قاہرہ میں چند روزہ قیام


 

اردن کی خوبصورت یادیں سمیٹ کر ہم ائرپورٹ پر روانگی کے لئے تیار تھے۔ عمان کی وزٹ تمام ہونے پر ہمارا سٹڈی ٹور اختتام کو پہنچا۔ اب ہم میں سے سوائے ان کے جنہوں نے چھٹی لے رکھی تھی، پاکستان واپس جا رہے تھے۔ میرا اور کرنل لیاقت کا بھی تعطیلات گزارنے کے لئے کچھ مزید سیاحت کا پروگرام تھا۔ عمان سے ہم استنبول پہنچے اور وہاں سٹاپ اوور کے بعد قاہرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لئے مصر ایک پسندیدہ ملک ہے۔ اور دلچسپی کا محور وہاں کا دارالحکومت قاہرہ ہے جہاں ادوار فراعنہ سے متعلق بے شمار آثار قدیمہ موجود ہیں نیز عجائب گھر میں بھی فراعنہ کی ممیز کے علاوہ نوادرات کا بھرپور خزانہ ہے۔ قاہرہ میں سیاحوں کے لئے سب سے بڑی کشش اہرام مصر اور عجائب گھر ہیں جن کا تفصیلاً تذکرہ میں اپنے مضمون ”ہنی مون پلس مائنس“ میں کر چکا ہوں اس لئے یہاں ذکر مکرر سے اجتناب کروں گا۔

ہم قاہرہ ائرپورٹ پر اتر چکے تھے۔ میں کرنل لیاقت کو بتا رہا تھا کہ اپنی جیب سے ہوشیار رہیں۔ یہاں جیب تراشی بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات چھینا جھپٹی پر بھی اتر آتے ہیں اس لئے ہمیں قاہرہ میں ہوشیار رہنا ہو گا۔ ائرپورٹ آمد کے بعد کی کارروائی میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا اور ہم جلد ہی ائرپورٹ سے باہر نکل آئے۔ ٹیکسی کے ذریعے شہر تک پہنچے۔ کرنل لیاقت نے مشورہ دیا کہ ہم ہوٹل میں قیام کی بجائے اگر ایک ہفتہ کے لئے فلیٹ کرایہ پر لے لیں تو کم خرچ رہے گا ان کے دوست ایسا تجربہ کر چکے تھے اور انہیں ایڈریس بھی معلوم تھا۔

ہم نے اس پر اتفاق کیا اور فلیٹس میں ایک کمرہ کرایہ پر لیا۔ فلیٹس ایک بازار میں واقع تھے جو اتنا با رونق نہیں تھا۔ دکانوں پر زیادہ تر روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء تھیں جیسے گروسری، پھل و سبزی، گوشت، بیکری اور ریستوران وغیرہ۔ قریب ہی ایک مسجد بھی تھی۔ ہمارا فلیٹ گراؤنڈ فلور پر واقع تھا۔ ہم اکثر بازار سے کھانے کی اشیاء لینے جاتے تھے۔ اس طرح دکانداروں اور محلے داروں سے ہیلو ہائے بھی ہو گئی تھی۔ بازار والی سڑک تقریباً ڈیڑھ سو میٹر آگے جا کر ایک بڑی شاہراہ سے ملتی تھی جو دریائے نیل کے ساتھ ساتھ آگے جا رہی تھی۔

پہلے روز ہم دن کے وقت اہرام مصر اور ابوالہول دیکھنے گئے اور رات کو دوبارہ لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو دیکھنے گئے جو ابوالہول کے ساتھ ملحقہ جگہ پر منعقد ہوتا ہے۔ یہ شو اتنا دلچسپ ہے کہ جو لوگ وہاں جاتے ہیں انہیں ضرور دیکھنا چاہیے۔ دیکھنے والا خود کو اسی دور میں موجود محسوس کرتا ہے۔

قاہرہ افریقہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ شہر کے وسط میں بہتے دریائے نیل نے شہر کے حسن کو دوبالا کیا ہوا ہے۔ دریا کے اطراف کا علاقہ بہت با رونق اور پر کشش ہے۔ ہوٹل میں قیام کے بجائے شہر کی بستی میں رہائش اختیار کرنا ایک مختلف اور دلچسپ تجربہ تھا۔ اڑوس پڑوس کے لوگوں سے شناسائی ہوئی اور ان کی تہذیب و تمدن کو کسی حد تک قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات گئے تک ہم دریائے نیل کے کنارے سڑک پر چہل قدمی کیا کرتے۔ وہاں پر واک کرنے والوں کا جم غفیر ہوتا اور حیرت کی بات تھی کہ جیسے جیسے وقت گزرتا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا اور اس ہجوم میں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہوتے۔

ایک روز ہم شہر کے کسی شاپنگ ایریا میں گزر رہے تھے کہ ایک پرفیوم شاپ کے باہر کھڑے ایک قوی الجثہ شخص نے ہاتھ ملایا اور ہمیں پرفیوم دکھانے کے لئے دکان میں داخل ہوا۔ ہم نے کہا کہ ہم پرفیوم خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ بہت باتونی تھا کہنے لگا بیشک نہ خریدیں مگر آپ پاکستانی لگتے ہیں اور مجھے پاکستانیوں سے محبت ہے۔ جنرل ضیاءالحق مجھے پسند تھے اور جنرل کے ساتھ میری تصویریں آپ ایک نظر دیکھ لیں۔ اس نے البم میں لگی جنرل ضیاءالحق کے ساتھ لی گئی تصاویر دکھائیں۔

اور کہنے لگا آپ پرفیوم خریدیں نہیں مگر چیک تو کر لیں۔ مجھے شک گزرا کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں۔ میں نے کرنل لیاقت سے پنجابی میں کہا کہ پیشتر اس کے کہ یہ شخص ہمیں کچھ سونگھا کر بیہوش کر دے یہاں سے نکلو۔ دکان لمبائی میں کافی اندر تک تھی اور اس کے پیچھے ایک اور کمرہ نظر آتا تھا۔ دکاندار نے کرنل لیاقت کا ہاتھ پکڑا تھا اور اندر مزید ورائٹی دکھانے لے جا رہا تھا جبکہ میں پیچھے تھا۔ میں نے دوبارہ کرنل لیاقت سے کہا کہ اسی وقت دکان سے باہر نکلیں اور ساتھ ہی میں تیز قدموں سے باہر کی طرف آیا۔

پیچھے سے دھڑام کی آواز آئی اور کرنل لیاقت تقریباً بھاگتے ہوئے میرے پیچھے آئے۔ ہم سڑک تک پہنچ چکے تھے اور یوں اللہ نے ایک حادثہ سے بچا لیا۔ کرنل لیاقت نے بتایا جب میں نے واپس آنے کا کہا تھا تو اس شخص کی گرفت ان کی کلائی پر مضبوط ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں بھی شک ہوا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ بالآخر کرنل لیاقت نے اسے دھکا دیا اور زبردستی اپنی کلائی چھڑا کر باہر بھاگے۔

جامعہ الاظہر دیکھنے کی دیرینہ تمنا تھی اب یہ موقعہ تھا وہاں جانے کے لئے۔ ہم ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر وہاں پہنچے۔ جامعہ الاظہر دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے۔ اس کی ابتدا 970 عیسوی میں مسجد الاظہر میں ہوئی۔ چونکہ ابتدا میں صرف دینی علوم پڑھائے جاتے تھے اس لئے مغربی دنیا میں اسے مدرسہ کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اس سے 120 سال بعد اٹلی میں بننے والی بلوگنا یونیورسٹی کو قدیم ترین یونیورسٹی سمجھا جاتا ہے۔

شروع میں قرآن و حدیث اور دینی علوم پڑھائے جاتے تھے لیکن بعد میں دیگر علوم کی تدریس بھی شروع ہو گئی۔ مختلف سلطنتوں کے ادوار میں ترقی ہوتی گئی۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر مرحوم کے دور میں جامعہ کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا۔ جامعہ کا اعزاز رہا ہے کہ کسی بھی دور میں شرعی مسائل پر یہاں کے علماء کے فتاوی ایک سند رہے ہیں۔ مصر کے تقریباً چار ہزار تعلیمی ادارے جامعہ الاظہر کے ساتھ منسلک ہیں۔

مسجد الاظہر کے برآمدے سے گزر کر مین ہال میں داخل ہوئے۔ کشادہ ہال میں خوبصورت قالین بچھا ہوا تھا۔ وہاں کے منتظم نے بتایا کہ وہ قالین جنرل ضیاءالحق شہید کی طرف سے بطور تحفہ دیا گیا تھا۔ مسجد کے اندر مختلف فاصلوں پر طلبا کے چار گروپس کی تدریس جاری تھی۔ منتظم نے بتایا کہ یہ چار مختلف مسالک کے طلباء اپنے اپنے مسلک کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

دریائے نیل میں کروز کا ذکر کیے بنا قاہرہ کا تذکرہ ادھورا رہے گا۔ رات آٹھ بجے کروز کی روانگی کا وقت تھا۔ ہم وقت پر پہنچ گئے تھے۔ کشتی پر سوار ہونے کے لئے ایک خوبصورت راستے پر سے گزرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے جہاں وہ لنگر انداز تھی۔ اس راستے پر قالین بچھائے گئے تھے۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی کے اندر چھ اور آٹھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش والے ڈائننگ ٹیبل لگے ہوئے تھے اور ان میزوں کے درمیان میں ایک سٹیج بنا ہوا تھا جس کی اونچائی کھانے کی میزوں سے ڈیڑھ دو فٹ زیادہ تھی۔

ہم بھی نشستوں پر برا جمان ہوئے۔ تقریباً دس منٹ میں سب لوگ سوار ہو چکے اور کشتی دریا کے کنارے کو چھوڑ چکی تھی۔ جیسے ہم کنارے سے دور ہوتے گئے دریا کی قریبی آبادی کی روشنیاں پر کشش ہوتی گئیں۔ اندھیرے کے باعث دریا کا نظارہ تو ممکن نہیں تھا مگر اکا دکا کشتیاں جن کی جھلملاتی روشنیاں دور سے بھلی لگتی تھیں اور کسی وقت کشتی کا ہچکولا احساس دلاتا تھا کہ ہم دریا میں محو سفر ہیں۔ اچانک موسیقی کی آواز سنائی دی اور سٹیج پر ہلچل نے متوجہ کیا۔ مصر کا روایتی رقص پیش کیا جا رہا تھا۔ یکے بعد دیگرے کئی دھنوں کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ فنکارہ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اسی دوران کھانا بھی پیش کر دیا گیا۔ کھانے اور محفل رقص کے اختتام پر کشتی اسی جگہ آ لگی جہاں سے ہم سوار ہوئے تھے۔

ہمارے پروگرام میں اسکندریہ جانا بھی شامل تھا۔ ہم بس ٹرمینل پر پہنچے تو کرنل لیاقت کہنے لگے کہ پہلے فوقہ نام کے قصبہ میں چلیں گے جو راستے میں پڑتا ہے۔ وہاں وہ اپنی پرانی کولیگ سے ملاقات کرنے کے بعد اسکندریہ چلیں گے۔ ہم فوقہ جانے والی ایک ویگن پر سوار ہو گئے۔ ویگن والوں نے ہماری عزت افزائی کرتے ہوئے ہمیں فرنٹ سیٹ پر جگہ دی۔ کافی مسافر پہلے سے سوار تھے اس لئے ویگن جلد ہی روانہ ہو گئی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوقہ جانے کی وجہ سے ہم اپنے راستے سے دور ہو گئے تھے اور یوں ہمارا قاہرہ سے اسکندریہ تک کا ڈھائی گھنٹے کا سفر چھ گھنٹوں پر محیط ہوا۔

فوقہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا قصبہ ہے۔ ویگن سے اتر کر ہم مطلوبہ ایڈریس پر روانہ ہوئے۔ گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک گلی میں داخل ہوئے اور اس کے بعد ایک اور گلی میں مڑ گئے وہاں کسی راہ گیر سے پوچھا اور ایک گھر کے دروازے پر لگی گھنٹی بجا دی۔ ڈیوڑھی کے دروازے کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون دروازے پر آئی علیک سلیک کے بعد کرنل لیاقت نے اپنا تعارف کروایا۔ خاتون ہمیں کچھ کہہ کر اندر گئی اور اپنے بیٹے کو ساتھ لے آئی جو انگریزی سمجھتا تھا۔

کرنل لیاقت نے بتایا کہ وہ اپنی سابقہ کولیگ کو ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اندر آ کر بیٹھنے کا کہا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ جن محترمہ سے ملنا تھا وہ قاہرہ گئی ہوئی تھیں۔ ہم نے واپسی کے لئے اجازت چاہی لیکن انہوں نے بغیر خاطر تواضع کیے نہیں آنے دیا۔ کچھ دیر بات چیت ہوتی رہی۔ انہیں افسوس ہوا کہ ہم اتنی دور سے گئے تھے اور ڈاکٹر صاحبہ موجود نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ شام تک واپس پہنچ جائیں گی اگر ہم انتظار کر لیں یا اپنا قیام اگلی صبح تک بڑھا لیں۔ ہم نے بتایا کہ ہمارا پروگرام اسکندریہ جانے کا ہے اس لئے معذرت چاہی۔ کچھ دیر میں قہوہ اور کچھ کھانے کی اشیاء ہمیں پیش کی گئیں جو کہ گھر پر ہی تیار شدہ تھیں اور لذیذ تھیں۔ ہم جلد ہی ان سے الوداع ہو کر اسکندریہ کے لئے روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments