پاکستان میں انٹرنیٹ کی ابتدائی یادیں: دنیا کو تبدیل کر دینے والا انٹرنیٹ پاکستان میں کب اور کیسے آیا؟

بلال کریم مغل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


انٹرنیٹ
عاصم قادری کراچی میں اپنا چینی زبان سکھانے کا مرکز چلاتے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث گذشتہ دو سال سے وہ اپنا سینٹر مکمل طور پر آن لائن کر چکے ہیں اور اب روزانہ صرف اور صرف آن لائن کلاسز ہوتی ہیں۔ مگر اُن کے لیے ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک طویل عرصے تک وہ کراچی کی سڑکوں پر روزانہ چار سے پانچ گھنٹے کا سفر طے کر کے اپنے سینٹر اور وہاں سے گھر تک پہنچا کرتے۔

نوّے کی دہائی کے اوائل اور وسط میں اپنے ہی ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں کام کے دوران اُن کا تعارف ایک ایسی نئی ٹیکنالوجی سے ہوا جس کے ذریعے پل بھر میں دنیا میں کسی بھی جگہ تک پیغام اور فائلز پہنچائی جا سکتی تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت اُن کے ایک ساتھی جو امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے تھے، اُنھوں نے انٹرنیٹ کے تصور کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا اور اس کے بعد اُن کے سافٹ ویئر ہاؤس کو بھی انٹرنیٹ کی سہولت میسّر آئی۔

ایک دلچسپ واقعہ یاد کرتے ہوئے عاصم قادری بتاتے ہیں کہ ’جب ابتدائی دنوں میں دفتر میں ای میل کا نام لیا جانے لگا تو اُن کے دفتر کے ایک ملازم کو میل اور فی میل کے بعد ای میل کا لفظ سُن کر بہت حیرانی ہوئی، جس پر اسے بتایا گیا کہ یہ پیغام رسانی کا طریقہ ہے۔‘

اور یہ حیرانی صرف اُن تک محدود نہیں بلکہ ہم میں سے جتنے بھی لوگوں نے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر میں نئی ٹیکنالوجیز کو اپنے سامنے ایجاد ہوتے اور مقبول ہوتے دیکھا ہے، ہم سب میں کہیں نہ کہیں حیرانی کا یہ عنصر ہمیشہ موجود رہا۔

مجھے خود بھی اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی مرتبہ انٹرنیٹ اور چیٹنگ کے الفاظ سنے تو بڑا تجسس پیدا ہوا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے کمپیوٹر پر کچھ لکھیں اور دوسری طرف موجود شخص یہ بات ایسے پڑھ لے جیسے آپ کے ساتھ ہی موجود ہو؟

عاصم قادری بتاتے ہیں کہ اُس دور میں آن لائن کلاسز آج کے دور کی طرح تو بہرحال وجود نہیں رکھتی تھیں لیکن اُس دور میں بھی چیٹ رومز کے ذریعے انٹرنیٹ پر لوگ ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتے۔

پاکستان میں عام صارفین کے لیے انٹرنیٹ سنہ 1993 کے آس پاس متعارف ہوا۔ اس وقت یہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی فنڈنگ سے ایک پراجیکٹ کے طور پر آیا تھا جسے ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ نیٹ ورکنگ پروگرام‘ کہا جاتا تھا۔

ابتدا میں صرف بڑی کارپوریشنز اور بینکوں کو اس تک رسائی حاصل تھی اور پھر سنہ 1995 میں ڈیجی کام نامی پرائیوٹ کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کا آغاز کیا جس کی سپیڈ 64 کے بی پی ایس تھی۔

اسی سال پاکستان ٹیلی کام لمیٹڈ نے بھی اپنی ذیلی کمپنی پاک نیٹ کے ذریعے اپنی ڈائل اپ سروس فراہم کرنی شروع کی۔

انٹرنیٹ

کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے لیے ابتدائی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کی سپیڈ 64 کے بی پی ایس تھی

اس دور میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیسا ہوا کرتا؟

یہ سوچنا بھی بہت عجیب لگتا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں انٹرنیٹ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس کہیں تاخیر سے آیا، آج وہ انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کے حساب سے دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ فکس لائن انٹرنیٹ کنیکشنز کی تعداد 10 کروڑ 40 لاکھ کے قریب ہے۔

چنانچہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 46 سے لے کر 49 فیصد کے درمیان ہے۔

سال 2019 تا 2020 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر نے قومی معیشت میں 278 ارب روپے سے زائد کا حصہ ڈالا جس میں سے 41 ارب روپے سے زیادہ صرف ٹیکسوں کی مد میں تھا۔

پاکستان میں اب بیشتر شہروں میں گھر کے دروازے تک فائبر آپٹکس کے ذریعے تیز ترین انٹرنیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مگر حالات ہمیشہ سے اتنے حوصلہ افزا نہیں تھے۔

پاکستان میں ڈیجی کام، سائبر نیٹ اور نیٹ سول نامی پرائیوٹ کمپنیوں اور پاکستان ٹیلی کام لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) نے ڈائل اپ انٹرنیٹ عام لوگوں کے لیے متعارف کروایا تھا جس سے پہلے انٹرنیٹ تک رسائی صرف بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز، سفارت خانوں اور بینکوں وغیرہ کی ہی ہوا کرتی جو اپنے کاروباری معاملات کے لیے اس کا استعمال کیا کرتے۔

مگر انٹرنیٹ متعارف کروائے جانے کے بعد پاکستان میں اسے پذیرائی حاصل کرنے اور لوگوں کی اس تک رسائی میں بہت زیادہ عرصہ نہیں لگا۔

فاروق ضیا سنہ 1991 سے لے کر سنہ 2006 تک پی ٹی سی ایل میں مختلف عہدوں پر رہے ہیں۔ وہ بطور ڈویژنل انجینیئر انفراسٹرکچر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوئے اور اس دوران انھوں نے پاکستان میں انٹرنیٹ کی آمد اور آہستہ آہستہ دستیاب ٹیکنالوجی میں ہونے والا ارتقا دیکھا۔

فاروق ضیا کے مطابق سنہ 1996 سے لے کر سنہ 1997 کے درمیان پی ٹی سی ایل نے جب مکمل طور پر آئی پی پر قائم انٹرنیٹ ڈائل اپ کے ذریعے لوگوں کو فراہم کرنا شروع کیا تب پی ٹی سی ایل کے پاس کراچی میں مجموعی طور پر بینڈوڈتھ کے لیے 2 میگابٹ کے چار کنکشنز تھے۔

اگر آپ آج اس کا موازنہ اپنے گھر سے کریں تو آٹھ ایم بی پی ایس کے کنیکشن کو تو ہم کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔

مارچ 2000 میں پاکستان میں پہلی مرتبہ بیک بون یعنی وہ مرکزی کنکشن لنک جس کے ذریعے کسی انٹرنیٹ کمپنی یا ملک کی تمام نیٹ ورک ٹریفک گزرتی ہے، اسے سیٹلائٹ سے فائبر پر منتقل کرتے ہوئے زیرِ سمندر فائبر کیبل بچھائی گئی۔

کمپوٹر

چونکہ فائبر کے ذریعے سیٹلائٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈیٹا فوری طور پر ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے، اس لیے وہ اسے پاکستان میں انٹرنیٹ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں جس کے بعد لوگوں کو پاکستان میں تیز انٹرنیٹ ایک حقیقت کے طور پر دکھائی دینے لگا۔

اسی دوران پی ٹی سی ایل اور دیگر کمپنیوں نے ڈیجیٹل فون لائنز متعارف کروانی شروع کر دی تھیں جن کے ذریعے لوگوں کو آج کے دور کے مقابلے میں تو کافی سست مگر اُس زمانے کے ڈائل اپ کے حساب سے کافی بہتر سروس میسر آنی شروع ہو گئی تھی جسے ڈی ایس ایل کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر حسن جمیل سیّد اُن لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے پاکستان میں انٹرنیٹ کی ابتدائی روز دیکھے ہیں۔

اس کے بعد وہ ورلڈ کال سے بھی کچھ سال کے لیے منسلک رہے جو کہ اپنے دور کی بہت بڑی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کمپنی تھی۔

اب وہ کراچی کی نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز (فاسٹ نیوسز) میں آئی ٹی اور کمپیوٹر نیٹ ورکس کے پروفیسر ہیں۔

ڈاکٹر حسن بتاتے ہیں کہ جب 1995 کے قریب وہ میٹرک جماعت میں تھے، اُس وقت ڈائل اپ کے ذریعے 20 گھنٹے کا انٹرنیٹ اُنھیں پانچ سو روپے میں ملا کرتا تھا۔

ٹھہریے، آپ جانتے ہیں کہ ڈائل اپ کیا ہے؟

اگر تو آپ سنہ 2000 کے بعد پیدا ہوئے ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کا واسطہ کبھی اس مشکل سے نہیں پڑا ہوگا کہ آپ انٹرنیٹ براؤز کر رہے ہوں اور آپ کے گھر میں کوئی شخص کسی کو فون کرنے کے لیے اپنے لینڈ لائن کا ریسیور اٹھائے، اور جس دو تین ایم بی کے گانے کے ڈاؤن لوڈ ہونے کا انتظار آپ پچھلے تین گھنٹے سے کر رہے تھے، وہ وہیں تھم جائے اور آپ غصے کے عالم میں گھر سے احتجاجاً واک آؤٹ کر جائیں۔

جی ہاں، سننے میں یہ سب بہت عجیب لگتا ہے لیکن اس زمانے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے میں ایسی ہی مشکلات درپیش ہوتی تھیں اور پانچ سو روپے خیر سے اتنی بڑی رقم ہوتی تھی کہ کسی اچھے پرائیوٹ سکول کی ماہانہ فیس کے برابر۔

پھر اتنا مہنگا انٹرنیٹ استعمال کرنا اور ہر مرتبہ کنیکٹ کرنے پر تین سے چار روپے کی لوکل کال کا بھی بل میں شامل ہو جانا، ایک ویب سائٹ کھلنے یا ایک وال پیپر ڈاؤن لوڈ ہونے کے لیے بیسیوں منٹ تک کے انتظار کی کوفت، یہ سب آج کے دور میں تصور بھی نہیں کی جا سکتیں۔

یہ بھی پڑھیے

گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمانے والے پاکستانی فری لانسرز

پاکستان میں انٹرنیٹ کی چوکیداری: ’یہ جارحانہ پابندیوں کا سال رہا‘

انٹرنیٹ نگرانی کے قواعد: ’حکومت کو ناقدین کے گرد گھیرا تنگ کرنےمیں آسانی ہو گی‘

جب میں ڈاکٹر حسن جمیل سے بات کر رہا تھا تو میری کوشش یہی تھی کہ اُنھیں کسی طرح سے ماضی میں لے جایا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اُنھوں نے بطور ایک صارف کیا دیکھا اور پھر ایک انٹرنیٹ کمپنی میں کام کرنے کا اُن کا تجربہ کیسا رہا؟

اگر میں آپ سے آج پوچھوں کہ آپ کے گھر میں انٹرنیٹ کی سپیڈ کتنی ہے، تو شاید آپ منھ بسورتے ہوئے کہیں کہ یار، صرف چار ایم بی پی ایس، یا شاید چھ ایم بی پی ایس۔

اور آپ اس کے بارے میں شاید دو تین شکایتیں اور برائیاں بھی کر دیں گے۔

مگر وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ورلڈ کال میں تھے تو کوئی 1500 کے قریب صارفین کے لیے 50 ایم بی پی ایس کا مجموعی کنیکشن دستیاب ہوتا تھا، جسے 64 کے بی، 128 کے بی اور 256 کے بی کے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے صارفین کو فراہم کیا جاتا۔

اور اس دور میں یقیناً اسے ‘ہائی سپیڈ’ انٹرنیٹ ہی لکھا، پڑھا اور سمجھا جاتا ہو گا۔

انٹرنیٹ

اور جب سنہ 2003 کے بعد سے پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا دور دورہ ہونا شروع ہوا تو اُن کے لیے انٹرنیٹ کی کیا صورتحال تھی؟

اس پر ڈاکٹر حسن جمیل بتاتے ہیں کہ کسی کسی ٹی وی چینل کا انٹرنیٹ کنیکشن صرف ایک ایم بی پی ایس تک ہی ہوتا جس کے ذریعے وہ اپنے پروگرامز اپ لوڈ کر رہے ہوتے۔

صرف ایک ایم بی پی ایس۔

اس دور میں پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیلیفون لائنز آچکی تھیں جو ڈی ایس ایل انٹرنیٹ چلا سکتی تھیں۔

ان کے بہت سے فائدہ ایک طرف، مگر سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ فون کا ریسیور اٹھانے پر آپ کا انٹرنیٹ ڈس کنیکٹ نہ ہوا کرتا۔

اگر پوچھیں تو یہ ایک فائدہ ہی بہت سے دوسروں پر حاوی ہے مگر ہر شہر اور ہر علاقے میں ڈیجیٹل لائن کی عدم دستیابی کی وجہ سے سنہ 2005 اور سنہ 2006 تک بھی میرے گھر سمیت ملک کے کئی حصوں میں ڈائل اپ انٹرنیٹ استعمال ہوتا رہا۔

اسی عرصے میں ڈاکٹر حسن بتاتے ہیں کہ کیبل آپریٹرز نے بھی لوگوں تک انٹرنیٹ پہنچانے میں کافی اہم کردار ادا کیا۔

ہم سب ہی نے وہ وقت دیکھ رکھا ہے جب ایک محلے میں موجود کیبل آپریٹر ہر روز شام کو دس دس روپے گھر والوں سے اکٹھا کیا کرتا تاکہ رات کو کوئی فلم چلائی جا سکے۔

اس کے بعد وہ اپنے گھر پر موجود وی سی آر میں ایک فلم کی کیسٹ لگاتا اور کیبل ٹی وی کے ذریعے پورا محلّہ اس سستی تفریح سے لطف اندوز ہونے لگتا۔

چنانچہ یہ سب کو ہی معلوم تھا کہ کسی ایک جگہ پر آنے والی سروس کو ایک پورے علاقے پر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ٹیکنالوجی پہلے سے موجود تھی۔

کیبل ٹی وی کی کالے رنگ کی گول تار پر ہی سب سے پہلے کیبل آپریٹرز نے ٹی وی کے ساتھ انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنی شروع کیں جسے ‘کیبل نیٹ’ کہا جاتا تھا۔

اس کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اگر تار کی صورتحال بہتر ہوتی تو یہ ڈائل اپ اور اُس زمانے کے براڈ بینڈ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز سپیڈ فراہم کرتا۔

مجھے یاد ہے کہ جب ڈائل اپ کئی سال تک استعمال کرنے کے بعد گھر میں پہلی مرتبہ کیبل نیٹ لگا تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے کسی جنّت میں آ گئے ہیں۔

نہ انٹرنیٹ کنیکٹ ہونے کا وہ خوف ناک شور، نہ لائن ڈس کنیکٹ ہونے کا ڈر، نہ لوکل کال کے چارجز اور نہ ہی کارڈ سکریچ کر کے نمبرز کمپیوٹر میں ڈالنے کا جھنجھٹ۔

اس کے بعد سال 2005 سے 2010 کے درمیان پاکستان میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ اتنی ترقی کر چکا تھا کہ وائس اور ویڈیو کالز کرنا اب نسبتاً عام ہونے لگا تھا۔

انٹرنیٹ

ایک دور تھا جب پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ کلبز یا کیفیز پر جا کر فی گھنٹہ رقم ادا کر کے انٹر نیٹ استعمال کرتے تھے

سنہ 2010 میں پاکستان میں براڈ بینڈ کے صارفین کی تعداد نے 10 لاکھ کا سنگِ میل عبور کیا اور اپریل 2014 میں تھری جی اور فور جی لائسنسز کی نیلامی کے ساتھ ہی پاکستان میں انٹرنیٹ کے اُس نئے دور کا آغاز ہوا جس کے ذریعے اب کہیں بھی بیٹھ کر انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے، کہ کووڈ 19 جیسی عالمگیر بیماری اگر اُس دور میں آئی ہوتی جب انٹرنیٹ نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، تو گھر سے کام کرنے کا ماحول کیا ہوتا؟

آئیں کچھ خاکہ بناتے ہیں:

  • ایک گھر میں تین ملازمت پیشہ بہن بھائی ہیں اور تینوں کو ورک فرام ہوم کرنا ہے
  • گھر میں ایک ٹیلی فون لائن ہے جس پر ڈائل اپ چل سکتا ہے
  • پہلی بات تو یہ کہ ایک ٹیلی فون لائن پر ایک وقت میں ایک ہی ڈائل اپ کنیکشن قائم ہو سکتا تھا اور یہ اتنا ناکافی ہوتا کہ اگر کسی طرح اسے تین لوگوں پر تقسیم کر بھی لیا جاتا، تو کسی کے پاس گوگل ڈاٹ کام تک بھی نہ کھلتا۔
  • چلیں اگر ان کے پاس ڈائل اپ نہ ہوتا اور 1 ایم بی پی ایس کا وہ ڈی ایس ایل کنیکشن ہوتا جو کسی زمانے میں لگژری سمجھا جاتا اور کارپوریٹ کسٹمرز کے لیے مخصوص ہوتا تو بھی تین لوگوں کا اس پر ایک صبح کی میٹنگ اٹینڈ کرنا بھی ممکن نہ پاتا کیونکہ سپیڈ اس قدر کم ہو جاتی
  • اگر اس دوران کوئی چوہا یا پرندہ فون کی تار کاٹ جاتا یا کہیں باہر سے گزرتی گاڑی سے ٹکرا کر تار ٹوٹ جاتی، تو بس پھر، تینوں بہن بھائیوں کو اُس دن دفتر جانا ہی پڑتا، (ویسے اگر ہم اُن کی جگہ ہوتے تو چھٹی کر لیتے)
  • تینوں ایک دوسرے کو الزام دینے لگتے کہ تم نے ساتھ میں فلم ڈاؤن لوڈ پر لگا رکھی تھی اور تم نے یوٹیوب چلا رکھی تھی۔

آئیے ایک مرتبہ پھر عاصم قادری کے پاس چلتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ جس زمانے میں اُنھوں نے انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیا، بھلے ہی اُس وقت سپیڈ اتنی تیز اور کنیکشن اتنے پائیدار نہیں تھے لیکن پھر بھی یہ دیکھنا مشکل نہیں تھا کہ انٹرنیٹ آگے ہماری دنیا کیسے تبدیل کرنے والا ہے۔

’اس بات پر تو اختلاف ہو سکتا تھا کہ موجودہ دور کتنے عرصے میں آئے گا، لیکن اس بات پر اختلاف نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسز کا تجربہ اتنا اچھا رہا ہے کہ وہ مستقبل میں دوبارہ آف لائن کلاسز متعارف کروانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

’مستقبل میں جب انٹرنیٹ آف تِھنگز ہمارے لیے ویسے ہی حقیقت بن جائے گا جیسے کہ آج کا انٹرنیٹ تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ کسی فون یا کمپیوٹر کے سامنے زوم پر میٹنگ یا کلاس اٹینڈ کرنا بھی ایسی ہی بات سمجھا جائے جیسے کہ آج کے انٹرنیٹ کے مقابلے میں ڈائل اپ۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp