خوشبو کی زبان

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


کورونا کی چوتھی لہر جاری ہے۔ پچھلے پونے دو برس سے اس مرض سے لکا چھپی جاری تھی۔

کئی ماہ گھر میں بند رہی، آنا جانا ملنا ملانا سب موقوف۔ ہاتھ سینٹائز کرتے کرتے کھال اتار لی، قوت مدافعت بڑھانے کے نام پر دنیا بھر کی نباتات، معدنیات، ادویات چکھ لیں، سماجی فاصلہ اختیار کرتے کرتے بہت سے لوگوں کو ناراض کر بیٹھی۔

اس سب احتیاط کا فائدہ یہ ہوا کہ پونے دو برس تک کورونا سے بچ کر بیٹھی رہی۔ گھر گھر لوگ بیمار ہوئے اور مجھے خود پر اپنی قوت مدافعت پر ایک عجیب طرح کا اعتماد پیدا ہو گیا۔

میں اپنے آپ کو ان سیانوں میں سے سمجھنے لگی جو ویکسین آنے تک کسی نہ کسی طرح خود کو اس وبا سے بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

صرف ایک روز، باہر نکلتے ہوئے ماسک بھول گئی۔ کورونا بھی پونے دو سال سے اسی بے احتیاطی کا منتظر تھا۔ جھٹ آن دبوچا۔

میں اس بخار کو بھی خاطر میں نہ لاتی لیکن ایک صبح جب میں اٹھی تو یوں لگا کچھ بدلا ہوا ہے۔ ایک عجیب سا سناٹا تھا۔ وہی کمرہ تھا، وہی درودیوار، سائیڈ ٹیبل پر رکھا چائے کا کپ، رجنی گندھا کے پھول، تشتری میں رکھی موتیے اور چنبیلی کی کلیاں۔ باہر باغ میں پرندے شور مچا رہے تھے لیکن پھر بھی ایک سناٹا تھا۔

کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا وجہ ہے۔ غسل خانہ، لاؤنج، باورچی خانہ سب جگہ ایک سی ویرانی اور اجنبیت منہ پھاڑے کھڑی تھی۔

اسی شش و پنج میں خس کے عطر کا کنٹر کھولا تو اندازہ ہوا کہ عطر کی خوشبو غائب ہے۔ گھبرا کے دوبارہ سونگھا، کوئی خوشبو نہیں۔

رجنی گندھا، چنبیلی، موتیا، سب جیسے گونگے ہو چکے تھے۔ نہ چائے کی خوشبو تھی، نہ باورچی خانے سے اٹھتی دیسی گھی کے پراٹھوں کی مہک نہ لونگ، الائچی، دار چینی اور کالی مرچ کی خوشبو، نہ ہی کتابوں کی سیلن زدہ نم سگندھ۔

باہر باغ کی کیاریوں میں سے اٹھنے والی کائی اور نامیاتی کھاد کے گلنے سڑنے کی ہمک، مچھلیوں کے تالاب کی جانی بوجھی مچاہند، ساتھ کے گھر سے عین دس بجے اٹھنے والی بھنتے ہوئے مصالحے میں ڈالی گئی ہلدی اور سوکھے دھنیے کی ہلکی سی ہراند، کچھ بھی موجود نہ تھا۔

اسی وقت کوڑا اٹھانے والا ٹرک سڑک پر آیا۔ روز اس سے اٹھتی سڑاند سے گھبرا کے اندر بھاگ جاتی تھی لیکن آج وہ بو بھی گیٹ پھلانگ کے مجھ تک نہ آسکی۔

بھادوں کا مہینہ ہے، بادل کا ایک ٹکڑا اچانک برس پڑا۔ بوندیں زمین پر گریں لیکن مٹی سے مہک نہ اٹھی۔ ہوا کا جھونکا آیا مگر اس میں الفا الفا گھاس کے پھولوں اور بڑے تالاب کے کھڑے پانی کی بساندھ تھی اور نہ ہی تل اور ماش کی سوکھتی فصل کی مانوس خوشبو۔

حد یہ کہ صرف چند فٹ دور چھپر تلے کسی کام کے لیے چربی پگھلائی جارہی تھی، اس کی چراند تک نہیں آرہی تھی۔

یہ کون سی دنیا تھی؟ میری دنیا تو کئی مانوس خوشبوؤں سے عبارت تھی، جن کا ہاتھ پکڑ کر میں چلتی تھی۔ گھر کے ہر کمرے کی خوشبو، فارم کے چپے چپے کی اپنی الگ خوشبو تھی جس کے ساتھ میں نے جینا، چلنا پھرنا سیکھا تھا۔

مجھے یوں لگا کہ میں ان خوشبوؤں، بدبووں کے بغیر چل بھی نہیں سکتی۔ مجھے نہ ہی کچھ سجھائی دے رہا تھا اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا تھا۔

تب مجھے اندازہ ہوا کہ خوشبو کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ قوت شامہ کا غائب ہو جانا اتنا ہی بھیانک ہے جتنا، بصارت یا سماعت کا کھو جانا۔

اس اندھی، گونگی، بہری دنیا میں جانے کتنے روز گزر گئے۔ نہ کتاب پڑھی جا رہی تھی نہ فلم پر دل ٹھک رہا تھا۔ بار بار پرفیوم سونگھتی تھی مگر وہی سناٹا۔ موتیے کے پھولوں نے بھی زبان بند کر لی تھی۔ ادا جعفری کا ایک شعر بار بار یاد آرہا تھا:

حیران ہیں، لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے

خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

شائد پندرہواں روز تھا کہ کسی نے بھٹی میں بھنے تازہ چنے بھجوائے۔ اتنے روز کے بعد یہ پہلی مانوس خوشبو تھی جو مجھے محسوس ہوئی۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھنے ہوئے چنے سے زیادہ مسحور کن خوشبو کسی شے کی نہیں ہو سکتی۔ خاص کر جب آپ کو ایک پندرھواڑے تک کوئی بھی خوشبو نہ سنگھائی دے؟

کورونا اپنی تمام تکلیفوں اور سختیوں کے ساتھ گزر گیا۔ آہستہ آہستہ قوت شامہ واپس آرہی ہے۔ روز ایک نئی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ جیسے دنیا میں آہستہ آہستہ پھر سے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔

قوس قزح مجھ سے روٹھ گئی تھی پھر سے واپس آرہی ہے۔ زندگی کے رنگ جو خوشبو سے عبارت ہیں، پھر سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

کوشش کریں یہ خوشبوئیں آپ سے نہ روٹھیں۔ ویکسین لگوائیں اور احتیاط کریں۔ خوشبو کی زبانی شاید یہ ہی پیغام آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).