امر ہے کہ اشعر نجمی کا یہ ناول Kitschکے عنصر سے یکسر پاک ہے۔ سستی قسم کی جذباتیت سے اسے دور کا بھی علاقہ نہیں اور جہاں تک لوگوں کو خوش کرنے کا سوال ہے تو اس امر پر مجھے ہنسی آتی ہے کہ اشعر نجمی نے تو شاید یہ ناول لکھا ہی ہے لوگوں کو ناراض کرنے کے لیے، اور انھیں ڈسٹرب کرنے کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول پر تبصرہ کرتے وقت بھی ہمیں اس منحوس Kitschسے بچنا چاہیے۔ میں خود بھی یہ سطریں لکھتے وقت یہی کوشش کر رہا ہوں مگر شاید پوری طرح کامیاب نہ ہو سکوں یا بالکل ہی ناکام ہو جاؤں۔

اشعر نجمی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے Hard Newsکو Soft News بنانے کا سستا فارمولہ نہیں اپنایا۔ انھوں نے آرٹ اور ادب کی سنجیدہ شرطوں اور بنیادوں پر اپنے ناول کی عمارت کھڑی کی ہے۔ میں کسی بھی ناول یا افسانے کی تھیم اور موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ مجھے دلچسپی اس بات میں رہتی ہے کہ وقت یا تاریخ کے کس وقفے میں کچھ انسانوں پر کیا گزری۔ میرے لیے کردار، تھیم یا موضوع کے مقابلے میں زیادہ اہم اور پر کشش محسوس ہوتے ہیں مگر پھر بھی اس ناول کے حوالے سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس کا موضوع ایسا ہے جس پر اردو میں اس سے پہلے کچھ نہیں لکھا گیا۔

بعض افسانوں اور ناولوں میں ہم جنسی کے کچھ حوالے تو ضرور مل جائیں گے، وہ بھی نفرت کے جذبے کے ساتھ اور غیر ہمدردانہ یا اخلاقی متشددانہ رویے کے ساتھ؛ لیکن یہ اردو فکشن میں پہلی بار ہوا ہے کہ ہم جنسیت کو اس کے جسمانی، حیاتیاتی، ذہنی اور وجودی پس منظر میں تخلیقی بیانیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اشعر نجمی نے ایسے کسی مریضانہ کیفیت سے منسلک کرتے ہوئے ہمدردی کے ساتھ نہیں پیش کیا ہے بلکہ اس کے حوالے سے وجود کی پرتوں کو کھنگال کر رکھ دیا ہے۔

ناول کا اصل کام بھی یہی ہے کہ وہ وجود کا تجزیہ کرے، نہ کہ اس کا بیان پیش کر کے دستبردار ہو جائے۔ میں نے غلط نہیں کہا تھا کہ اس ناول کو پڑھتے وقت اور اس کی فنی خوبیوں کو محسوس کرتے وقت مجھے میلان کنڈیرا کے خیالات یاد آتے رہے۔ میلان کنڈیرا نے ’ناول کے فن‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ناول نگار انسانی وجود کی کسی پوشیدہ جہت کو دریافت نہیں کر سکتا تو اس کا لکھنا بیکار ہے۔ پورنو گرافی کے حوالے سے بھی اس کے خیالات بہت چونکا دینے والے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، جنسی قربت کے منظر سے ایک بہت تیز روشنی وجود میں آجاتی ہے اور کرداروں کا تمام نجی جوہر (Essence) خود بخود انکشاف کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی موجودی صورت حال انھی تمام پوشیدہ جہتوں کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے۔ اسی لیے پورنو گرافی کا استعمال ایک طرح سے سیاسی بھی ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اشعر نجمی نے یہ ناول میلان کنڈیرا کے لیے یا اسے خوش کرنے کے لیے لکھا ہے مگر میں اس بات پر حیرت زدہ ضرور ہوں کہ اردو کا ایک ناول، ہمارے عہد میں گویا ناول کی بائبل لکھنے والے کے لیے ایک ماڈل بن جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک اتفاقی امر ہے مگر ایسے حسن اتفاق روز روز نہیں ہوا کرتے۔ یہ اشعر نجمی کی ناول لکھنے کی غیر معمولی اور قابل رشک صلاحیت پر محمول ہے۔ میں جنسی قربت کے کچھ مناظر ’اس نے کہا تھا‘ میں سے پیش کر رہا ہوں۔

(1)

۔ ہم نے اپنے کپڑے نہیں اتارے۔ ابھی میں نے اپنا جینس نیچے کھسکایا ہی تھا کہ وہ بول اٹھا کہ اس کا چھوٹا بھائی اس سے جلتا ہے۔

جمعہ کی شب میرے لیے صبر آزما تھی۔ وہ لڑکا اپنے عضو تناسل کو ایستادہ نہیں کرپا رہا تھا۔ میں نے اس سے گندی اور فحش باتیں کیں اور اس کے عضو تناسل کو پکڑ کر بے شرمی سے اس کی پینٹ سے باہر نکالا، لیکن اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ مجھے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک میں نے اسے ثابت نہیں کر دیا اور اپنا عضو تناسل کو رگڑ اور مسل کر تسکین حاصل نہیں کرلی۔ (ص 158)

(2)

جیم کے سانولے جسم پر میرے آنسو کیسے پھیل گئے تھے۔ میری انگلیوں کے نیچے اس کی ہڈیاں نرم ہو کر پگھلتی تھیں۔ میں اور وہ کسی ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔ اگر اس وقت وہ کچھ بھی پوچھتا یا کہتا تو میں ٹوٹ کر بکھر جاتا۔ اپنی مردانگی کے مارے ٹوٹ جاتا۔ اسے میں کیوں کر بتاتا کہ بس یہی ایک اکلوتا سچ ہے۔ بھلا کیسے بتاتا کہ میرے سارے لفظ بیکار ہیں، کہ صرف وہ ہے صرف وہ، اس کے گداز کولہوں پر میں نے اپنی انگلی سے اپنا نام لکھا ہے، یہ کیسے بتاتا۔ (ص 185)

(3)
اس چھوٹے سے شہر کے بار میں جاؤ، وہاں ایسے مرد ملیں گے جن کے عضو تناسل بیدار نہیں ہو پاتے۔
وہاں جو مرد سب سے زیادہ اداس نظر آئے، اس کے ساتھ ٹیبل شیئر کرو۔
اس کے کان میں دھیرے سے کہو، مباشرت ہی سب کچھ نہیں ہے دنیا میں۔
اس سے کہو کہ تمھیں بارش میں ہاتھ پکڑ کر چلنے میں اس سے زیادہ مزہ آتا ہے۔
اس سے کہو کہ سیکس کا تمھارا سب سے پسندیدہ آسن ایک دوسرے سے لپٹ کر بوس و کنار کرنا ہے۔
اس سے کہو کہ شاید اسے اب تک اس کے لائق کوئی عورت نہیں ملی۔
اسے اپنے ساتھ گھر چلنے کی دعوت دو۔
تھوڑی دیر بعد اس سے بستر میں بولو کہ تم سچ مچ اس کے ساتھ ہم بستر ہونا چاہتے ہو۔
اسے حکم دو کہ وہ کوشش کرے ورنہ دفع ہو جائے۔
یہ سب ہو جانے کے بعد اس سے پھر پوچھو کہ اس نے ابھی تک کوشش نہیں کی۔
اس پر الزام لگاؤ کہ وہ نامرد ہے۔ (ص 159)

کیا انسانی وجود کا تجزیہ کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ تھا؟ کیا وجود کی پوشیدہ جہات کا انکشاف کسی اور تکنیک کے ذریعے اتنی عمدگی کے ساتھ کیا جا سکتا تھا؟ مجھے اس ناول کے ایسے مناظر پڑھ کر صرف ایک شخص یاد آتا ہے ؛ وہ بدنام، آوارہ، چور، بدمعاش اور زانی جسے سارتر نے ’سینٹ‘ کا درجہ دیا تھا، وہ شہرۂ آفاق فرانسیسی ادیب جس کا نام ژان ژینے تھا۔

’اس نے کہا تھا‘ کا بیانیہ اتنا گھنا، روشن اور اتنا ہی darkاور دل کو ڈبو دینے والا ہے کہ فی الحال مجھے اردو ناول میں ایسے کسی بیانیہ کی مثال نہیں ملتی۔ یہ محض ’عکاسی‘ کرنے والی نام نہاد سماجی حقیقت نگاری نہیں ہے، یہ ایک دریافت ہے ؛ انسانوں کی ایک متبادل دنیا کی دریافت۔ وہ انسان جو مرکزی معاشرے کے لیے محض ’دوسرے‘ (others) ہیں، ہمارا ذہنی اور اخلاقی فاشزم ان جماعتوں کو ’others‘ بنا دیتا ہے۔ یہ سیاسی نوعیت کا otherنہیں ہے مگر اس پر سیاست کی چھوٹ بھی پڑتی ہے اور ذہنی دہشت گردی کے ایک منظم ادارے کی بھی۔

ایڈورڈ سعید کی ’Theory of Others‘ کی توسیع کا ایک رشتہ ان کرداروں نے بھی بڑے غیر محسوس طریقے سے جا کر مل جاتا ہے۔ یہی کچھ سلسلے ہیں جن کی وجہ سے میں اس ناول کو اردو کا صحیح معنی میں ’پوسٹ ماڈرن ناول‘ کہہ رہا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اشعر نجمی کے ناول کے سرے LGBTQکے اس علمی ڈسکورس سے جا کر مل جاتے ہیں جو عالمی سطح پر چلائی جانے والی مختلف تحریکوں اور دانشورانہ سرگرمیوں کا محور ہے۔ چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ مشہور فرانسیسی فیشن انڈسٹریلسٹPierre Bergeکے وہ جذباتی اور بصیرت آمیز خطوط جو اس نے اپنے مرد شریک حیات Yvesکے نام لکھے ہیں۔

یا آسٹریلیا کے ادیب Benjamin Lawکا سفر نامہ جس کا عنوان ’Adventures in the Queer East‘ ہے جس میں اس نے ایشیا میں LGBTکی زندگی کی تفتیش اور پڑتال کی ہے۔ یا پھر ممبئی کے مشہور پینٹر بھوپن ککڑ جو gaysاور جسم کے مختلف پہلوؤں کی پینٹنگز بناتے ہیں اور جس میں ایک عنصر ہندوستانی دیومالا کا بھی ہے۔ کولکاتہ کی گرافک آرٹسٹ اپاسنا گھوش کا کام بھی LGBTکے حوالے سے بہت اہم ہے۔ یہاں اس فوٹو پراجیکٹ کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے جو نامور فوٹو گرافر سنیل گپتا اور ان کے ساتھی چرن سنگھ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

یہ فوٹو پراجیکٹ عالمی سطح پر ہم جنسوں یا gaysکے خلاف ہونے والے ظلم اور نا انصافی کو تصویروں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ ان کے علاوہ پیورٹویکن ناول نگارLouis Nagraineنے حال ہی میں ایک اہم مجموعہ ترتیب دیا ہے جس میں پیورٹویکن ادیبوں کی تحریریں شامل ہیں۔ یہ بہت اہم مجموعہ ہے۔ مشہور مورخ اور ادیب سلیم قدوائی کا وہ انٹرویو بھی پڑھنے لائق ہے جو انھوں نے ’توشی‘ کو دیا ہے۔ سلیم قدوائی سالہا سال gaysکے حقوق کے لیے لڑائی لڑتے رہتے ہیں۔

ونیتا رتھ کے ساتھ مل کر سلیم قدوائی نے ’Same Sex Love in India، Reading from Literature and History‘ کے نام سے جو کتاب مرتب کی ہے، وہ اس متبادل دنیا کا ایک چونکا دینے والا فیصلہ سناتی ہے۔ اس علمی ڈسکورس کے علاوہ ہم جنسی کے وجودی اور نجی پہلو پر وافر تعداد میں شاعری کی گئی ہے۔ مثلاً سنیتی نام جوشی، پیٹ پارکر، لی موکامبو، رتھ ونیتا، کی ہانگ دو، اسٹیفنی برڈ، عطل عدنان، گنار بوردلوگ، نشری نواسی سراسی، دھرمیش اور بران میزٹک کے نام تو بالکل سامنے کے ہی ہیں۔ یہی نہیں نامور روسی شاعرہ Marina Tsvetaeva کا ذکر بھی یہاں ناگزیر ہے جس نے شادی کے بہت بعد بعد میں صوفیہ پارنیک نام کی شاعرہ سے عشق کیا۔ صوفیہ پارنیک اور میرینا آہستہ آہستہ ایک جان دو قالب ہو گئے تھے۔

جہاں تک اردو کا سوال ہے، مجھے سوائے افتخار نسیم کے کوئی دوسری مثال یاد نہیں آتی۔ اردو کی غزلیہ شاعری میں امرد پرستی کا جو عنصر ہے، وہ قطعی طور پر رسمی اور مصنوعی ہے، اس لیے اس کا ذکر کرنا میرا مقصود بھی نہیں ہے۔

اس علمی اور کلچرل ڈسکورس میں ہزاروں کی تعداد میں بننے والی فیچر فلمیں، ڈاکیومنٹری، تھیٹر، آرٹ اور موسیقی سبھی شامل ہیں۔

اگر اس پس منظر میں اور اس سیاق میں اشعر نجمی کے ناول کو دیکھا جائے تو ہمیں یہ احساس فوراً ہوجاتا ہے کہ یہ وقت کی وہ پرت ہے جس میں ہم اس وقت موجود ہیں۔ ہم کسی جماعت کے رکن بن کر اس میں شامل ہوں یا نہ ہوں مگر ہمیں اپنے عہد کے مصائب میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ ہمیں ’سچ‘ کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کی عادت ڈال لینی چاہیے، کیوں کہ مقتدرہ تاریخ کا کوڑے دان ایک نہ ایک دن خالی کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمیں جگہ خالی کرنی پڑے گی۔ ہمیں تسلیم کرنا ہی ہوگا ورنہ وقت ایک نہ ایک دن سب کا محاسبہ کرے گا۔

اسی لیے میں اس ناول کو اردو کا پہلا پوسٹ ماڈرن کہنے پر مجبور ہوں کیوں کہ اس میں وہ تمام بحثیں شامل ہیں جو پوسٹ ماڈرنزم کے اجزائے ترکیبی ہیں، لیکن اگر آپ اسے ماڈرن (جدید؟ ) یا کلاسیکل ناول کہیں، تب بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا یا آپ اگر اسے سرے ناول ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیں تب بھی نہ ناول پر اس کا کوئی اثر پڑے گا اور مجھے پر تو بالکل بھی نہیں۔ بات ایک بار پھر لفظ ناول پر آ گئی تو کہتا چلوں کہ میخائل باختن نے کہا تھا کہ ناول کو ہمیشہ Polyphonicہونا چاہیے۔

ناول کی تھیم تو محض ایک ’وجودیاتی تفتیش‘ کا نام ہے۔ ناول میں کئی آوازیں ہونی چاہئیں۔ باختن کا کارنیوال کا نظریہ بھی اسی امر سے منسلک ہے۔ یہ آوازیں موسیقی میں ابھرنے والی ایک ساتھ کئی آوازوں سے مشابہہ ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہونے کے باوجود اپنی اپنی جگہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال کو Polyptonکہتے ہیں۔ ’اس نے کہا تھا‘ میں بہت سے کردار جگہ جگہ سامنے آتے ہیں مگر سب کی آواز الگ پہچانی جاتی ہے۔

یہاں نہ صرف مرکزی کردار بلکہ سارے کرداروں کی آوازیں آپس میں ہم آہنگ ہونے کے باوجود اپنی اپنی جگہ خود مختار ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انسانی وجود کے دکھوں کا ایک کارنیوال چل رہا ہے جس میں نہ جانے کتنے لوگ اپنے چہروں پر مختلف مکھوٹے لگائے ہوئے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا رقص کر رہے ہوں۔ اس کارنیوال میں ایک لطیف سی حس مزاح بھی ہے۔ میلان کنڈیرا لکھتا ہے کہ فرشتوں کی ہنسی میں ایک جھوٹی گونج ہے۔ فرشتے گویا ہر شے کے منظم ہونے پر ہنستے ہیں جب کہ شیطان ہر شے کے لایعنی ہونے پر ہنستا ہے۔ اس رمز کو اشعر نجمی نے اپنے ناول میں اس قدر ہنر مندی اور تخلیقی ذکاوت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ سپاٹ بیان لکھنے والے اور پڑھنے والے شاید آسانی سے اسے محسوس بھی نہ کرسکیں، کیوں کہ دنیا کی ہر چیز ہر ایک کے لیے ہوتی بھی نہیں ہے۔

اشعر نجمی نے اخلاقی تاریخ کی منافقت اور اس کی آمرانہ ذہنیت پر ایک کاری ضرب لگائی ہے۔ اخلاقی نظام کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ گویا ہمیشہ کے لیے اپنی پرستش کرنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اخلاقی قدر ایک اضافی قدر اور زمان و مکان کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔ حاشیے پر ڈال دی گئی اخلاقیات یا جماعتیں جب اپنی سیاسی، سماجی اور اخلاقی تاریخ لکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس نام نہاد mainstreamتاریخ کے ذریعے دوبارہ حاشیے پر دھکیل دی جاتی ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو سیاسی اور ثقافتی دائرے میں Nation Stateکیا کرتی ہیں۔

اشعر نجمی کا بیانیہ یہ سب ایک کھلواڑ (Playfulness) کی شکل میں بھی پیش کرتا ہے۔ جگہ جگہ یہ کھلواڑ بہت نمایاں ہے، جسے ناول کو غور سے پڑھتے وقت صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دراصل اشعر نجمی کے یہاں بیان نہیں بیانیہ پایا جاتا ہے جو بہت سرکش ہے اور جگہ جگہ اپنی نوعیت بدلتا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس ناول کے متن میں عمل (Action) بہت ہے۔ جدید ناول میں عمل بہت کم تھا، محض خیالات ہی خیالات تھے۔ ’اس نے کہا تھا‘ میں فکر اور عمل کا بے حد خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے۔

یہ خصوصیت ہمارے ناول میں ایک عرصے سے عنقا ہو گئی تھی۔ یہ ناول بظاہر اس بات سے بحث نہیں کرتا کہ آمرانہ اخلاقی نظام میں کیا ہنگامہ برپا ہے بلکہ اس سے کہ انسان کیا کچھ کرنے پر قادر ہے۔ یہ سیاسی سوال بھی ہوسکتے ہیں مگر سیاسی سے زیادہ یہ بشریاتی سوال ہیں۔ بقول میلان کنڈیرا، ناول ہی وہ سب کچھ کہہ سکتا ہے جو کسی اور طرح سے کہنا ممکن نہیں۔ بہت پہلے ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے کہا تھا کہ ”ایک ناول نگار کے بطور میں خود کو کسی بھی ستی گتی، کسی بھی سائنس دان سے، کسی بھی فلسفی سے اور کسی بھی شاعر سے بالا تر سمجھتا ہوں (یاد رہے کہ ڈی۔

ایچ۔ لارنس خود بھی ایک اعلیٰ شاعر تھا) ۔ یہ سب لوگ زندہ انسان کے مختلف اجزا کے عظیم ماہر ہیں مگر ان اجزا کی سالم صورت کا کوئی ادراک نہیں رکھتے۔“ میں لارنس کی بات سے متفق ہوں، اسی لیے مجھے تشریحی طریقۂ کار سے زیادہ ترکیبی طریقۂ کار پسند ہے۔ میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ ناول کے خمیر میں ہر نظام خیال سے ایک قسم کی تشکیک موجود رہی ہے۔ اشعر نجمی کا ناول ہمیں بتاتا ہے کہ انسانی زندگی کو کسی بھی قسم کے فریم ورک میں یا نظام میں فٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔

لیکن میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اشعر نجمی اس ناول میں صرف دنیا اور اخلاقی و سیاسی نظام کے بارے میں کوئی آئیڈیولوجی بیان کر رہے ہیں۔ کسی بھی جینوین ناول نگار کا یہ کام نہیں ہوتا۔ مشہور فرانسیسی مابعد جدید فلسفی آلتھیوسے کا کہنا ہے کہ ادب کے عظیم کارنامے کسی آئیڈیولوجی کے مظہر نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ حقیقت کی تفہیم مہیا کراتے ہیں۔ فن ہمیں ایک خاص فاصلے سے اس سرچشمے کو دکھاتا ہے جو آئیڈیولوجی کا ماخذ ہے۔

اس طرح ہر اہم اور نمایاں ادبی تخلیق کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس میں آئیڈیو لوجی ہوتے ہوئے بھی غائب ہوجاتی ہے اور ایک التباس بن جاتی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر کسی مریض کو دیکھتے وقت چند علامتوں کے ذریعے مرض کی تشخیص کرتا ہے، اسی طرح تربیت یافتہ قاری بھی تخلیقی فن پارے کی تشکیل میں ایسے نشانات اور بھیدوں کے ذریعے ہی مصنف کی علامتوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ آلتھیوسے نے اس طرح کے مطالعے کو Symptomatic Reading کا نام دیا ہے۔

اشعر نجمی کے ناول کو پڑھنے کے لیے ہمیں تخلیقی بیانیہ کے ان آداب کا علم ضروری ہے (ورنہ لوگ باگ تو بیان، Narrationکو ہی بیانیہ، Narrative سمجھ لیتے ہیں ) ، اور تب ہی اس ناول کی تعمیر کے سارے وصف ہم پر کھل سکتے ہیں۔

ایک بات مجھے ابھی ابھی یاد آئی ہے جو اس ناول سے متعلق بہت دلچسپ نوعیت کی ہے کہ میلان کنڈیرا نے یہ بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ ”مجھے ناول کے اپنے سیکس (Gender) میں دلچسپی ہے۔ ناول نگار کے سیکس میں نہیں۔ ہر بڑا ناول دوہری جنس (Bisexual) کا ہوتا ہے۔“ ممکن ہے کنڈیرا کا مطلب یہ ہو کہ ناول عورت اور مرد اور دونوں کی ملی جلی حیاتیاتی شکل کے وژن کا اظہار ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا موضوع ہم جنسی کا ہوتے ہوئے بھی ناول میں جنسی لذت کوشی کا شائبہ تک نہیں۔ یہ بھی ایک مشکل سبق ہے جو اشعر نجمی بہت سے لکھنے والوں کو پڑھا سکتے ہیں بلکہ سکھا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں میرے عزیز دوست خورشید اکرم نے کیا عمدہ بات لکھی ہے ؛ ”لیکن جب مقصود جنس ہے ہی نہیں، بلکہ انسان کی روح کے زخم دکھانا ہیں، اس پر ہونے والے جبر اور تحقیر کو سامنے لانا ہے، اور انسان کو اس کے انسانی مقام پر قائم کرنے کی سعی ہو تو اگر قلب منصفانہ نہیں تو ایک لفظ بھی نہیں لکھا جا سکتا اور جب میں اس زاویے سے سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ ناول نگار یعنی ہمارے اشعر نجمی ایک عارف کی طرح ان تاریک راہوں سے بہ سلامت گزر گئے۔“

اشعر نجمی نے یہ کوہ گراں اٹھا کر بہت بڑا اور نیا کام انجام دیا ہے۔ انھوں نے ان بد نصیب روحوں کی کہانی لکھی ہے جو اردو میں لکھنا اور مشکل تھا کیوں کہ اردو والے ابھی اپنی روایتی جمالیات اور نام نہاد اشرافیہ ذہنیت سے پوری طرح باہر نہیں آ پائے ہیں۔ اس نئی اور متبادل جمالیات کو انگیز کرنا قدرے مشکل امر ہے۔ مگر کہانی تو کہانی ہوتی ہے اور ہر ایک کی اپنی کہانی ہوتی ہے۔ 1961 میں کیوبا کے انقلاب کے بعد فیدل کاسترو نے ایک غیر معمولی تقریر کی تھی جسے ’دانشوری کے نئے باب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تقریر میں کاسترو نے کہا تھا کہ ہمیں کیوبا کے ہر باشندے کو تعلیم یافتہ بنانا ہے اور یہاں تک کہ اگر کسی عورت کی عمر 106 سال کی بھی ہو تو وہ بھی اپنی کہانی لکھ سکے۔ کاسترو کی تقریر کے بعد سے Testimonyکے نام سے ناول کی ایک

نئی قسم وجود میں آئی ہے جس میں بے پڑھے لکھے، بے بس اور مظلوم اشخاص کسی لکھنے والے کو اپنی کہانی سنا کر لکھواتے ہیں۔ پاکستان کی ’مختار بائی‘ پر لکھی گئی کتاب اسی زمرے میں آتی ہے۔

آخر میں یہ کہ ناول نگار اور اس کے ناول کے درمیان وہی رشتہ ہے جو گھڑی ساز اور گھڑی کے درمیان ہے۔ گھڑی ساز تو گھڑی بنا کر گھڑی سے الگ ہو گیا ہے، یا خدا بھی شاید دنیا بنا کر دنیا سے اب الگ ہو گیا ہے، مگر اس کے باوجود گھڑی چلتی رہتی ہے، دنیا چلتی رہتی ہے اپنے دکھ سکھ کے ساتھ۔ اسی طرح ناول ختم ہو کر بھی چلتا رہتا ہے۔ کردار اپنی اپنی صلیب اٹھائے چلتے ہی جاتے ہیں ؛ کاغذ پر نہ سہی مگر قاری کے قلب و ذہن میں، شعور اور لاشعور میں، اس کے وجود کے تاریک نہاں خانوں میں۔

ناول نگار اپنے کرداروں سے دستبردار ہو بھی جائے تو کیا۔ ناول کبھی کسی بند گلی کا آخری مکان نہیں ہوتا۔ ناول کے مقدر میں ایک لامتناہی سفر کو ڈھوتے رہنا ہی لکھا ہے۔

میں کوئی رسمی اور مکتبی جملہ لکھ کر اپنی بات ختم نہیں کر سکتا، اس کے بجائے میں خاموش ہوجانا زیادہ پسند کروں گا کیوں کہ خاموشی سے بڑی نہ کوئی دعا ہے، نہ عبادت ہے، اور نہ ہی ریاضت۔ خاموشی کی پرتوں میں سینکڑوں نعرۂ تحسین چھپے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments