قدیم یونان میں ”ڈرامے“ کا فن


تیسرے ہزار قبل مسیح (3000 ق م) سے قدیم جزیرہ نما اور اس کے گرد و نواح کے ایجیئن جزائر میں کانسی دور (Bronze age) کی تہذیب (جس کو ایجیئن تہذیب کہا جاتا ہے) کی ابتداء اور نشو و نماء ہوئی جو بعد میں ایشیا کوچک سے وقتاً فوقتاً آنے والے دوسرے آریائی نسل باشندوں کی آمد اور کئی مراحل اور نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد 6 ویں اور 5 ویں صدی ق م کے دوران یونان خاص (جزیرہ نما یونان) کی سرزمین کو مرکز بنا کر ایک ایسے سنہرے دور کے حامل تہذیب میں ڈھل گئی جو اپنے فن تعمیر، آرٹ، ادب (ڈرامہ) حکومت و سیاست۔ فلسفہ اور سائنس کے شعبوں میں اپنی تخلیقات، اختراعات اور کارناموں کے باعث انسانی تاریخ کی ایک شاندار اور اہم ترین تہذیب کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔

بعد کی تاریخ اور تہذیبوں خاص کر یورپ کی موجودہ تہذیب کے بے شمار اثرات اور احسانات ہیں۔ عیسائیت کے سوا یورپی تہذیب کے ہر شعبے کا آغاز یونان سے ہوا۔ یہاں تک کہ بعد میں عیسائیت کی روح کو بھی یونانی اثرات نے تبدیل کر دیا۔

یورپی تہذیب پر قدیم یونان کے اثرات کے متعلق مشہور انگریز شاعر ”شیلے“ کا قول ہے۔ کہ ”ہم سب یونانی ہیں کیونکہ ہمارے قوانین، ہمارے ادب اور ہمارے فلسفے کی جڑیں یونان میں ہیں“

یہاں قدیم یونان کے ادبی صنف ”ڈرامے“ کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

ڈرامہ آج کل جس طرح رائج ہے وہ یونان کی ایجاد ہے جہاں ڈرامے کا آغاز غالباً مذہبی رسومات اور تقریبات کے سلسلے میں ہوا اور اس کو بتدریج عروج تک پہنچایا۔

اس دور کے ڈرامے شاعرانہ ہیتوں میں لکھے جاتے تھے۔ چونکہ یونان میں ڈرامے اسٹیج کرائے جاتے تھے۔ اس لیے اس حوالے سے ان کے متعلقہ لوازمات کورس (chorus) مکالموں، رقص، گیت اور اداکاری پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔

ڈراموں کے لیے باقاعدہ تھیٹرز بنائے گئے تھے (جن میں بعض آج بھی زیر استعمال ہیں)۔ ایتھنز میں بہترین ڈرامہ نگاروں کو انعامات دیے جاتے تھے۔
ایتھنز میں المیہ ڈرامے (Tradegies) 6 ویں صدی ق م کے تیسپیس (Thespis) کا ایجاد کردہ بتایا جاتا ہے۔

یونانی ڈراموں میں اکثر کے پلاٹ عام دیو مالائی کہانیوں کی بنیاد پر اٹھائے جاتے تھے۔ بعض کے موضوعات 8 ویں صدی ق م کے یونانی شاعر حکومت (Homer) کے رزمیوں (Epics) سے لئے گئے۔ جبکہ بعض ڈراموں کا مواد اور پس منظر یونان اور ایرانی جنگوں سے فراہم کیا گیا۔ یونانی ڈرامہ (المیہ) محض تفریح کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ ان المیہ ڈراموں سے اخلاقیات کی تدریس، اور اعلی اقدار (عدل، رحم اور انکساری وغیرہ) کا فروغ بھی کیا جاتا تھا۔

یونانی ڈرامہ نویسی (المیہ نگاری) میں ایتھنز کے تین المیہ نگار اسکائی لیس (Aeschylus 525 ق م تا 456 ق م) سوپیکلز Sophocle 496 ق م تا 406 ق م) اور یوری پیڈس (Euripides 480 تا 496 ق م) بہت بڑے نام ہیں۔

اسکائی لیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے 70 تا 90 ڈرامے لکھے جن میں مکمل صورت میں صرف سات رہ گئے ہیں۔ کچھ کے ادھورے حصے ملے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا نمایاں موضوع خدائی حدود کی خلاف ورزی کے باعث پیش آنے والے نتائج ہیں۔ وہ روایتی مذہبی عقائد اور اخلاقیات کا پرچارک ہے۔

سوپیکلز نے 123 ڈرامے لکھے تھے ان میں صرف سات مکمل صورت میں باقی رہ گئے ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی پر تقدیر کے اثرات کو اپنے بیشتر ڈراموں کا موضوع بنایا ہے۔ اینٹی گون (Antigone) اس کا بڑا شہکار ڈرامہ ہے۔ اسی طرح اس کا اوڈی پس ریکس (Oedipus Rex) زبردست المیہ ہے۔

یوری پیڈس ”کے 69 ڈراموں میں صرف 19 زمانہ حال تک پہنچے ہیں۔ اس کا طرز تشکیکی (Sceptic) تھا۔ اپنے ڈراموں میں دیوتاؤں کو ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل یو جاتا ہے کہ دیوتاؤں کا انسانوں کے ساتھ تعلق دوستانہ ہے یا جابرانہ۔ ان کے ڈراموں میں میڈیا (Media) ٹروجن عورت (Trojan woman) اور الیکٹرا (Electra) ایسے ڈرامے ہیں جو زمانہ حال میں بھی اسٹیج کرائے جاتے ہیں۔ ان ڈراموں کو آج بھی شہکار سمجھا جاتا ہے۔

ایتھنز کے مذکورہ تین بڑے المیہ نگاروں کے فن میں انسانی فطرت کے ہر پہلو۔ اعلی ترین الہی تفکر سے لے کر اسفل ترین انسانی جذبات تک۔ کی عکاسی پائی جاتی ہے۔

قدیم یونانی المیوں (Tragedies) کے عالمگیر موضوعات آج بھی relevant ہیں۔

قدیم یونان کے المیہ ڈراموں کی طرح ان کے طربیہ ڈرامے Comedies) بھی کچھ کم معیاری نہ تھے۔ ان کا آغاز 487 / 488 ق م میں ایتھنز کے ڈیو نو سس (Dionysus) کی مذہبی تقریبات سے ہوا۔ یونان کے طربیہ ڈرامہ نگاروں میں ارسٹوفینسAristophanus 450 تا 380 ق م) اور مانیندر (Manender) دو بڑے نام ہیں۔

ارسٹوفینس نے اپنے طربیوں میں مزاح اور ہجو کے ذریعے ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی اور شخصیات پر تنقید کی ہے۔ اپنے طربیہ ڈرامے ”مینڈک“ (Frog) میں المیہ نگار یوری پیڈیس اور بادل ”cloud) میں سقراط کو مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔ بعد کے طربیوں میں شخصی تنقید کے بجائے عصری مسائل کو مزاح کا نشانہ بنایا۔ اپنے طربیہ“ لیسسترا ”(Lysistrata) میں پیلوپونیشین جنگ (ایتھنز اور اسپارٹا کے درمیان 431 تا 404 ق م تک یونے والی جنگ) پر بڑے مزاحیہ لیکن موثر انداز میں تنقید کی ہے۔

طربیہ نگار ”مانیندر“ (243 تا 290 ق م) نے 108 طربیے لکھیں اور لینایا (Lenaia) کی تقاریب میں 8 بار اول انعام حاصل کیے۔ ان کے زیادہ تر طربیے پوری صورت میں باقی نہیں رہے ہیں۔ (ان کے تقریباً زیادہ مکمل صورت میں بچ جانے والے طربیوں میں Dyskolos اور Samia ہیں)

تاہم جتنے بھی حصے دستیاب ہیں ان سے اس کے اعلی فن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی طربیوں سے انسانی کمزوریوں اور روزمرہ زندگی کو بہت خوبصورت انداز میں نمایاں کیا ہے۔ مانیندر کے طربیوں کے بکھرے ہوئے حصوں کے بعض جملے ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
مثلاً یہ کہ ”جن سے خدا محبت کرتا ہے وہ جوانی میں فوت ہو جاتے ہیں“
”بری صحبت اچھے اخلاق والوں کو خراب کرتی ہے۔“
”محض اپنے لیے جینا زندگی نہیں“
”کوئی ایمان دار شخص کبھی یک دم مال دار نہیں ہوا ہے“
”دانا لوگوں کی صحبت سے انسان دانا بن سکتا ہے“
یورپ تہذیب کے کئی مختلف شعبوں کی طرح قدیم یونان کے اثرات اس کے ادب پر بھی پڑے ہیں

نامور انگریز ڈرامہ نگار ولیم شکسپیئر نے اپنے لازوال ڈراموں کی بنیاد قدیم یونانی سوانح عمریوں (تاریخی ڈراموں) پر رکھی۔ جدید ڈرامہ نویس آج بھی ایتھنز کے ڈراموں سے inspire ہوتے ہیں۔ یورپی ادبی ہئیتوں Forms) کا بڑا منبع یونانی شاعری اور ڈرامے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments