باٹا پور کا پل اور جنگ ستمبر کا پہلا ستارۂ جرات


پہلے کچھ اعتذار یا بہ زبان انگریزی ”ڈس کلیمر“ ۔ یہ خادم ہر قسم کے جنگ و جدل سے شدید ابا رکھتا ہے۔ سیاسی اور بشری حقوق کے حصول کے لیے عدم تشدد پر مبنی پر امن جدوجہد کو جہاد اکبر کے قریب سمجھتا ہے کہ اس میں نفس کشی کو شرط اولین پایا ہے۔ مزید یہ کہ اس خادم کی سوچی سمجھی رائے میں وطن پرستی جزو ایمان ہے لیکن وطن کوئی زمین کا بے جان ٹکڑا نہیں بلکہ جانوروں، پھول بوٹوں، ندیوں، پہاڑوں، صحراوں اور سب سے بڑھ کر اس میں بسنے والے تمام انسانوں کی زندگیوں اور زندہ امنگوں سے عبارت جانتا ہے۔

بد قسمتی سے حقیقت بر زمین ان آدرشوں سے ہٹ کر طاقت، اختیار اور وسائل پر قبضہ گیری کی کش مکش کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ مزید بدقسمتی یہ کہ وطن عزیز کے مخصوص جغرافیائی محل وقوع اور پیچیدہ تاریخی پس منظر کے سبب جنگ ایک تلخ مستقل مظہر ہے۔ اس میں اس خادم کی ہم دردی اور مقدور بھر قلمی، زبانی اور عملی ہم قدمی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو مسائل کا حل پر امن اور مہذب طریقوں سے نکالنے کے حامی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ فی الحال یہ خادم اس خیال کا حامل ہے کہ اگر جنگ مسلط ہوہی جائے تو اسے مکمل پیشہ ورانہ مہارت بروئے کار لا کر لڑنا ہر فوجی کا فرض ہے۔ اس حوالے سے اس خادم کو بچپن سے حربی حکمت عملی، جنگی مشقوں، داو پیچ اور مہارتوں سے طالب علمانہ دل چسپی رہی ہے۔

چھے ستمبر کو پاکستان میں سن انیس سو پینسٹھ میں بھارت کے ساتھ ہونے والی سترہ روزہ جنگ کی یادگار کے طور پر بطور یوم دفاع منایا جاتا ہے۔ اس علمی بحث سے قطع نظر کہ جنگ کا آغاز کس نے کیا، اس کی ابتدا مارچ میں رن کچھ کی جھڑپوں سے ہوئی، اگست اور ستمبر میں کشمیر میں ”آپریشن گرینڈ سلیم“ اس کا نقطہ اشتعال ثابت ہوا یا چھے ستمبر کو بھارت کی جانب سے لاہور کا محاذ کھولنا، اس خادم نے دونوں جانب کے وقائع نگاروں اور تاریخ نویسوں سے کچھ خوشی چینی کی کوشش جاری رکھی ہے اور نظریاتی و قومی وابستگیوں سے ہٹ کر انفرادی اور گروہی پیشہ ورانہ کارناموں اور نالائقیوں سے سیکھنے کی بھی۔ اسی ضمن میں ایک واقعے کی یاد تازہ کرنا اس شذرے کا مقصد ہے۔

یہ بات تو تاریخ سے سرسری دل چسپی رکھنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ چھے اور سات ستمبر سن پینسٹھ کی رات مشرقی سرحد پر تعینات عسکری اہل کاروں بلکہ ان کے اعلی ترین افسران کو غیر متوقع طور پر ایک بھرپور حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ رینجرز کے نیم مسلح دستوں کی جان توڑ مقاومت کے باوجود بھارتی فوج پیش قدمی کرتے ہوئے بی آر بی نہر کے مشرقی کنارے تک آن پہنچی تھی۔ درسی اور سرکاری مطبوعات میں درج عوام اور افواج کی ہمت اور ثابت قدمی کی داستانیں حقیقت ہوں گی لیکن کئی معاصرین کے ہاں پڑھنے اور سننے کو ملا ہے کہ کئی کم ہمتوں کے حوصلے جواب بھی دے چکے تھے، اور کئی لوگ بوریا بستر اور قیمتی اشیاء باندھ کر شہر سے اندرون ملک بھاگنے کی فکر کر رہے تھے جو اس خادم کی رائے میں جان بچانے کی غرض سے کیا جانے والا ایک قطعی جائز اقدام تھا۔

محاذ جنگ پر بھی کم از کم پہلے روز ”سرپرائز“ کا عنصر جارح فوج کے حق میں تھا اور ایک دفاعی دستے کو تو جنگ کے بعد ، اپنی برق رفتار پسپائی کے باعث ”پسرز“ کا طنزیہ خطاب بھی دیا گیا۔ ابتدائی صدمے سے سنبھلے تو جوابی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ لاہور کے دفاع کے لیے ایک فوری فیصلہ یہ ہوا کہ بی آر بی نہر پر واقع باٹا پور کے پل کو تباہ کر دیا جائے تاکہ نہر کو دفاعی خط بنا کر حملہ آور فوج کی پیش قدمی کو روک لگائی جائے۔

جنگ کی تیاری کا یہ عالم تھا کہ ایک جیپ بھر مناسب بارودی مواد ہی دست یاب تھا جو راستے میں دشمن کے توپ خانے کی زد پر آ کر تباہ ہو چکا تھی۔ کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ ایسے میں کام آئے تو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک میجر صاحب جو کچھ عرصہ قبل این ای ڈی انجینیئرنگ کالج سے سند پا کر فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے پاس موجود تین سو کے قریب بارودی سرنگوں کو کھول کر، ان کے بارودی مواد سے موقع پر ہی ایک دیسی ساختہ ہتھیار بنانے کی تجویز دی۔

بارودی سرنگوں کے بارے میں معلومات رکھنے والے احباب جانتے ہوں گے کہ انہیں کھول کر ان کے مواد کو کسی دوسرے برتن میں اس قدر سختی سے بھرنا کہ وہ پھٹ کر انگریز کے بنائے ہوئے انتہائی مضبوط کنکریٹ کے پل کو تباہ کر سکے، کس قدر خطرناک اور جوکھم کا کام ہے۔ کسی بھی مرحلے پر کوئی اتفاق یا معمولی سی غلطی یہ کام کرنے والوں کے چیتھڑے اڑا سکتی تھی اور آس پاس کا علاقہ بھی اس کی زد پر آ کر بری طرح تباہ و برباد ہو سکتا تھا جو ویسے بھی گولہ بارود سے بھرا ہوا تھا۔

کوئی اور چارہ نہ پا کر مقامی کمانڈر نے یہ تجربہ کرنے کی تجویز منظور کر لی۔ میجر آفتاب احمد خان نے اپنی زیر نگرانی اس کام کا آغاز کیا اور انتہائی محدود وقت میں یہ دیسی ساختہ ہتھیار لشٹم پشٹم تیار ہو گیا۔ اب مسئلہ پل کے نیچے ایسی جگہ کے انتخاب کا تھا کہ جہاں سے پھٹ کر وہ پل کو مکمل طور پر زمین بوس کردے۔ اگر پل مکمل تباہ نہ ہوتا اور جزوی نقصان ہی ہو پاتا تو یہ سارا جوکھم بے مقصد ثابت ہوتا چونکہ آمد کا راستہ پھر بھی کھلا رہتا اور کیل کانٹے سے لیس دشمن اپنی گولہ باری کی شدت میں اضافہ کر کے اپنے رسالے کو اس کی آڑ میں نہر پار کروا سکتا تھا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر وسط شہر تک اس کے راستے میں کوئی قابل ذکر قدرتی رکاوٹ موجود نہ تھی۔

آفتاب صاحب نے اپنی انجینیئرنگ کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پل کے نیچے اس مقام کا تعین تو کر لیا جہاں اس ہتھیار کو نصب ہونا تھا، لیکن اسے دونوں جانب سے برستی گولیوں کی بارش میں مطلوبہ مقام تک لے جا کر مضبوطی سے پل کے ساتھ باندھنے کا اعصاب شکن کام ابھی باقی تھا۔ اگر پل کے ساتھ ہتھیار کا بندھن کماحقہ مضبوط نہ ہوتا تو یہ خود تو پھٹ جاتا مگر مطلوبہ درجے کی لرزش پل کے کنکریٹ میں سرایت نہ کر پاتی اور اسے معمولی نقصان کے علاوہ کچھ فرق نہ پڑتا۔

پہلے یہ کام ایک نان کمیشنڈ افسر کے ذمے لگایا گیا لیکن وہ ابتدائی جائزے یا ”ریکی“ کے دوران ہی دشمن کی گولیوں کی کی زد پر آ کر شہید ہو گئے۔ اس موقع پر میجر آفتاب احمد خان نے اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے مشورے کو رد کرتے ہوئے اپنا بنایا ہوا بم خود، پل پر اپنے منتخب کردہ مقام پر نصب کرنے کا فیصلہ کیا چونکہ ان کے خیال میں صرف وہی اس مقام اور اس پر بم باندھے جانے کے لیے درکار قوت کا درست اندازہ رکھتے تھے۔

آدھی رات کے قریب فیلڈ ٹیلی فون پر اشارہ پا کر پاکستانی جانب سے گولہ باری میں یک دم شدت پیدا کی گئی تاکہ بھارتی توپچی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوں۔ اس مختصر وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میجر صاحب اپنی مختصر ٹیم کے ہمراہ خود پل کی نیچے کی جانب سے مقررہ مقام پر پہنچے اور برق رفتاری سے اپنے بنائے ہوئے دیسی ساختہ بم کو مقررہ مقام پر نصب کر دیا۔

اسے حسن اتفاق اور مہارت کا قرآن السعدین کہیے کہ یہ کام کر کے بغیر کوئی زخم کھائے واپس بھی آ گئے اور نصف شب کے چند منٹ بعد ایک کان پھاڑ دینے والے دھماکے نے پل کو زمین بوس کر کے جارح فوج کی پیش پائی کے لیے اس شہ رگ کو کاٹ دیا۔ یہ کارنامہ بھارتی فوج کی پیش قدمی کو روکنے اور اپنی دفاعی ترتیب کو ازسر نو منظم کرنے کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا اور لاہور کے محاذ پر مزید ایک انچ زمین بھی بھارت کے قبضے میں نہ جا پائی۔ سات ستمبر کی صبح کے سرکاری اعلامیے میں میجر [بعد میں لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ] آفتاب احمد خان کو جنگ ستمبر کے پہلے ستارہ جرات سے نوازا گیا۔

مکرر عرض ہے کہ یہ خادم ہر قسم کے جنگ و جدل اور تشدد کو انسانیت کے دامن پر ایک مکروہ داغ گردانتا ہے لیکن جب جنگ مسلط ہو ہی جائے تو اس میں بروئے کار لائے جانے والے تکنیکی اور انسانی بہادری کے کارناموں کی تحسین نہ کر پانے کو بھی بخل محسوس کرتا ہے۔ یہ اضافہ بھی کہ اگر یہی مہارتیں اور حوصلے پر امن اور تعمیری سرگرمیوں پر صرف کیے جائیں تو اندازہ کیجیے کہ اس سے انسانیت کا کس قدر بھلا ہو۔

آفتاب احمد خان فوج سے قبل از وقت سبک دوش ہو کر اپنے اصل شعبے یعنی انجینیئرنگ میں مصروف کار رہے۔ پسنی کے قصبے کو پینے کے پانی کی فراہمی کے اولین منصوبے کی تعمیر، شادی کور ڈیم کی سب سے پہلی باقاعدہ فزیبلٹی رپورٹ اور بعد ازاں سعودی عرب کے شاہ خالد ائرپورٹ کی توسیع میں آفتاب صاحب کی فنی مہارت اور اپنے کام سے لگن مرتسم ہے۔

ایک ضمنی بات، آفتاب احمد خان [ستارہ جرات] اس خادم کے خالہ زاد بھائی اور اس خادم کی پہلی مادر علمی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم میں پیش رو تھے۔ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد فروری انیس سو ننانوے میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments