کہانی ایک یہودی خاندان کی جو بکھر گیا


یہ کہانی ہے، امریکہ میں بسنے والے یہودی خاندان کے بچے، آئزک کی۔ آئزک کی ماں کتھولک عیسائی اور اس کا باپ یہودی تھا۔ اس کی چھوٹی بہن بھی تھی۔ وہ چاروں ایک بڑے اور خوبصورت گھر میں رہتے۔ آئزک کا باپ، مقامی یونیورسٹی میں ریاضی کا پروفیسر تھا اور اس کی ماں ایک بنک میں بطور مینجر کام کرتی تھی۔ باپ کے یہودی النسل ہونے کی وجہ سے یہ خاندان اپنے آپ کو جیوش کہلوانا پسند کر تا مگر چاردیواری کے اندر، اس خاندان کے ہر فرد کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔

آئزک کی ماں ہر اتوار کو اپنے چرچ جاتی اور اس کا باپ شبات کی رسم بڑے اہتمام سے ادا کرتا تھا۔ اس یہودی خاندان کے بچوں پر مذہبی لحاظ سے کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔ وہ چاہیں تو اپنی ماں کے ساتھ چرچ جائیں یا باپ کے ساتھ مل کر شبات کی رسم منائیں۔ بچے امریکہ کے آزاد ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے، وہ کبھی کبھی نہ چرچ جانا پسند کرتے اور نہ ہی باپ کے ساتھ بیٹھ کر دعا مانگتے، بس اپنے کمروں میں بیٹھ کر نیٹ فلیکس پر نئی موویز اور ڈرامے دیکھتے رہتے۔ آئزک کے ماں باپ نے باہمی رضامندی سے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کو نہ عیسائیت کی تعلیم دیں اور نہ ہی جوڈا ازم کی اور یہ کہ وہ بچوں کو اپنے اپنے مذہب کی جانب مائل کرنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے۔

آئزک کے ماں باپ کا یہ فیصلہ اس مفروضے پر قائم تھا کہ بچوں کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ انہیں خاندان یا بیرونی عوامل کے اثرات سے بچنے اور اپنے راستے کا انتخاب خود کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ وقت نے ثابت کیا کہ آئزک کے والدین کا یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا، والدین کے اپنے بچوں کو یوں کھلا چھوڑ دینے سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو گئے۔ والدین اپنے بچوں کے پہلے استاد ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کے معصوم ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کا تسلی بخش جواب دیں یا کم ازکم انہیں حقیقت کی کھوج لگانے کا راستہ ہی دکھا دیں۔

ویسے تو مذہب لوگوں کا ذاتی معاملہ ہونا چاہیے۔ خدا اور بندے کا تعلق ہر انسان کے ذاتی تجربے کی بنیاد پر مضبوط یا کمزور ہوتا ہے، اس میں زبردستی کا عنصر انسانوں کو منافق بنا دیتا ہے اور وہ منافقت جیسی روحانی بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی بھر اپنے قول و فعل میں تضاد کا شکار نظر آتے ہیں۔ شاید اسی لیے مذہب کی تعلیم دینے والوں کو دروغہ بننے کی بجائے تعلیم دینے کا کہا گیا کہ وہ لوگوں تک احسن طریقے سے اپنا پیغام پہنچائیں اور انہیں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کی فکر نہ کریں۔

آئزک کے والدین سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنے بچوں پر مذہب کے حوالے سے کوئی سختی تو نہیں کی اور نہ ہی وہ ان پر دروغہ بن کر بیٹھ گئے لیکن انہوں نے اپنے بچوں کے ذہن میں اٹھنے والے فطری سوالات کا جواب دینا تو کجا، ان کے سوال پوچھنے اور گھر میں کسی قسم کے مذہبی مباحثے پر بھی پابندی عائد کر دی۔

جب بچوں کے اذہان میں فکری خیالات جنم لیں اور وہ ایسے سوالات پوچھنا شروع کردیں جیسا کہ ہمیں کس نے بنایا، اتنی بڑی کائنات اپنے آپ کیسے وجود میں آ سکتی ہے یا پھر میں کون ہوں، تو والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ان سوالات کے ہر ممکن جواب دیں۔ آئزک کے ذہن میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات نے جنم لیا مگر اس کے والدین اپنے آپ سے کیے گئے عہد کے پابند رہے کیونکہ وہ اپنے بچوں پر فکری انداز سے ہر گز ہرگز اثر انداز نہیں ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی درست سمت رہنمائی بھی نہیں کی اور نہ ہی کسی قسم کا تقابلی جائزہ پیش کر کے بچوں کو مزید تحقیق کرنے کی راہ دکھائی۔

اس یہودی خاندان کے بچے یونہی اپنے ذہنوں میں سوالات کا بوجھ اٹھائے بڑے ہوتے رہے یہاں تک کہ وہ ہائی سکول جانے کی عمر کو پہنچ گئے۔ امریکہ میں تعلیم ویسے ہی سیکولر ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی مذہبی طرز پر پرورش کرنا چاہتے ہیں وہ انہیں مشنری سکولوں میں داخل کروا کر دیتے ہیں۔ مذہب انسان کی ضرورت ہے کہ نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن روحانی ترقی کی ضرورت و اہمیت کا انکار کسی صورت ممکن نہیں اور یہ بات جدید تعلیم کے حامی دانشور بھی سمجھتے اور مانتے ہیں۔

اب انسانوں کی روحانی ترقی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے، اس میں مذہب کا کردار ہونا چاہیے یا نہیں یہ بھی ایک لمبی بحث ہے۔ کچھ ماورائے طبعیات سوالات ایسے ہیں جو آج بھی انسانوں کی اکثریت کو پریشان کرتے ہیں، جن کا کوئی ٹھوس اور واضح جواب نہ مذہب کے پاس ہے اور نہ ہی سائنس کے پاس۔ جیسے خدا کے وجود پر ہونے والا ایک مناظرہ صرف چند منٹوں میں ختم ہو گیا کیونکہ فریقین کے پاس مناظرے میں پیش کیے جانے والے پہلے سوال کا جواب ہی نفی میں تھا۔ پہلے نے پوچھا تم خدا کو مانتے ہو، کیا تم نے اسے دیکھا ہے، جواب ملا نہیں۔ دوسرے فریق نے بھی اسی قسم کا سوال کیا، چلو تم ہی بتاؤ، تم خدا کو نہیں مانتے ہو، کیا تم نے اسے دیکھا ہے، جواب ملا نہیں۔ جب دونوں کے پاس جواب نفی میں تھا تووہ ہاتھ ملا کر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے، یہی وہ نقطہ تھا جو آئزک کے والدین کی غلطیوں میں شمار ہوتا ہے، جب ان دونوں کو یقین تھا کہ وہ جس مذہب کو مانتے ہیں یا جس رستے پر خود چل رہے ہیں وہ درست ہے تو انہوں نے اس کی تعلیم اپنے بچوں کو کیوں نہیں دی۔ اگر انہیں یہ شک تھا کہ وہ جسے حقیقت سمجھتے ہیں وہ شاید مکمل سچ نہیں تو پھر خود اس راستے پر چلتے رہنا کہاں کی دانشمندی تھی۔ شاید وہ خود کنفیوز تھے اسی لیے اپنے بچوں کو اس کنفیوژن سے بچانا چاہتے ہوں لیکن یہ تو فرار کا راستہ معلوم ہوتا ہے، بالکل کسی حقیقت سے آنکھیں چرانے کی طرح۔

بچوں کے سوالوں کا جواب نہ دینا آئزک کے والدین کی غلطی سہی لیکن دوسری طرف ان کا یہ فیصلہ معقول بھی نظر آتا ہے کہ بچوں کو تحقیق کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے اور انہیں اپنا راستہ خود منتخب کر نے کا اختیار ہو نا چاہیے۔ والدین کے اس فیصلے کا کیا نتیجہ نکلے گا کسی نے سوچا بھی نہیں۔ سب سے اہم یہ کہ جن خارجی عوامل کو آئزک کے والدین اپنے بچوں پر اثر انداز ہونے سے روکنا چاہتے تھے، وہی حالات نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے بچوں کے گرد اپنا جال بن رہے تھے۔

چاہے وہ سکول ہو، کھیل کا میدان، مویز کے اندر مذہب کا پروپیگنڈا یا بچوں کے ارد گرد کا ماحول۔ یہ سب بیرونی عناصر ان کے بچوں کو اپنی جانب کھینچ رہے تھے، ان کی ذہنی ساخت مرتب کر رہے تھے۔ دوسری طرف ریاست بھی اپنے شہریوں کا مخصوص مائنڈ سیٹ بنانے کے لیے اپنا ایک ایجنڈا رکھتی ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا والدین خود اپنے بچوں کو گھر میں وہ کچھ بتا دیتے، جو وہ باہر کی دنیا سے شعوری یا لاشعوری طور پر سیکھ رہے تھے۔

خیر جلد ہی اس خوشحال گھرانے میں بڑوں کے غلط فیصلے کے اثرات بچوں پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ وہ تیتر رہے نہ بٹیر، ادھر کے نہ ادھر کے۔ خاص طور پر آئزک جو ذرا باغی طبعیت کا مالک تھا اس نے بڑے ہو کر ہر قسم کے مذہب سے بے زاری کا اعلان کر دیا۔ وہ ایک انارکسٹ بن گیا۔ وہ مکمل طور پر آزاد رہنا چاہتا تھا۔ وہ کسی قسم کے ڈسپلن یا ضابطے کو نہیں مانتا تھا، ہر قسم کا نشہ کرنے لگا حتی کہ وہ خدا کو نہ ماننے کے ساتھ ساتھ ریاست کے وجود سے بھی انکاری ہو گیا۔

آئزک کے انتہا پسند رویے کے پیچھے کی کہانی یہ ہے کہ جب وہ ہائی سکول میں تھا تو اسے گھر میں جن سوالوں کا جواب نہیں ملا، ٹیچر بھی انہی سوالوں کا جواب دینے سے گریزاں تھے۔ سیکولر تعلیم اور متنوع قسم کی کلاس میں کسی خاص نقطہ نظر کو کھل کر پیش کرنا ایک عیب سمجھا جاتا ہے اور جماعت میں کسی اختلافی مسئلے پر جھگڑے یا والدین کی شکایت پر اساتذہ کسی بڑی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ جب گھر اور سکول میں آئزک کو مذہبی حوالے سے اپنے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ملا تو اس نے کرسمس، سینٹارا اور اس کی طرح کی دوسری باتوں اور رسموں کا سرعام مذاق اڑانا شروع کر دیا جس سے سکول کی پرنسپل نے اس کے والدین کو شکایت لکھ بھیجی۔

سکول والوں کی چٹھی پڑھ کر، آئزک کے والدین پریشان ہو گئے، جس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ بچوں کی مذہب کے حوالے سے اورینٹیشن ضروری ہے۔ اب والدین کے ہاتھ ایک بہانہ لگا۔ باپ نے سوچا وہ بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم سے آشنا کرے لیکن ماں بضد تھی کہ وہ اپنے بچوں کو چرچ بھیجے گی تا کہ مذہب کے حوالے ان کے رویے میں تبدیلی آ سکے۔ اب دونوں میاں بیوی کے درمیان اس بات پر ناچاقی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ان کے اندر چھپی ہوئی خواہش یا یوں کہیے کہ منافقت کھل کر سامنے آنے لگی۔

دراصل دونوں چاہتے تھے کہ وہ بچوں کو اپنے اپنے عقیدے کی تعلیم دیں، ایک انہیں اچھا یہودی بنانا چاہتا تو دوسرا ایک اچھا عیسائی لیکن آپس میں کیے گئے نام نہاد عہد اور کسی مصلحت کے تحت دونوں یہ برداشت کرتے رہے کہ بچے یہ سیکھیں نہ وہ جانیں۔ حالانکہ ان دونوں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ زندگی کے کسی مرحلے پر یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی اور وہ دونوں کے درمیان وجہ نزاع ہو گی۔

دنیا میں اب بھی کچھ لوگ اپنی شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے برابر والوں، ہم وطن، ہم مذہب یا ہم نسل لوگوں میں شادی کریں تاکہ خاندان اور آنے والی نسلوں کو اس حوالے سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل اور اختلاف سے بچا یا جا سکے۔ اگرچہ ظاہراً یہ بات انسانیت کے وقار کے برخلاف نظر آتی ہے، جب سب انسانوں کی رگوں میں ایک رنگ کا خون دوڑتا ہے تو تفریق کیسی؟ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ انسان اب بھی کئی تفرقات کا شکار ہیں، کہیں ذات بندی ہے تو کہیں درجہ بندی۔ کوئی اعلی ذات کا ہے تو کوئی ملیچھ، کوئی گورا ہے تو کوئی کالا، کوئی عربی ہے تو کوئی عجمی، کوئی مواحد تو کوئی بتوں کا پجاری، کوئی امیر تو کوئی غریب۔

تقسیم زدہ انسانیت کو جوڑنے کا سب سے بہترین حل ہے کہ خاندانی نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ پائیدار معاشرے کی تشکیل کے لیے مختلف نسلوں، مذاہب اور خاندانوں میں باہمی شادیوں کو رواج دیا جائے لیکن جب تک انسانیت اس مقام پر نہیں پہنچتی کہ باہمی جھگڑوں کو بات چیت اور ڈائیلاگ سے حل کر لے تو شاید اس وقت تک خاندانی نظام یوں ہی بنتا اور بکھرتا رہے گا جیسے امریکہ کا یہ یہودی خاندان مذہب کے جھگڑے کی بنیاد پر تنکے تنکے ہو گیا۔

امن کے ایک پرچارک نے کسی فوجی سے کہا دنیا سے افواج کا خاتمہ کر دیا جائے تو ہر طرف امن و سکون اور سلامتی کا دور دورہ ہو جائے گا۔ فوجی سیدھا سادا انسان تھا، اس نے سیدھا سا جواب دیا، ہاں یہ ممکن ہے لیکن تب، جب ہمیں اپنے گھروں پر تالا لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ گھروں کے دروازوں پر لگے بڑے بڑے تالے اس بات کی علامت ہیں کہ انسانیت ابھی اس معراج کو نہیں پہنچی جہاں ہر کوئی اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے۔

اسی طرح باہمی شادیوں سے احتیاط برتنے کا معاملہ اور مذہب کے جھگڑے ہیں، یہ اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک سب انسان ایک دوسرے کو اپنی مرضی سے جینے کا بنیادی حق تسلیم نہیں کر لیتے اور ”گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن“ کے سنہری اصول کو اپنا نہیں لیتے۔ آئزک کے ماں باپ نے اپنے بچوں کا یہ حق تسلیم کیا کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے راستہ اختیار کریں لیکن جب مذہب کے انتخاب کی باری آئی تو ماں اور باپ دونوں آمنے سامنے آ گئے اور دونوں کا یہی دعوی تھا اس کا مذہب حق ہے اور بچے اسی پر چلیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ بچوں کو مذہبی تعلیم دینے کے معاملے پر دونوں میاں بیوی میں ان بن رہنے لگی۔ ماں باپ کے جھگڑوں کو دیکھ کر بچے اور بھی کنفیوز ہو گئے۔ وہ کسی بھی مذہب کے قریب آنے کی بجائے اس سے اور دور ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اسی اختلاف کی بنیاد پر بات جوڑے میں طلاق تک جا پہنچی۔ مصالحتی کمیٹی اور فیملی افئیرز کے کونسلرز نے دونوں میاں بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ان کے علیحدگی سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، بچے سلجھنے کی بجائے، اور الجھ جائیں گے۔ لیکن اپنے ایمان اور عقیدے کی جنگ میں بچوں کے والدین اتنے آگے بڑھ چکے تھے کہ کسی کا نیک مشورہ بھی انہیں زہر لگتا تھا۔ آخر دونوں میں طلاق ہو گئی۔

آئزک کے ماں باپ میں طلاق ہونے کے بعد بچے اپنی ماں کے پاس رہنے لگے اور ان کے باپ نے دوسری شادی کرلی مگر اب کی بار اس نے احتیاط برتی اور دوسری شادی کے لیے اپنی ایک ہم مذہب عورت کا انتخاب کیا۔ بچے کچھ دنوں کے لیے باپ سے ملنے جاتے تو وہ انہیں اپنے عقیدے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا، جبکہ دوسری طرف ماں بچوں کو چرچ لے جا کر پادری کے حوالے کر دیتی۔ یوں آئزک کے والدین کے چہروں پر سے لبرل ازم کا پردہ چاک ہوا۔ جس طرح مذہب میں کسی کو منافق کہہ کر گالی دی جاتی ہے اسی طرح لبرل خیالات رکھنے والے بھی بعض موقعوں پر ڈگمگا جاتے ہیں، اب ان کے لیے کون سی نئی ٹرم استعمال کی جائے، یہ ابھی تک کسی نے سنی ہے نہ ہی پڑھی ہے۔

خیر ہم یہودی خاندان کی کہانی آگے بڑھاتے ہیں، ہوا یوں کہ بیٹی پھر بھی ماں کے عقیدے سے کچھ لگاؤ رکھتی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو سیکولر اور نان ریلجیس کہلوانا پسند کرتی، لیکن آئزک آہستہ آہستہ ابراہیمی مذاہب کے کسی بھی سلسلے کو ماننے سے بالکل انکار کرنے لگا۔ وہ کچھ عرصہ بدھ مت، ہندو مت اور شامنزم کی طرف مائل ہوا لیکن پھر ان سے بھی بیزار ہو گیا۔ وہ اپنی دنیا میں مست رہتا، کالج کی تعلیم ابھی ادھوری تھی کہ وہ یوگا سیکھنے کے لیے انڈیا جانے کا سوچنے لگا۔

ایک مرتبہ وہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے پکڑا گیا، اسے کچھ ماہ کی قید سنائی گئی، اس کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں اس کا کیریر بھی تباہ ہو گیا اور وہ کسی اچھی ملازمت کے حصول کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس نے ہپی لائف سٹائل اپنا لیا اور قریہ قریہ گھوم کر اپنی زندگی بسر کرنے لگا۔ ایک دن اس کے والدین کو خبر ملی کہ ان کا بیٹا غیر قانونی مشروم کا نشہ استعمال کرتے ہوئے اوور ڈوز لے بیٹھا اور کسی ندی کے کنارے مردہ پایا گیا ہے۔

جوان سالہ بیٹے کی موت پر کچھ دیر اس کے ماں باپ اکٹھے بیٹھ کر روئے اور اس کے بچپن کی خوبصورت یادیں تازہ کرتے ہوئے آنسو بہاتے رہے لیکن پھر دونوں میں تکرار شروع ہو گئی کہ بیٹے کی تدفین کہاں کی جائے، عیسائیوں کے قبرستان میں یا یہودیوں کے، اس کی آخری رسومات کسی چرچ میں ادا کی جائیں یا کسی سینا گوگ میں مگر آئزک اپنے مرنے سے پہلے ہی وصیت کر چکا تھا اس کی لاش کو الیکٹرک بھٹی میں جلا کر خاکستر کیا جائے اور پھر کرمینیشن کے بعد اس کی خاک کسی دریا میں بہانے کی بجائے ہوا میں اڑا دی جائے۔

اپنے خوبصورت بیٹے کی ارتھیوں کی خاک ہوا میں اڑاتے ہوئے، آئزک کے ماں باپ کی حالت قابل رحم تھی۔ اب ان کے پاس آئزک کی قبر کا نشان تک باقی نہیں بچا تھا جسے دیکھ کر وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتے۔ اب ان کے پاس بس آئزک کے بچپن کی کچھ مسکراتی ہوئی تصویریں، اس کے سکول کی کارکردگی رپورٹس، پرنسپل کا شکایتی خط اور اس کا فیس بک پیج ہی بچا تھا جس میں وہ کبھی کبھی اپنی منتشر الخیال آزاد نظمیں شائع کرتا تھا۔

آئزک کی سوشل میڈیا کے بارے لکھی ایک نظم نے اس کے سب یاروں اور رشتے داروں کو رلا دیا جس کا عنوان تھا Pixel Faces۔ اس نظم میں وہ زمانے کی بے ثباتی اور بے وفائی کا شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ڈیجٹل دور کا انسان کتنا بدل چکا ہے، کتنا تنہا ہوتا جا رہا ہے، جس میں رابطے محض انگلیوں کے ٹچ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، وہ بھی ایک ٹھنڈی سکرین کے اس پار سے، میں جب شیشے سے بنی سکرین میں دیکھتا ہوں تو انسان مجھے فقط چند ہندسوں کا گورکھ دھندا اور کچھ نقطے دکھائی دیتے ہیں۔

وہ ہندسے، وہ نقطے جنہیں سوشل میٹرکس (matrix) اور الگورتھم کے کلیوں سے جوڑا گیا ہے، ان میں جذبات کہاں ہیں، ٹیکسٹ تو نظر آتا ہے لیکن اس میں مٹھاس کہاں ہے۔ پیار کے افسانوں کی بس چند تصویریں، ان میں روح کہاں گئی، محبت، تعریف یا غصے کے اظہار کے لیے بس ایموجی کی علامات باقی رہ گئی ہیں، یہاں چہرے صرف چند نقطوں کے ملاپ کا نام ہے۔ مجھے اس مصنوعی دنیا سے کوئی سرکار نہیں، کسی کو مجھ سے کوئی پیار نہیں، کسی کو مجھ سے کوئی پیار نہیں۔ یہ سب Pixel Spaces ہیں۔ یہ سب Pixel Faces ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments