مولانا رومی


مولانا جلال الدین رومی کی پیدائش ( 1207 عیسوی) ایک ایسے وقت میں ہوئی اور انہوں نے ایک ایسے دور میں اپنا مخصوص اور غیر روایتی درس و تدریس کا عمل جاری رکھا جب دنیائے اسلام کو منگولوں نے تہہ و بالا کرنا شروع کیا تھا۔ 1258 عیسوی میں بغداد کی بربادی اسی منگول یلغار کی انتہا تھی۔ مولانا کے کلام، چاہے وہ ”مثنوی“ ہو یا ”دیوان“ یا پھر ”فیہ ما فیہ“ ، میں قنوطیت کے انداز نے بہت سارے محققین کو یہ رائے قائم کرنے پر مجبور کیا ہے کہ انہوں نے بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سرگرم علمی زندگی، جس میں ان کے والد (بہاء الدین) نے انہیں پروان چڑھایا تھا، سے کنارہ کشی اختیار کر کے تصوف کے مخصوص حصار میں اپنے آپ کو محفوظ کیا۔

تعلیم و تعلم کے ذریعے مختلف سلسلوں کے صوفیاء کرام نے جو کردار کئی علاقوں کی تشکیل اسلامی میں ادا کیا اس کو نہ تو قنوطیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دنیا سے کنارہ کشی کہا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کس طرح قادریہ صوفیاء نے افریقی سہارا، نقشبندیہ صوفیاء نے ہندوستان اور ترکی، سنوسیہ صوفیاء نے لیبیا اور کبرویہ صوفیاء نے کشمیر میں اس سلسلے میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔

تاہم ماہرین رومی کی رائے کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ مولانا نے یہ انداز اپناتے ہوئے مسلم معاشرے کی بکھرتی تاروں کو سمیٹنے کی کوشش کی تاکہ اسلامی روحانیت کی تجلی سے عالمی اقدار کے ٹمٹماتے چراغ کو اس روغن زیتون کی مدد سے فروزاں کیا جاسکے جو شرقی ہے نہ غربی بلکہ جس کی نسبت اس آفاقی موحدانہ روایت سے ہے جو تمام پیغمبران کرام (ع) کی مشترکہ میراث رہی ہے۔ تاہم مسیحیت نے یونان و روم کی فلسفیانہ روایت سے متاثر ہو کر اپنے دامن کو ہیلنزم کے لئے کشادہ کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مسیحی عالموں نے سیدنا مسیح (ع) کو ”لوگوس، Logos“ (جو سب سے پہلے ہیرکلیٹس نے پیش کیا تھا) قرار دینے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کی تھی۔ تصوف کی مسلم روایت میں عبدالکریم الجیلی نے ”الانسان الکامل“ کا ”لوگوس سے ملتا جلتا“ تصور پیش کر کے نظریہ وحدت الوجود کی تکمیل کی۔ تاہم ایسی تمام فلسفیانہ موشگافیاں طبقہ خواص تک محدود رہیں۔

مولانا رومی کے نظریات اور طریقہ کار میں عوام اور خواص دونوں کے لئے رہنمائی موجود تھی۔ اس لئے ان کے اس طرح کے وسیع علمی اور ثقافتی کینوس کو مدنظر رکھتے ہوئے 2007 عیسوی میں ان کے اعزاز میں عالمی سطح پر آٹھ سو سالہ تقریبات منائی گئیں۔ تاہم بہت سارے لوگوں نے اس عمل کو شک کی نگاہوں سے دیکھا۔ ایسے لوگوں کا ماننا تھا کہ اس قسم کی ساری تگ و دو مسلم معاشروں میں رواں بیداری کو زائل کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ اگرچہ ایسی تشکیک کسی حد تک حق بجانب تھی لیکن مولانا رومی جیسے آفاقی صوفی فلاسفر کو فکر کے ایسے تنگ دھارے میں مقید کرنا تصوف اور فلسفے کی پوری تاریخ کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔

مولانا رومی کی وفات سے لے کر دور حاضر تک اکثر مسلم معاشروں کے منبر و محراب اور سماجی و سیاسی تقریبات مولانا کے فکر انگیز اشعار سے گونجتی رہی ہیں۔ شاعر مشرق، علامہ اقبال نے فلسفہ خودی کی پوری روایت رومی سے مستعار لی ہے اگرچہ نیٹشے کے ”سپر مین“ کے تصور کا بھی اس میں عمل دخل رہا ہے۔ کشمیر کے قومی (رشی) صوفی شاعر اور مصلح، شیخ نورالدین، جو کشمیر میں علمدار کے لقب سے ملقب ہیں، نے تو مولانا رومی کو ہی ”اصلی مولانا“ قرار دیا ہے!

اس لئے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ دور حاضر میں رومی کو اپنے آفاقی نکتہ نظر کی وجہ سے اکثر مغربی اکیڈمیز، خاص کر امریکی اکیڈمیز میں ایک مسلکی شخصیت (کلٹ فگر) کے طور پر قبول عام حاصل ہوا۔ اگرچہ ہم رومی کو اپنی اصل بنیادوں، جو بدیہی طور پر اسلامی اور مشرقی ہیں، سے الگ نہیں کر سکتے، تاہم ان کی تعلیمات کی آفاقیت نے انہیں موجودہ زمانے میں ایک بین الاقوامی شخصیت کے طور پر ابھرنے میں کامیاب کیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ مولانا رومی نے نہایت حوصلہ شکن حالات میں زندگی گزاری اور اعصاب شکن ماحول میں اپنی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ہی حالات میں گرا ہوا راہ سلوک کا مسافر ان تعلیمات کو قابل عمل بھی پاتا ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے میں معاون بھی۔

جب ہم رومی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے دروس میں اتنی وسعت ہوا کرتی تھی کہ ہر قسم کا سالک (شاگرد) ان سے اپنی استطاعت کے مطابق مستفید ہوتا تھا۔ کاریگر، وزیر، سبزی فروش اور قصائی، ہر طرح کا مرید ان سے تشفی پاتا تھا۔ کسی کے حاشیہ خیال میں کبھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ ان کی باتیں تصوف یا روحانیت کی باریکیوں سے مزین ہیں۔ بالفاظ دیگر کوئی ان کے اسباق سے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ مولانا رومی اپنے شاگردوں سے تاکیدا ”کہتے کہ“ میرے مزاحیہ کلمات محض لطیفے نہیں، یہ دراصل تعلیم کا ایک طریقہ ہے! ”اس طرح ان کے کلام کا آب حیات ہر ایک کو اپنی قابلیت کے مطابق شاداب کرتا۔

استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق کی استواری تعلیم و تعلم کے عمل کو موثر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں استاد کو کافی احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ استاد کا دوران گفتگو جذبات کا اظہار معلم اور متعلم کے درمیان جذباتی تعلق (ایموشنل بانڈ) کو کوئی بھی رخ دے سکتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ظاہری حرکات و سکنات ہی کے ذریعے اندرونی جذبات کا انتقال ہوتا ہے۔ اس طرح برتاؤ، کلام اور حرکات جوارح سے ہی کسی بھی شخصیت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا رومی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ”زبان ایک برتن کے ڈھکن کی طرح ہے۔ جب یہ حرکت کرتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اندر جو پک رہا ہے کیا یہ لذیذ ہے کہ بد مزہ اور بے ذائقہ!“ اس لئے جب استاد شاگرد کے ساتھ جذباتی تعلق قائم کرے اسے اپنے الفاظ کو تول کے ادا کرنا چاہیے۔

ایک استاد کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ چھوٹی موٹی شاباشیاں جن کے ساتھ ساتھ تصحیح کا عمل بھی جاری رکھا جاتا ہے، شاگرد کی کارکردگی کو سدھارنے اور ابھارنے میں حوصلہ افزا نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اس لئے اگر استاد صحیح وقت پر شاگرد کی حوصلہ افزائی کرے تو نہ صرف شاگرد کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ مستقبل میں ایک مثالی شخصیت کا مالک بن سکتا ہے۔ اس بابت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ”غلطی کے ماسوا شاگرد کی ہر حرکت کی تعریف کرنا چاہیے تاکہ شاگرد کی کسی صورت میں حوصلہ شکنی نہ ہونے پائے۔

“ اس طرح متعلم کی کمزوری ایک قسم کی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے جس سے اس کی تعلیم کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسا کرنے سے تعلیم ایک یک رخی عمل بننے سے بھی محفوظ رہے گی جس میں شاگرد کو ایک خالی وجود تصور کیا جاتا ہے جو اندر سے بالکل کورا ہوتا ہے! یہ بات دور جدید کے ماہرین تعلیم نے بھی ثابت کی ہے کہ تعلیم دراصل ”برتاؤ کی تبدیلی“ یا ”صلاحیت کو بروئے کار لانے“ کا عمل ہے یا تعلیم مولانا رومی کے الفاظ میں ”ایک منظم شخصیت بنانے“ کا عمل ہے! اس سلسلے میں مولانا رومی نے ایک نہایت ہی دلچسپ بات کہی ہے کہ ”ایسے بیل کو ہانکا جاتا ہے جو ہل نہ چلائے، البتہ اگر یہی بیل اڑنے سے انکار کرے تو اسے سزا نہیں دی جاتی!“

مولانا رومی کا طریقہ تعلیم سادہ سے مشکل اور ٹھوس سے مجرد حقائق تک پہنچانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا رومی کے بقول ”جس طرح بچہ اپنا سفر حیات ماں کے دودھ سے شروع کرتا ہے، اسی طرح شاگرد کی نشوونما سادہ الفاظ اور تصورات سے شروع کرنا چاہیے، تاکہ وہ آہستہ آہستہ مشکل مسائل کا سامنا کرنے کے قابل ہو جائے۔“ بحیثیت ایک صوفی فلاسفر، مولانا رومی یہ بات ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ محبت کے تصور کو زیر بحث لاتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ ایک ناتجربہ کار مرید یا سالک یا شاگرد پہلی ہی نشست میں محبت کو نہیں سمجھ پائے گا۔ اس لئے اسے محبت کی حقیقت سمجھانے کے لئے کہنا پڑے گا کہ ”محبت شکر جیسی ہوتی ہے،“ کیونکہ وہ شکر کی لذت سے وقف ہوتا ہے۔ البتہ جس شاگرد نے تعلیم کی کئی منزلیں طے کی ہوں یا جو محبت کو ایک فلسفے کے طور پر سمجھنا چاہتا ہو، اسے محبت کی حقیقت اس طرح سمجھانا پڑے گی: ”محبت مریم کی طرح ہے ؛ ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک مسیح ہے!“

مولانا رومی کے فلسفہ محبت پر خلیفہ عبدالحکیم نے ”دی مٹافیزکس آف رومی“ میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک مولانا رومی کے نظریہ محبت کا تعلق ہے، اس میں سے دلائل کا ایک حصہ افلاطون کے خیالات سے ملتا جلتا ہے جس نے مسیحی اور مسلم، تصوف کی دونوں جنسوں کو متاثر کیا۔ افلاطون کے نظریات میں سے دو تصورات، یعنی مافوق الادراک حقیقت اور ”اروس“ یعنی ”محبت“ بہت اہم ہیں۔ تاہم مولانا رومی کا نظریہ محبت، جو ذاتی تجربے پر مبنی ہے، کسی نظریے سے مستعار نہیں ہے۔

اس لئے اس کو ہدف تنقید نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ جن تصوراتی زاویوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مولانا رومی اپنے نظریہ محبت کی فلسفیانہ توجیہ کرتے ہیں، ان کو تاریخی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دو افلاطونی مکالمات یعنی ”فیڈرس“ اور ”سیمپوزیم“ سے مسلم مفکرین ناواقف نہیں تھے۔ ابن سینا کا ”فرگمنٹ آن لو“ مجموعی طور پر ”سیمپوزیم“ کی ہی تکرار ہے۔ اس طرح محبت ”حصول جمال“ کی طرف ایک حرکت کے طور پر ”اچھائی“ اور ”حقیقت اعلی“ کے مماثل ہے اور یہ ”تکمیل“ اور ”اعلی ترین تصور“ کو ظاہر کرتا ہے۔

البتہ انفرادی اور شخصی سطح پر محبت فرد کی اس تمنا کو ظاہر کرتی ہے جس کے تحت وہ ”لافانی“ ہونا چاہتا ہے! ابن سینا کی فراہم کردہ یہ تشریح افلاطونی تصور محبت سے ہی مستعار ہے۔ کائنات میں کارفرما عوامل کا مرکب ہونا، مختلف اشیاء کی نشوونما اور افزائش، یہ سب محبت ہی کی مختلف جہات ہیں۔ چونکہ ہر شے لافانی جمال کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس لئے کسی بھی چیز کی قدر و قیمت اسی جمال کی نسبت کے ساتھ منسلک ہے! شاید اسی لئے مولانا رومی کہتے ہیں کہ آفاقی حرکات و سکنات محض اندھا دھند میکانکی اعمال نہیں ہیں بلکہ یہ لافانیت کے محبت کے بحر ناپیدا کنار میں لہروں کی مانند ہیں۔ مولانا رومی بلا جھجک اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ کونی محبت (کاسمک لو) کی عدم موجودگی میں تمام کون و مکان جمود کا شکار ہوجائیں گے اور وجود عدم کی صورت اختیار کرے گا (یا وجود معدوم ہو جائے گا! )

خیر محبت کے اس ارفع تصور تک اعلی ترین دماغوں کی رسائی ہی ممکن ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے فلسفے اور مابعد الطبعیات کی سیڑھی کا استعمال ضروری ہے۔ تاہم تعلیم کے بنیادی مقصد پر زور دیتے ہوئے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ”تعلیم کا مرکزی ہدف ایک اصل انسان یعنی مرد کو پروان چڑھانا ہے!“ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ فارسی صوفی شیوخ نے ہمیشہ ”مرد“ کی اصطلاح وسیع تر معنی میں استعمال کی ہے۔ اس لئے اس اصطلاح میں ”خاتون“ بھی شامل ہے۔

اس وجہ سے مولانا رومی کے نظریہ تعلیم میں کسی قسم کی جنسی تفریق شامل نہیں ہے۔ اصل میں قدماء کے ہاں بھی یہ تمثیل ملتی ہے کہ ”ایک شیخ ہاتھ میں لالٹین لے کر مرد کی تلاش میں سرگرداں ہے!“ چونکہ جب عام انسان کی تعلیم کے ذریعے تکمیل ہوجاتی ہے تو وہ ”مرد“ کہلاتا ہے، اس لئے مولانا رومی نے ڈائیوجینس کی کہانی دہرائی ہے جو اتھنز کے بازاروں میں دن کے اجالے میں مشعل جلا کر انسانوں کے جم غفیر کے اندر ”مرد“ کو تلاش کرتا ہے کیونکہ بازاروں میں موجود اکثر لوگ (اس کے مطابق) انسان ہونے کا صرف تماشا کرتے تھے!

مولانا رومی نے اس کہانی کو ”دیوان“ میں ایک بار جبکہ ”مثنوی“ میں دو بار دہرایا ہے۔ قدیم شیوخ کی یہ کہانیاں کسی نہ کسی صورت میں ہر معاشرے میں پہنچ ہی گئی ہیں۔ کشمیر کی مذہبی اور معاشرتی تاریخ میں یہ کہانی لل دید کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ لل دید گرتی سماجی اور مذہبی اقدار کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی تھیں۔ اس کے لئے انہوں نے ایک خاص ہیئت اختیار کی ہوئی تھی۔ لیکن جب انہوں نے میر سید علی ہمدانی کو دیکھا تو اپنے آپ کو ان کی نظروں سے چھپانا اس لئے مناسب سمجھا کہ ان کے خیال میں ”کشمیر میں بھی کوئی مرد وارد ہوا تھا!“ بہر کیف صوفی شیوخ نے بالعموم اور مولانا رومی نے بالخصوص نظریہ محبت کی توضیح کے لئے مادہ استعارات کو استعمال کیا ہے جن میں ماں، مریم، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس طرح مولانا رومی کا یہ کثیر الجہات نمونہ تعلیم عوام کے ساتھ طبقہ خواص کے لئے بھی قابل عمل ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا رومی کے اپنے دور پر فتن میں بھی ہزار ہا لوگ آپ کے مرید اور شاگرد بن کر اس سے مستفید ہوئے اور انسانیت کی مشترکہ روحانی اقدار کا احیا کیا۔ کیا ”پیر وآری“ (پیروں، صوفیوں کی وادیٔ کشمیر) کے باسی ”پیر رومی“ کی تعلیمات اور ان کے طریقہ تعلیم سے مستفید ہونا پسند کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments