پاکستان: دو ماہ میں 7 ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ ملکی معیشت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟


پاکستان کو رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران تاریخی تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جولائی اور اگست میں ساڑھے چار ارب ڈالرز کے لگ بھگ برآمدات کے مقابلے میں 11 ارب ڈالرز کی درآمدات ہوئیں۔ یوں تجارتی خسارہ 7 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ کا ریکارڈ کیا گیا۔

صرف ماہ اگست کی بات کی جائے تو پاکستان کو مجموعی طور پر چار ارب 22 کروڑ ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی بھی ایک مہینے میں سب سے زیادہ خسارہ ہے۔ اس سے قبل جون 2018 میں پاکستان کو تین ارب 77 کروڑ ڈالرز کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق جولائی اور اگست 2021 میں تجارتی خسارہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت 120 فی صد بڑھا۔ اور اگر رواں سال اگست کا موازنہ پچھلے سال اگست سے کیا جائے تو تجارتی خسارے میں 144 فی صد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔

دوسری جانب خسارہ زیادہ ہونے سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت دن بدن گر رہی ہے۔ اس وقت پاکستانی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک سال کی کم ترین سطح پر موجود ہے۔ جس سے ملک میں افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تجارتی خسارے اور پاکستانی کرنسی پر دباؤ میں افغانستان کی صورتِ حال کا کردار

فنانشل مارکیٹ کے ماہر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال نے پاکستان کو بھی دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔

ان کے بقول، وہاں امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی فنڈنگ بند ہونے سے ڈالر کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان سے روزانہ دو ملین (بیس لاکھ) ڈالرز کے لگ بھگ رقم افغانستان منتقل ہو رہی ہے۔ یوں پاکستان میں ڈالرز کی مانگ بڑھی، نتیجے کے طور پر پاکستان کی کرنسی کی قیمت میں کمی دیکھی گئی۔ اسی طرح بہت سی اشیائے خورونوش بھی پاکستان کے راستے افغانستان قانونی یا غیر قانونی منتقل ہوتی ہیں جس کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔

‘پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی اصل وجہ تجارتی خسارہ ہے’

لیکن ان کے خیال میں پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی اصل وجہ تجارتی خسارہ ہے یعنی پاکستان کی درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملک میں ایسا کیا منگوایا جارہا ہے جس سے پاکستان کا تجارتی خسارہ اس قدر زیادہ ہوگیا؟ خرم شہزاد نے بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں کھپت پر مشتمل اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں گاڑیاں، غذائی اشیاء اور موبائل فونز جیسی اشیاء بڑی تعداد میں منگوائی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مرکزی بینک کی جانب سے عارضی اکنامک ری فائننس فیسیلیٹی کے تحت 600 سے زائد کاروبار نے 435 ارب روپے سے زائد کا قرضہ حاصل کیا۔ تاکہ نیا کاروبار شروع کیا جا سکے یا پھر پہلے سے موجود کاروبار کو مزید وسعت دی جائے۔

ان کے بقول، گذشتہ چند ماہ میں اس اسکیم کے تحت منگوائی گئی مشینری کی ادائیگی بھی انہی چند ماہ میں کی گئی ہے جس کی وجہ سے بھی تجارتی خسارے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

‘عالمی منڈی میں غذائی اجناس کی قیمتیں زیادہ ہونے سے خسارہ بڑھا’

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غذائی اجناس کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی درآمدی بل بڑھانے کا سبب بنیں۔

ماہر اجناس شمس اسلام کا کہنا ہے کہ ملک میں کھانا پکانے کا تیل، دالیں، چائے اور ڈیری مصنوعات بڑے پیمانے پر منگوائی جا رہی ہیں۔ جن پر کثیر زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ جب کہ گذشتہ ماہ پاکستان نے گندم کی کم پیداوار کے باعث چار لاکھ ٹن گندم منگوانے کی بھی اجازت دی۔ اور اسی طرح دو لاکھ میٹرک ٹن چینی بھی برآمد کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کے بقول، یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ فرٹیلائزر اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی بڑی مقدار میں بیرون ملک سے منگوائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر اشیاء پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں اور اس میں تحقیق کو ترقی دے کر ان کی پیداوار میں با آسانی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

خرم شہزاد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی درآمدی بل میں سب سے زیادہ حصہ اب بھی پیٹرولیم مصنوعات، خام پیٹرول اور قدرتی گیس کا ہے۔ پاکستان نے صرف جولائی میں 103 ارب روپے کی پیٹرولیم مصنوعات خریدیں، جس میں 60 ارب روپے کا خام پیٹرول اور 43 ارب روپے کی مائع قدرتی گیس شامل ہیں۔

درآمدات بڑھنے کا فائدہ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات بڑھنے کا فائدہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ اگر ان میں نئی مشینری یا ایسی اشیاء منگوائی جائیں جس سے آگے چل کر ملکی معیشت کو کوئی فائدہ ملے۔ ایک فائدہ حکومتی ٹیکسز کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو درآمدات سے لگ بھگ 55 فی صد آمدن ہوتی ہے۔

ایف بی آر نے اگست کے آخر میں جاری اعداد و شمار پر کہا تھا کہ اس نے جولائی اور اگست میں ہدف سے 23 فی صد اضافی ٹیکسز وصول کیے۔ جس سے امید ہے کہ رواں سال وصولیوں کا ہدف با آسانی پورا ہو جائے گا۔

‘برآمدات میں بھی اضافہ تو ہوا لیکن نسبتا بہت کم’

البتہ رواں سال اگست کے مقابلے میں گزشتہ سال اگست کی نسبت ملکی برآمدات میں 43 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جس میں ٹیکسٹائل، کاٹن فیبرک، چاول، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء کی برآمدات میں اضافہ شامل ہے۔

پاکستان کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کے مطابق رواں سال اگست میں ٹیکسٹائل، مینز گارمنٹس، کاٹن فیبرک، جرسیز، پھل، سبزیاں اور ٹی شرٹس کی برآمدات میں اگست 2020 کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔

اسی طرح پاکستان سے خدمات کی برآمدات میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود یہ اضافہ حکومت کی جانب سے اُس ماہ کے لیے مقرر کیے گئے 2.4 ارب ڈالرز ہدف سے کم رہا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے اس سال برآمدات کا ہدف 38.7 ارب ڈالرز مقرر کیا ہے جب کہ اس سے قبل گذشہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی برآمدات 25.29 ارب ڈالرز رہی تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی خسارہ جو سال 2020 سے مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے، اس کی اصل وجہ جہاں درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ ہے وہیں برآمدات میں نسبتاً کمی ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ایکپسورٹ انڈسٹری کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔

ان کے بقول، سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ معیار کو بہتر بنایا جائے تاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی تیار کردہ مصنوعات سستی اور معیاری ہوں۔ اس کے ساتھ مصنوعات کی ورائیٹی میں اضافے کے ساتھ نئی منڈیوں کی تلاش کو بھی اہم سمجھا جارہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments