افغانستان میں پاکستان مخالف مظاہرے، ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے کا ردِعمل یا کوئی اور وجہ؟


منگل کو پاکستانی سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہرے میں ایک خاتون نے پاکستان مخالف پوسٹر اُٹھا رکھا ہے۔

افغان طالبان نے جہاں ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے صوبے پنجشیر پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے وہیں ملک میں طالبان اور پاکستان مخالف مظاہروں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے دورۂ کابل کے بعد پاکستان مخالف مظاہروں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

منگل کو بھی پاکستانی سفارت خانے کے بغیر افغان مرد و خواتین نے ایک ریلی نکالی جسے منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔

‘پرامن احتجاج کے لیے طالبان سے اجازت لینا ہو گی’

طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے اپنے ایک تازہ بیان میں مظاہرین کو طالبان رہنماؤں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور اشتعال انگیز ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے گریز کی تنبیہ کی ہے۔

طالبان ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں اگر کوئی پُرامن احتجاج کرنا چاہتا ہو تو انہیں طالبان کو احتجاج کے مقام کی پیشگی اطلاع کے بعد اجازت دی جا سکتی ہے۔

امریکہ کی اسٹین فوڈ یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر طبقات افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا ذمے دار پاکستان کو ٹھیراتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک بہت لمبی تاریخ ہے۔ کیونکہ پاکستان ستر کی دہائی سے افغانستان کی سیاست میں ایک فریق کے طور پر شامل رہا ہے۔ اسی کی دہائی میں پاکستان نے پہلے روس مخالف مجاہدین کا ساتھ دیا پھر نوے کی دہائی میں طالبان کی حمایت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ افغان سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کو ہمیشہ سے پاکستان کے کردار پر بہت زیادہ تحفظات رہے ہیں۔

ڈاکٹر اسفند یار میر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس چیف جنرل فیض حمید کے حالیہ دورۂ افغانستان نے افغان عوام کے جذبات کو مزید مشتعل کیا ہے۔

یاد رہے گزشتہ ہفتے پاکستانی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پاکستانی حکام کے ساتھ کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے کی پیالی تھامے نظر آئے تھے جس کے بعد ملکی اور غیر ملکی زرائع ابلاغ میں ان کے اس ایک روزہ دور نمایاں طور پر پیش کیا گیا۔ صحافیوں کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ ‘سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔’

ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ جنرل فیض کے دورے اور اُن کی باڈی لینگوئج سے پاکستان کی افغانستان کے سیاسی مداخلت کے تاثر کو تقویت ملی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجشیر کے عوام طالبان سے قطعی طور پر خوش نہیں ہیں اور وہ ہر جگہ پر طالبان کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ لہذٰا مستقبل میں پاکستان مخالف جذبات میں مزید شدت آئے گی۔ جس کے بعد حالات میں مزید بگاڑ کا خدشہ ہے جو کہ طالبان کے لیے بھی ایک بہت بڑا ٹیسٹ ہے کہ وہ ان مخالف آوازں سے کیسے نمٹیں گے۔

افغانستان کی کاتب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ پروفیسر رامش سالمی نے دعویٰ کیا کہ حالیہ احتجاج احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے کہنے پر کیے گئے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ احتجاج میں شریک افراد کا تعلق افغانستان کی قوم پرست تحریک سے تھا جو افغانستان کی موجودہ صورتِ حال سے خوش نہیں ہیں۔

پاکستان مخالف نعرے بازی کے حوالے سے رامش سالمی کا کہنا تھا کہ افغان عوام مایوسی اور خوف کا شکار ہیں۔ وہ اپنے احتجاج کے ذریعے بنیادی ضروریات، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

کابل سے احتجاج میں شریک ایک خاتون نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ احمد مسعود کی کال پر نکلی ہیں اور افغانستان میں پاکستان کی مداخلت اور طالبان کی جانب سے پنجشیر کے لوگوں پر ممکنہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں گی۔

یاد رہے کہ احتجاج کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق پشتون نسل سے نہیں ہے۔

رامش سالمی کے مطابق افغانستان کے مختلف حصوں میں جاری یہ احتجاج قوم پرستوں کی جانب سے کرایا گیا۔ جس میں پاکستان مخالف نعرے اس وجہ سے لگائے گئے کیوں کہ افغان مایوسی کا شکار ہیں اور انہوں نے احتجاج کے ذریعے مزاحمت کا عندیہ دیا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جنرل فیض حمید کے دورۂ کابل پر کہا تھا کہ امریکہ، قطر اور ترکی کے انٹیلی جنس حکام بھی کابل کے دورے کر چکے ہیں۔ لہذٰا ایک ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے جنرل فیض کا دورہ غیر معمولی نہیں تھا۔

پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی افغانستان میں اس کا کوئی پسندیدہ دھڑا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں جامع حکومت چاہتے ہیں۔

پاکستان نے فی الحال طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی نہیں کیا اس کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ عالمی برادری کے اتفاقِ رائے سے ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments