ہم اور ہماری شناخت


کسی بھی خطے، معاشرے یا قوم کے اندر کچھ ایسے افراد گزرتے ہیں، جن کی صلاحیتیں ایک عام انسان سے مختلف اور بڑھ کر ہوتی ہیں، اور جس کی بناء پر معاشرہ ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا، سراہتا اور ان کے منسوب واقعات کو اپنے اذہان و قلوب میں محفوظ کر کے، آنے والی نسلوں کو ان سے آگاہ کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان شخصیات کا نام تاریخ میں زندہ رہتا ہے، بلکہ آنے والے نسلوں کو بھی ان کے اقوال و افعال سے رہنمائی ملتی ہے۔ اور یوں یہ لوگ آنے والوں کے لئے گویا وہ مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں، کہ جس کی روشنی میں کئی آنے والی نسلیں اپنی زندگی کا راستہ اور نصب العین کا تعین کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں وطن عزیز میں ہم بطور قوم کیا ہیں اور ہماری اصلی اور حقیقی شناخت کیا ہے، اس سوال کے جواب کا تصفیہ اہل علم و دانش کے یہاں ہنوز لاینحل ہے، لہذا کوئی یہاں قومیت کی بنیاد اسلام کو بتاتا ہے تو کوئی پاکستان کو۔ تاہم عوام الناس کی غالب اکثریت کے نزدیک اس خطے کی قومیت مذہب کے اوپر قائم ہے، جس کی بایں وجہ اس ملک کے قیام کا حصول تھا، جس کی بابت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ یہاں اسلام کا نظام قائم ہوگا، جو ہنوز پورا نہ ہوسکا۔ چونکہ یہاں قومیت کی بنیاد عوام الناس کے نزدیک مذہب ہے (گو احقر اس خیال سے چنداں متفق نہیں ہے ) ، لہذا اس خطے کی تاریخ میں جو ہیرو نمایاں مقام حاصل کر پائے ہیں، ان سب کا تعلق بھی اسلام سے ہے۔

لیکن اگر ہم اس بات کو کچھ دیر کے واسطے پس پشت ڈال کر، باقی ممالک کی طرف غور کریں اور ان کی تاریخ پہ ایک نظر دوڑائیں، تو یہ بات اپنے بارے میں کس قدر مضحکہ خیز نظر آتی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی تاریخی شخصیات نہ صرف مقامی مٹی کی پیداوار ہیں، بلکہ ان کی جانی اور مالی قربانی کا مصرف بھی ان کا اپنا خطہ زمین تھا۔ مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس جن شخصیات کو تاریخ میں نمایاں مقام دیا جاتا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔

اول الذکر میں وہ طبقہ جو یہاں وارد ہوا اور اس نے اپنے اثرات یہاں پر نقش کر دیے، جن میں سکندر اعظم، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور اس کے بعد وہ تمام مسلم فاتحین بشمول مغلیہ خاندان اور ان کے بعد برطانیہ شامل ہے۔ جبکہ ثانی الذکر میں وہ طبقہ شامل ہے جو یہاں نہ تو کبھی وارد ہوا اور نہ ہی اس نے اس خطے کی بہتری یا خوشحالی کے واسطے کوئی جدوجہد کی، مگر ان کی وقعت اور اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ ہماری آج کی نسل ان کو بھی ہمارا نجات دہندہ اور ہماری تہذیب کا نمائندہ سمجھتے ہیں، جس کی نمائندہ مثال طارق بن زیاد اور دور حاضر کے مقبول ترین ڈرامہ ارطغرل شامل ہیں۔

تاہم ان دونوں طبقات کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان کا تعلق اور خمیر اس خطے کی مٹی سے ہر گز نہ تھا۔ بلکہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی وہ اپنی اصلی شناخت کو یہاں کے باسیوں سے ممیز رکھنے میں کوشاں رہے۔ اس کی ایک اہم مثال سادات گھرانوں میں بھی ملتی ہے جو آج بھی اپنے آپ کو گیلانی، بخاری اور چشتی وغیرہ کہلوانے کو نہ صرف پسند کرتے ہیں، بلکہ اس کے تئیں اپنے اندر کا وہ نسلی اور وطنی تفاخر بھی جتاتے ہیں تاکہ کہیں کوئی ادب اور تعظیم میں کمی نہ ہونے پائے۔ اور اس قدر بھی نہیں سوچتے کہ ان کے آباء و اجداد نے صدیوں جس مٹی کا رزق کھایا اور جس نے ان کو عزت دی، وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتے اور ان بدیسی علامات کو ترک کرتے مگر۔

ہمارے یہاں کی مٹی کے اندر نہ جانے کیا خرابی پنہاں ہے، کہ اس کے باسیوں کو یہاں کی مقامی روایت، مقامی تاریخ، مقامی تمدن، مقامی زبان اور مقامی تہذیب کو اپنانے، پڑھنے، بولنے اور اسے رسم و رواج کا حصہ بنانے کے بارے میں ایک گہرا احساس کمتری پایا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جو یہاں کی مقامی پیداوار نہیں، بلکہ ہمارے اوپر باہر سے مسلط ہوئی یا کی گئی، اس کی نقالی اور اس کو اپنانے کو اس قدر فخر جانا جاتا ہے، جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں پائی جاتی ہو۔

ہم اپنی روایات اور تاریخ سے اس قدر غافل ہیں کہ ہم ان شخصیات کو جنہوں نے ہمارے ہی آباء و اجداد کو قتل کیا، ہماری ہی خواتین کی عصمت دری کی، ان کو لونڈیاں بنا کر ان کے ساتھ ہوس کی آگ کو بجھایا، یہاں کی فصلوں کو اجاڑا، یہاں کے کھیت کھلیانوں کا غلہ اپنے ہاں زبردستی لے جاکر یہاں قحط مسلط کیا، یہاں کی دولت کو ڈاکوؤں کی مانند لوٹ کر اپنے اپنے ممالک میں لے گئے، یہاں مذہب کی بنیاد پر نفرت اور تفرقہ بازی پیدا کی، عوام الناس کو رام اور رحیم کی بنیاد پر تقسیم کیا اور تو اور یہاں کے مقامی تہواروں کی جگہ اپنے تہوار متعارف کروائے ان کو آج ہم اپنا نجات دہندہ، اپنا ہیرو اپنا رہبر ماننے میں ذرا بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں کرتے۔

ہمارے وہ دروغ گو مورخ، نام نہاد ارباب عقل و دانش جن کو اپنی تہذیب اور زبان کو اختیار کرنے میں شرم و حیا اور سبکی محسوس ہوتی ہے، ان کے ذریعے یہ بات اب نسل در نسل ہمارے اندر اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ آج وہ شخصیات جنہوں نے اس دھرتی کی عزت اور ناموس کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی جان تک دے دی، ان کے ہم اسماء تک سے اس قدر نا آشناء ہیں کہ گویا وہ شجر ممنوعہ ہیں، کہ جس کے بارے میں جانا، سمجھنا اور معلومات اکٹھی کرنا فعل حرام کا ارتکاب کرنا ہے۔

اور اس کی جگہ ان دروغ گو، کذاب اور کرائے کے مورخین نے ان شخصیات کو ہمارا پیرو ہمیں بنا کر دیا، جو ہمارے ان ہی قابل فخر سپوتوں کے قاتل ہیں۔ مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جو اس کے مخالف آواز اٹھتی ہے اس کے اوپر غدار، ایجنٹ اور مذہب دشمن جیسے الزام لگا کر اس کو اس طور بدنام کیا جاتا ہے تاکہ دلیل جیسی ایک دقت طلب زحمت سے بچا جاسکے اور یوں اس مخالف آواز کو نشانہ عبرت بنا کر موجودہ اور آنے والی نسلوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ دیکھ لو اس کا خانماں برباد کا حشر! یہ ہمارے بیانیہ کو حقارت سے ٹھکرا کر اپنی نسل اور قوم کو سچ سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ لہذا اگر جان، مال، ناموس جیسی اشیاء پیاری ہیں تو دریا کے رخ پر بہتے جاؤ، اور سوچنے جیسی عادت کو یک لحظہ اپنے اندر سے مار ڈالو۔ بقول حسرت موہانی

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

مگر یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کیا وہ ممالک یا شخصیات جن کی خاطر آج ہم اپنے تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی ورثے سے منہ موڑ چکے ہیں، وہ ہمیں اپنے اندر بطور قوم مدغم کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ایسی جھوٹی زندگی گزار کر ہم اپنی نئی شناخت کو حاصل کر پائیں گے؟ اگر ان کا جواب اثبات میں نہیں بلکہ نفی میں ہے تو ہم واپس اپنی شناخت کی طرف کیوں نہیں مڑتے اور اپنی تہذیب، ثقافت، زبان اور تاریخ کو کیوں نہیں اپناتے؟

یہ بات اس لئے بھی لازم ہے کہ آج جن تہذیبوں کا نام دنیا سے مٹ چکا ہے، اس کی ایک اہم وجہ ان کا اپنی مٹی سے ناتہ توڑنا اور غاصب کی تہذیب کی نقالی کرنا تھا، اور ہمارے یہاں بھی اسی چال کا رواج روز بروز فروغ پا رہا ہے، مگر اس کے آگے بند باندھنے والا یا اس کے اوپر سوچنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments