مائیکل زبانوں والا


اکثر لوگوں کو مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ میں نے یہ شوق خاص طور پر یورپ کے لوگوں میں دیکھا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر میں گھر ہی رہتا تھا، باہر کم نکلنا ہوتا تھا اس وجہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات نہ ہوئی کہ یہ مشاہدہ کر سکوں اور دوسرا یہ کہ یورپ میں واقعی لوگوں میں زبانیں سیکھنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ چونکہ قریباً دنیا کے سبھی خطوں سے لوگ یورپ میں آتے ہیں اور کام کرتے ہیں اس لیے اس بین الاقوامی ماحول میں عین ممکن ہے آپ یونہی راہ گزرتے کسی دوسرے خطے کے لوگوں کی زبانیں سنیں اور دیوانے ہو جائیں جیسا کہ مجھے فرانسیسی زبان جنسیت اور رومانویت سے بھرپور لگتی ہے۔ سیکھنے کی کوشش بھی کی لیکن پھر یہ کام بھی روایت کے مطابق ادھورا چھوڑ دیا۔

یورپ میں ہمارے ہاں کے شہروں جتنے تو ملک ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ہنگری جہاں میں اس وقت ہوں، صرف ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ سفر کرنا چونکہ آسان ہے لہذا یہ لوگ ایک دوسرے کے ملکوں میں بھی آتے جاتے ہیں اور پھر اسی طرح زبانیں بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خیر دوست تو ایک میرا بھی ہے جو ملکوں ملکوں گھومتا پھرتا ہے اور زبانیں سیکھنے کا شوق بھی پال رکھا ہے مگر مجال ہے کسی زبان کے دو چار الفاظ سے زیادہ سیکھے ہوں۔ کوئی پولش بندہ ملے گا تو اسے کہتا ہے مجھے تو پولش زبان پسند ہی بہت ہے اس کے بعد وہ دوچار لفظ جو اس نے سیکھ رہے ہوتے ہیں ان کی تلاوت کرتا ہے اس طرح پولش بندہ متاثر ہو جاتا ہے۔ خیر اس پہ پھر کسی دن بات کریں گے۔

دنیا میں صرف تین فیصد ایسے لوگ ہیں جو چار یا چار سے زیادہ زبانوں پہ دسترس رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک ماہر نفسیات کارل ینگ بھی کچھ روایات کے مطابق سات کے قریب زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ زیادہ زبانیں سیکھنے سے ہماری یادداشت بہتر ہوتی ہے، تخلیقی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے، توجہ مرکوز کرنا آسان ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سننے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ ہوا، میں نے ایک ہوٹل میں کام شروع کیا۔ وہاں سبھی ہنگیرین تھے جو کہ ظاہری بات ہے ہنگیرین ہی میں بات چیت کرتے تھے۔ وہاں مجھے مائیکل سے واسطہ پڑا۔ محترم کا تعلق یوکرائن سے ہے، 4 زبانیں آتی ہیں اور انگریزی بس گزارے لائق۔ مجھ سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ
”؟ You Student“

میں نے کہا بالکل طالب علم ہی ہوں۔ کہنے لگے
”You English good?“

میں نے کہا جی معلوم تو یہی پڑتا ہے کہ ٹھیک ہے انگریزی۔ بات چیت تو کر ہی لیتے ہیں جناب موصوف کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کہنے لگے تم مجھے اپنا شاگرد بناؤ گے؟ کام کے دوران ہی میں تھوڑی بہت انگریزی بول لیا کروں گا تمہارے ساتھ اور تم میری غلطیاں دور کر دیا کرنا۔ میں خوشی خوشی راضی ہو گیا مگر میری شامت آ گئی۔ شروع شروع میں تو اچھا لگا مگر پھر حضرت نے کچن میں موجود ہر ہر چیز کی طرف اشارہ کر کے اس کی انگریزی پوچھنا شروع کر دی۔ بھئی اس کچن میں تو ایسے آلات تھے جنہیں میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور ان کی انگریزی تو میرے انگلش کے استاد کو بھی نہیں آتی ہو گی، معاف کرو بھائی۔

پھر مجھ سے پوچھنے لگا کہ اچھا چھری کو کیا کہتے ہیں انگریزی میں؟ جی نائف۔ پھر کانٹے کی طرف اشارہ کیا۔ اجی فورک۔ اب چمچ کی باری آئی۔ میں نے کالر سیدھے کر کے بتا دیا کہ اجی سپون کہتے ہیں۔ پھر اس نے ان تینوں کو اکٹھا پکڑ کر پوچھا کہ اس پورے سیٹ کو کیا کہتے ہیں؟ بھئی مارو، مارو مجھے۔ خدا کا خوف کرو تم نے جان کس کو دینی ہے بھائی؟

(یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اس پورے سیٹ کے لیے ہنگیرین زبان میں خاص لفظ ہے تو اس نے سوچا کہ شاید انگریزی میں بھی ہو۔ ویسے شاید ہو بھی مجھے معلوم نہیں آپ دیکھ لیجیے گا) ۔ میں نے پھر جب وقفہ ہوا تو اس کے دوران کچن میں استعمال ہونے والی اشیا کے انگریزی میں نام دیکھے تاکہ مائیکل پہ میری استادی کا رعب جما رہے۔

بس وہ ابھی بھی اسی طرح زبانیں سیکھ رہا ہے۔ کہتا ہے انگریزی ذرا سیکھ لوں تو پھر اردو بھی سیکھوں گا۔ ایک سال افغانستان میں رہا ہے اور تھوڑی بہت فارسی جانتا ہے۔ عمر موصوف کی 52 سال ہے یعنی زبان اس کے کسی یونیورسٹی کے مضمون کا حصہ نہیں ہے بس اسے شوق ہے زبانیں سیکھنے کا۔ کام کے دوران وہ جب جب بھی ملتا ہے کوئی نہ کوئی نیا لفظ سیکھ لیتا ہے۔ میں نے اپنا دل تھوڑا حسد کی آگ میں جلانے کے بعد اس بات پہ راضی کر لیا کہ میں بھی اس سے روسی زبان سیکھتا ہوں۔ کل اس نے روسی زبان میں ”شکریہ“ کہنا سکھایا تھا لیکن مجھے اگلی ملاقات تک بھول چکا تھا۔

اس کا یہ مطلب نہ سمجھیں کہ میں نالائق ہوں، بس طبیعت ادھر نہیں جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments