ملائیشیا اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟


پاکستان میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا ماحول سمجھنے کے لئے میں آپ کے سامنے ملائشیا میں زندگی گزارنے کا ماحول پیش کرتا ہوں۔ یہاں پر کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص سے کوئی غرض نہیں کوئی کیا کر رہا ہے۔ کدھر جا رہا ہے۔ کیا کھا رہا ہے۔ کیا پی رہا ہے۔ کپڑے کون سے پہنے ہیں۔ گویا ہر شخص اپنی زندگی میں مگن ہے اور اسی میں خوش ہے۔ گھر کے اگر 6 افراد ہیں تو ماسوائے ان چھوٹے بچوں کے جن کی عمریں دس سے بارہ سال ہیں۔ باقی سب اپنا اپنا کماتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بناتے ہیں۔ ساتھ ساتھ پڑھائی کرتے ہیں اور نوکری یا چھوٹا موٹا کاروبار بھی جاری رکھتے ہیں۔

گھر میں کھانا پکانے کا بہت کم رواج ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھر ہیں۔ ایک کمرہ جس میں بمشکل ایک بیڈ ہوگا اور ایک الماری ہوگی۔ فجر سے پہلے اٹھنے کا رواج ہے اور اس کے بعد زندگی رواں دواں۔ یہاں پر ریسٹورنٹس کا کاروبار بہت چلتا ہے۔ کیونکہ لوگ انہیں پر انحصار کرتے ہیں۔ 70 80 سال کا بوڑھا ہینو ٹرک چلا رہا ہوگا۔ میں نے چند ایک سے جب اس کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا گھر بیٹھ کر کیا کروں گا بیماریاں لگ جائیں گی۔ کسی پر بوجھ بن جاؤں گا۔ اس طرح وقت بھی اچھا گزرتا ہے۔ مصروفیت میں رہتی ہے۔ صحت بھی اچھی ہے اور چار پیسے بھی مل جاتے ہیں۔ میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔ شادی، بیاہ ایسا کہ مکمل اسلامی اصولوں کے عین مطابق۔ مسجد میں نکاح اور رخصتی۔ کسی عورت کو سونے میں لدا ہوا نہیں دیکھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک انگوٹھی اور ایک بریسلیٹ ہوگا۔ زندگی کتنی آسان ہے یہ ملائشین لوگوں سے پوچھیں۔ چار ماہ سے زیادہ وقت ہو چکا لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے۔ مگر پھر بھی پرسکون ہیں۔

حکومتی قوانین کو مانتے ہیں۔ انتہائی ٹھنڈے مزاج کے لوگ ہیں۔ اب آتے ہیں۔ اپنے ملک پاکستان کی طرف۔ یہ تو چند مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ انہی مثالوں کا پاکستانی ماحول میں جائزہ لیتے ہیں۔ اس سے آپ کو پاکستان میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا ماحول سمجھ آ جائے گا۔ پاکستان میں پہلی کلاس سے لے کر بی اے اور ایم اے تک یعنی 14 سال یا پھر سولہ سال مسلسل پڑھائی اور ذمہ داری صرف والدین کی۔ پڑھائی کے علاوہ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانا اور اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پھر کئی سال نوکری کی تلاش میں بیٹھے رہنا اور تعلیم بھی ایسی حاصل کرنا جس کا ہنر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

اگر میٹرک کے بعد کوئی ہنر سیکھ لیا جائے باقی کام چھوڑیں صرف موبائل ریپیرنگ کا کام سیکھ لیا جائے تو اس وقت پاکستان میں یہ بہترین کام ہے اور یہ نہ ختم ہونے والا کام ہے۔ موبائل ریپئرنگ سیکھنے کے لئے تین ماہ سے زیادہ کا وقت نہیں چاہیے اور اس پر اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کی دکان بھی کسی موبائل دکان کے اندر چھوٹا سا بینچ رکھ کر کام کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں LKKG کا بہت رجحان ہے۔ یعنی لوگ کیا کہیں گے آپ ذرا باربر شاپ کھول کر تو دیکھیں۔

بھائی باربر شاپ پاکستانی معاشرے میں صرف نائیوں کا کام ہے۔ کوئی خاندانی بندا یہ کام کیسے کر سکتا ہے۔ آج تک پاکستان میں کسی رانا یا چوہدری کو باربر شاپ بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ناک کٹ جائے گی۔ پاکستانی معاشرے میں اس ناک نے معیشت تباہ کر دی ہے۔ کوئی شخص کسی بھی کام کو ہنر نہیں مان رہا ہر شخص یہ کہہ رہا ہے یہ میرے لیول کا کام نہیں ہے۔ کوئی شخص اس کام کو بطور ہنر نہیں سیکھے گا۔ پاکستان میں مخصوص پیشے مخصوص خاندانوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور وہ لوگ ان پیشوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے خاندانوں کا نام ان کے پیشوں کی وجہ سے پڑ گیا۔ ہمارا معاشرہ عجیب معاشرہ ہے۔ غربت اس قدر ہو چکی کہ روزانہ کی بنیاد پر بری خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اپنے بچوں کو زہر دے رہے ہیں۔ نہر میں پھینک رہے ہیں۔ خود پر پٹرول ڈال کر خود سوزی کر رہے ہیں۔ دس پندرہ روپے کی خاطر قیمتی انسانی جانیں لے رہے ہیں۔ کوئی کسی کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ان سب باتوں کا تعلق آپ کی معیشت کے ساتھ ہے۔ آپ کی معیشت اگر اچھی ہے تو آپ اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کا کام کرائیں گے تو جو پیسے مکینک آپ سے مانگ رہا ہے۔

آپ اس کو ادا کریں گے۔ آپ کسی بھی دکاندار سے تھوڑے سے پیسوں کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے۔ لیکن پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ سب کچھ الٹ چل رہا ہے۔ جیب میں سو روپیہ ہے اس سے موٹر سائیکل ٹھیک کرانا ہے۔ اور پٹرول بھی ڈلوانا ہے۔ ایسے حالات میں لڑائی جھگڑا تو ہوگا۔ اگر آپ کی جیب میں پیسہ ہے۔ تو پھر آپ مطمئن ہیں۔ پاکستان میں پیسے کا نہ ہونا بہت سی بیماریوں کی وجہ ہے۔ گھر کا سربراہ مسلسل کام کر رہا ہے۔ اور باقی تمام لوگ اسی پر انحصار کر رہے ہیں۔

اگر پاکستانی معاشرے میں بھی سب لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کرنا شروع کر دیں۔ تو حالات بدل سکتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کو تعلیم دلانا نوکری کا بندوبست کرنا ان کی شادی کرنا ان کا گھر بنانا یہ سب ذمہ داریاں والدین پر ڈال دی جاتی ہیں۔ اور پھر شادیاں بھی ایسی کرنی ہیں۔ ایک شادی پر پچیس تیس لاکھ روپیہ خرچ کر دینا۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان میں LKKG یعنی لوگ کیا کہیں گے اور اس کمبخت ناک نے بڑا کام خراب کیا ہوا ہے۔

شادی بھی سادگی سے نہیں کرنی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ گھر بھی چھوٹا سا نہیں بنانا۔ لوگ کیا کہیں گے۔ شادی عام خاندان کے اندر نہیں کرنی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ چھوٹا موٹا کام نہیں کرنا لوگ کیا کہیں گے۔ اور ماشاءاللہ تعلیم بھی ایسی حاصل کر رہے ہیں۔ سب تھیوری پر رٹا لگ رہا ہے۔ پریکٹیکلی کچھ بھی پتا نہیں۔ یعنی بی ایس کر رہے ہیں اور سسٹم کو آن کرنے کا پتا نہیں۔ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بہت فقدان ہے۔ درسگاہوں میں تربیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

کیا ہی اچھا ہو۔ پرائمری سکول سے اساتذہ تربیت پر بچوں کو تعلیم دیں۔ یعنی بچہ سکول سے آتا ہے۔ آتے ہی سکول بیگ ایک طرف، جوتا ایک شمال ایک جنوب میں۔ آ کر کسی گھر والے کو اسلام علیکم نہیں بولا۔ آ کر یونیفارم نہیں بدل رہا اپنا منہ ہاتھ نہیں دھویا۔ یہ سب باتیں اساتذہ کی تربیت کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ انگلش کا ایک جملہ ہے۔ جس کا مفہوم ہے آپ کا عمل آپ کی زبان سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو قتل کر دینا معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پیسے کا نہ ہونا اور درسگاہوں میں تربیت کی کمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments