کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنہ

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


کوئٹہ میں خود کش حملے میں چار ایف سی اہلکار جاں بحق اور اٹھارہ زخمی ہو گئے۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ایک ماہ میں کوئٹہ میں یہ دوسرا دھماکہ ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کے افغان سرحد سے جڑے سابق قبائلی اضلاع میں بھی گذشتہ ماہ سے ٹی ٹی پی کی پرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے اس عالمی یقین دہانی کے باوجود کہ ان کی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی، کالعدم ٹی ٹی پی کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک نیا حوصلہ ملا ہے۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کو استاد کا درجہ دیتی ہے اور ملا عمر سے ملا ہیبت اللہ تک افغان طالبان کے ہر امیر کی بیعت کا اعلان بھی کرتی آئی ہے۔

افغان طالبان نے آج تک ٹی ٹی پی سے سیاسی لاتعلقی کا کوئی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی ٹی ٹی پی کی پاکستان میں ہونے والے کسی بڑی واردات پر طالبان قیادت کی جانب سے کوئی حرفِ مذمت کبھی سنا گیا۔

پاکستان کے نقطہ نظر سے دوسرا بڑا خطرہ دولتِ اسلامیہ خراسان (داعش) کی جانب سے ہے۔ وزیرِ داخلہ شیخ رشید بھی کہہ رہے کہ افعانستان میں اپنے کٹر نظریاتی دشمن طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد داعش کے حامی چمن کے راستے بلوچستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

فی الحال افغان طالبان کو پاکستان، ایران، روس اور چین کی جانب سے علانیہ و غیر علانیہ حمایت میسر ہے اور افغانستان کی شمالی سرحد سے لگے وسطی ایشیائی ممالک بھی ماضی کے برعکس طالبان مخالف ازبک و تاجک جنگجو سرداروں اور قبائلی رہنماؤں کے بارے میں اس وقت غیر جانبداری کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

اس رویے کے پیچھے مذکورہ ممالک کی یہ امید ہے کہ چند ماہ کے دوران جب افغانستان پر طالبان کی انتظامی گرفت مضبوط ہو جائے گی اور وہ ایک مسلح ملیشیا کی زہنی کیفیت سے نکل کر ایک برسرِ اقتدار جماعت کی طرح سوچنا شروع کر دیں گے تو شاید وہ اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنا سکیں کہ ان کی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

لیکن یہ ہنی مون پیریڈ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ چل سکتا ہے۔ اس کے بعد ہمسائے طالبان کی گورنننس اور ریاست پر ان کی انتظامی گرفت کے بارے میں پہلے زیرِ لب اور پھر علانیہ سوال اٹھانا شروع کر دیں گے۔

اگر آنے والے دنوں میں پاکستان کی سرزمین پر دہشت گرد کارروائیاں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں تو پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہر حلقے کی جانب سے اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ طالبان کی اس بابت یقین دہانیوں پر کس بنیاد پر یقین کیا گیا اور اب افغانستان کی طالبانی حکومت سے قومی سلامتی کے تناظر میں کیسا سفارتی رویہ رکھا جائے گا؟ پپی جپھی والا یا پھر عملیت پسندی والا؟

اور پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ پاک افغان سرحد پر جو مہنگی حفاظتی دیوار اٹھائی گئی اس کا کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اب تو افغانستان میں بھارتی ادارے را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا پتہ بھی گول ہو گیا۔ چنانچہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالخصوص اور باقی پاکستان میں بالعموم ممکنہ نئی وارداتوں کا الزام اب کس پر ڈالا جائے گا اور کیا نویلی تاویل پیش کی جائے گی؟

یہ وہ چیلنج ہیں جن کا نئے افغانستان اور تقریباً نئے پاکستان کو ابھی سے سامنا ہے۔ یا تو الزامیہ دھجیاں منڈھنے کے لیے تازہ بکرا تلاش کیجئے یا پھر اپنی پالیسیوں پر ایک بار پھر عملی نگاہ ڈالیے۔

ورنہ دونوں جانب لوگ مرتے ہی رہیں گے اور کابل اور اسلام آباد مجرموں کو تلاش کرنے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے نام پر گیہوں سے زیادہ گھن پیستے رہیں گے اور ہر واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے رہیں گے اور مرنے والوں کے غم میں برابر کے شریک ہوتے رہیں گے۔

مشہور محاورہ ہے ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ‘۔ اس کا مطلب گذشتہ چالیس برس میں جتنا پاکستانی عوام کو پتہ چل گیا ہے شاید خواص کو اس سمجھ تک پہنچنے میں اور چالیس برس لگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).