طالبان فاتح: اب ان کی مرضی جو چاہیں کریں


وقت آ گیا ہے کہ ہم بالآخر یہ تسلیم کر لیں کہ جنگیں ٹویٹر اور فیس بک پر جذباتی پیغامات یا جھوٹی خبریں اور تصاویر پھیلانے سے نہیں لڑی جاتیں۔ ہر جنگ کا برسرزمین ایک میدان ہوتا ہے۔ اس میں متحرک فریقین کی فوجی قوت، حکمت عملی اور جذبہ ہی حتمی نتائج کا سبب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب کہانیاں ہیں۔ وقت کا زیاں اور ذاتی خواہش کا بچگانہ اظہار۔

بارہا اس کالم میں دہراتا رہا ہوں کہ طالبان نے افغانستان کی جنگ دوحہ میں مذاکرات کی میز پر جیت لی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ کسی ایک جنگجو گروہ کے ساتھ نہیں بلکہ ”امارات اسلامی افغانستان“ کے ساتھ ہوا تھا۔ بائیڈن نے مذکورہ معاہدے کے احترام کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ”امارت اسلامی افغانستان“ کی بحالی کامحض انتظار ہو رہا تھا۔ اشرف غنی اور اس کے ہم نوا اس حقیقت کو سمجھ نہیں پائے۔ بالآخر فرار ہو گئے۔ امریکہ کو اس کی وجہ سے ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلاء مکمل کرنا پڑا۔

کابل کی جانب پیش قدمی سے قبل طالبان نے کمال مہارت اور صبر سے ان علاقوں پر اپنے قبضے کو یقینی بنایا جو ماضی میں ان کے مخالفین کے تسلط میں رہے تھے۔ پشتون ان علاقوں میں اکثریت کے حامل نہیں۔ وہ دری یا ازبک زبانیں بولنے والوں کے لئے مختص تصور ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ طالبان 1997 سے 2001 تک ان علاقوں میں اپنا اقتدار مستحکم نہیں کر پائے تھے۔ ان کے متشدد نظریات کی وجہ سے روس ایران اور ترکی نے بھی یہاں کے وارلارڈز کو معاونت فراہم کی۔ بھارت بھی پاکستان دشمنی میں ان کا ہمنوا رہا۔ شمالی اتحاد کے بنائے صدر برہان الدین ربانی کو اقوام متحدہ ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کی او آئی سی بھی ”جائز“ افغان حکومت تصور کرتی رہی۔ طالبان حکومت کو پاکستان کے علاوہ فقط سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔

ماضی کے مقابلے میں حالات اب قطعاً بدل چکے ہیں۔ عالمی میڈیا احمقانہ استقامت سے پاکستان کو طالبان کا واحد حامی بلکہ سرپرست کی صورت پیش کرتا رہا ہے۔ اسی باعث ہم پر امریکہ کی جانب سے اکثر ”ڈبل گیم“ کے الزامات بھی لگے۔ حقیقت جبکہ یہ رہی کہ ایران نے طالبان کے ساتھ اپنے روابط سفارت کارانہ مہارت سے بڑھانا شروع کردیے تھے۔ امریکہ سے نفرت کے علاوہ داعش کے نام سے ابھری تنظیم بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب ہوئی۔ قطر کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مقاطعہ کر رکھا ہے۔ اسے ایران کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔ سوئز کے اس پار مگر امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر ہی میں قائم ہے اور قطر ہی میں طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔ اس کا صدر مگر امریکہ کو بھی آنکھیں دکھاتا رہتا ہے۔ سعودی عرب کو بھی سفارتی محاذ پر شرمسار کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہتا ہے۔ یوں قطر اور ترکی بھی ایک دوسرے کے حلیف ہو گئے۔

ترکی نے نئے حالات کی وجہ سے افغانستان کی ازبک قیادت کی پشت پناہی سے انکار کر دیا۔ اپنے تئیں کئی دہائیوں تک پاٹے خان بنارشید دوستم اسی باعث افغانستان سے فرار کو مجبور ہوا اور مزار شریف جیسا اہم ترین شہر بآسانی طالبان کے قبضے میں آ گیا۔ ہرات کے اسماعیل خان کو بھی سرپرستی نصیب نہ ہوئی۔ ایسے حالات میں پنجشیرکو مرکز بنا کر طالبان کی مزاحمت ممکن ہی نہیں تھی۔ سی آئی اے کا تربیت یافتہ امر صالح جو احمد شاہ مسعود کا قریبی رفیق رہا ہے مگر اپنی محدودات جانے بغیر مزاحمت کو ڈٹ گیا۔ اس کی ہزیمت دیوار پر لکھی نظر آ رہی تھی۔ بھارتی میڈیا مگر اسے ”عبوری افغان صدر“ پکارتے ہوئے ”شیر بن شیر“ کو اکساتا رہا۔ افغانستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ گزین ہوئے دانشور وغیرہ بھی اسے شیر بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر متحرک ہو گئے۔

پنجشیرکو مرکز بنا کر طالبان کی مزاحمت محض جغرافیائی حقائق کی بنیاد پر ہی جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ وہاں محصور ہوئی آبادی کی روزمرہ زندگی کے لئے بنیادی تصور ہوتی اشیائے صرف کی بھی ضرورت ہے۔ طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں احمد شاہ مسعود کو تاجکستان کے راستے رسد اور کمک بآسانی میسر رہی۔ روس نے اس کی سرپرستی کی کیونکہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک میں جو کبھی سوویت یونین کا حصہ رہے ہیں ”انتہا پسند اسلام“ کا غلبہ نہیں چاہتا تھا۔ روس کے موجودہ صدر پیوٹن کے عروج کا کلیدی سبب یہ بھی ہے کہ اس نے نہایت سفاکی سے چیچنیا میں احیائے اسلام کی تحریک کو شکست دی تھی۔ تاجکستان میں بھی کئی برسوں تک اسلام کے نام پر خانہ جنگی برپارہی ہے۔ ازبکستان بھی اسلامی تحریک سے خائف رہا۔ روس، ازبکستان اور تاجکستان فی الوقت مگر طالبان سے کوئی پنگا نہیں لینا چاہتے۔ وہ انہیں ”بدلاہوا“ دیکھنے کے لئے انتظار کو تیار ہیں۔ روس، تاجکستان اور وسیع تر تناظر میں ایران کی معاونت کے بغیر پہاڑوں میں گھری وادی پنجشیر میں محصور رہتے ہوئے طالبان کی مزاحمت ممکن ہی نہیں تھی۔ احمد شاہ مسعود کا جواں سال بیٹا اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے۔ وہ برطانیہ کی مشہور ملٹری اکاڈمی سینڈھرسٹ کا طالب علم رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دھانسو کنگز کالج سے حربی اور عالمی امور کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ اپنے اساطیری والد کے برعکس وہ کبھی جنگجو نہیں رہا۔ اپنی محدودات کو خوب جانتے ہوئے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتا رہا۔ اس کے والد کے ساتھ رہے جنگجو کمانڈروں نے مگر اسے غیر موثر بنا دیا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف 20 سال لمبی مزاحمت کی بدولت طالبان جبلی طور پر یہ جانتے تھے کہ برف باری شروع ہوتے ہی وادیٔ پنجشیر تک رسائی ممکن نہیں رہے گی۔ وہ سرماکے آغاز سے قبل اس وادی پر قبضہ نہ جماپائے تو ان کے مخالف وہاں جمع ہو کر مزاحمت کا ایک مضبوط مرکز قائم کر لیں گے۔ وہ یہ حقیقت بھی نہیں بھولے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے طیش سے مغلوب ہو کر ان پر جنگ مسلط کی تو شمالی اتحاد کے کمانڈروں ہی نے غیر ملکی افواج کو کابل تک پہنچنے کے راستے دکھائے تھے۔ اس معاونت کے عوض انہوں نے بے تحاشا ڈالر کمائے۔ ان کی بدولت دنیا کے کئی شہروں میں قیمتی جائیدادیں خریدیں۔ بون معاہدے کے بعد حامد کرزئی کی قیادت میں جو حکومت بنی اس میں ان غیر پشتون ”ٹوپک سالاروں“ نے اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ لیا۔ وہ ڈالر سمیٹنے کی خاطر بے تحاشا بے گناہ افغانوں کو القاعدہ یا طالبان کے جنگجو بنا کر امریکہ کے حوالے بھی کرتے رہے۔ فاتحین مفتوحہ ہوئے افراد اور گروہوں کو معاف کرنے میں وقت لگاتے ہیں۔ اپنا اقتدار مستحکم کرلینے کے بعد ہی مفتوح ہوئے افراد یا گروہوں کے دل جیتنے کے لئے سرکار دربار میں کوئی مقام عنایت کرتے ہیں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں طالبان فی الوقت افغانستان کے فاتح ہیں جنہوں نے دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کو ذلت آمیز انداز میں اپنی افواج کو اپنے ملک سے نکالنے کو مجبور کیا۔ اب وہ ایک لطیفہ والے ہاتھی ہیں۔ جسے بڑا جانور کہا جاتا ہے۔ اب طالبان کی مرضی۔ انڈا دیں یا بچہ۔
بشکریہ نوائے وقت۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments