تقدیر اور ہم!


کچھ لوگ یہ سوچ کر ساری زندگی ترقی نہیں کر پاتے کہ ان کی تقدیر میں بس یہ لکھ دیا گیا ہے۔ اب یہ بدل نہیں سکتے۔ نتیجتاً وہ کسی مقصد کو حاصل کرنے یا اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوشش ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ عنصر زیادہ تر مذہبی لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس سے جہاں انفرادی طور پر ترقی کم ہوتی ہے تو وہی مجموعی طور پر ترقی کم ہوتی ہے۔ جس سے معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ انھیں لگتا ہے کہ کوئی مسیحا آئے گا اور انھیں اس دلدل سے نکالے گا۔ کل ملا کہ جس جہنم میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں اس کے ذمہ دار صرف اور صرف وہ خود ہوتے ہیں۔

جہاں تک تقدیر کا معاملہ ہے تو انسان اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔ زندگی میں اٹھایا گیا ہر قدم یہ طے کرتا ہے کہ اس کا آنے والا کل کیسا ہوگا۔ اگر وہ خود زندگی کے پتے غلط کھیل رہا ہے تو وہ تقدیر کو کیونکر الزام دے سکتا ہے۔ انسان کے عادات و اطوار یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ آنے والے کل میں کیسا انسان ہوگا۔ آپ عظیم لوگوں کی زندگی کو اٹھا کر پڑھ لیجیے، آپ کو پتا چلے گا کہ وہ عظیم انسان بننے سے پہلے بھی اچھی عادات کے مالک تھے۔ ان کا لائف سٹائل شروع ہی سے بڑے انسانوں والا ہوتا ہے۔ وہ محنت اور عزم پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ اب ہماری تقدیر میں ہی لکھ دیا گیا ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ انھوں نے کرنا تھا تو۔ بس کر دکھایا۔

اسی طرح معروف رائٹر ویلیم ہنری جو تیس سال تک جو اس کے ساتھ ہوتا رہا اسے تقدیر سمجھ کر سہتا رہا۔ اسے ہر طرف سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر ایک دن اس نے اس بات کا عزم کر لیا کہ یہ تقدیر شقدیر کچھ نہیں ہوتی۔ سب انسان کے بس میں ہوتا ہے۔ وہ خود ہی اپنی زندگی کی راہ کو ہموار کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر وہ اتنا اچھا رائٹر بنا کہ اسے زندگی میں تو شہرت ملی ہی اسے آج تک پڑھا اور سراہا جاتا ہے۔ یہ تو تھی ایک مثال۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن میں انسان نے وہ کر دکھایا جو وہ کبھی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

طارق عزیز صاحب کی زندگی کو پڑھ لیجیے کہ کس طرح سڑکوں پر دھکے کھانے والا انسان کیسے اتنے نام والا انسان بنا گیا۔ اگر طارق عزیز صاحب ایک بار بھی یہ سوچ لیتے کہ یہ تو میری تقدیر میں لکھا ہے تو وہ اس مقام تک کبھی نہ پہنچ پاتے۔

عمران خان کی زندگی کو دیکھ لیجیے کہ کس طرح ایک انسان کرکٹ کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے بعد بائیس سال کی جدوجہد کے بعد آخرکار وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ انھیں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ تقدیر میں یہ نہیں لکھا کہ وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ سکے۔ ان کی محنت اور عزم نے انھیں یہاں پہنچا دیا۔

اب عام انسان یہ سوچ کر ہی محنت کرنا چھوڑ دیتا کہ بھائی میں کیسا یہ کر سکوں گا۔ میری تقدیر میں بس یہی لکھا ہے۔ او بھائی یہ کس نے کہہ دیا کہ تمہاری تقدیر میں یہ لکھا ہے۔ تمہیں الہام ہوا ہے کہ یہی تمہاری تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ تم نے خود ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ یہی تمہاری تقدیر ہے۔ حالات تمہارے دوسرے لوگوں سے مختلف ہوسکتے۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بس ایک ہی حالت میں اٹک جاو۔ خود ہی اسے تقدیر کا نام دے کر ساری عمر کے لیے گلے میں ڈال لوں۔

دیکھو انشا جی، تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو، مسیحا کی تلاش میں رہو یا پھر تقدیر کو کوستے رہو یا پھر اٹھو اور اپنی قسمت کو بدل دو، آنے والے نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو، یہ اب تم پر منحصر ہے۔ جیسے وہ دسرت مانجھی فلم کا ڈائیلاگ ہے نا کہ

” بھگوان کے بھروسے مت بیٹھو، ہو سکتا ہے کہ بھگوان تمرے بھروسے بیٹھا ہو“
جو کچھ کرنا ہے اب تم نے اب خود ہی کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments