انڈین مسلح افواج میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کی راہ ہموار


Women officer contingent of the Indian Army march during the Army Day parade at Delhi Cantt on January 15, 2015 in New Delhi.
انڈین فوج میں سنہ 1992 سے خواتین افسران کو شامل کیا جا رہا ہے
انڈیا کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلح افواج میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔

بدھ کے روز حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ خواتین ملٹری کالجوں میں داخلہ لے سکتی ہیں اور مستقل کمیشن کے لیے اہل ہو سکتی ہیں۔

یہ فیصلہ ایک ماہ سے بھی کم وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ نے خواتین کو انڈیا کی نیشنل ڈیفینس اکیڈمی (این ڈی اے) میں امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دی تھی۔

انڈیا کی 14 لاکھ فوج میں صرف 0.56 فیصد خواتین ہیں۔ جس میں فضائیہ میں 1.8 فیصد جبکہ بحریہ میں 6.5 فیصد نمائندگی ہے۔

بدھ کے روز حکومت نے انڈین مسلح افواج کے مشترکہ دفاعی خدمات کے تربیتی ادارے این ڈی اے میں کورس کرنے کے لیے خواتین امیدواروں کے لیے ہدایات وضع کرنے کے لیے وقت طلب کیا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’مسلح افواج کا کردار بہت اہم ہے لیکن افواج میں صنفی مساوات کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ عدالتوں کی جانب سے مداخلت کا انتظار کرنے کے بجائے صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے خود ایک فعال انداز اپنائیں۔‘

اگست میں عدالت نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ خواتین کو این ڈی اے کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت نہ دینے پر ‘رجعت پسندانہ ذہنیت’ رکھتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ’یہ ایک پالیسی فیصلہ ہے جو صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔‘

اس وقت خواتین کو شارٹ سروس کمیشن (ایس ایس سی) کے ذریعے فوج میں شامل کیا گیا ہے اور وہ مستقل کمیشن کے لیے اہل نہیں ہیں جو کہ ایک افسر کو مکمل مدت تک خدمات انجام دینے کا اہل بناتا ہے۔

چنانچہ خواتین ابتدائی طور پر پانچ سال تک خدمات فراہم کرتی ہیں لیکن ان کے پاس اپنی مدت میں توسیع کا اختیار ہے۔ تاہم انھیں اپنے مرد ہم منصبوں کی طرح مراعات حاصل نہیں ہوتیں۔

انڈین فوج کے صرف قانونی اور تعلیمی شعبے ایسے ہیں جہاں خواتین افسران 2008 سے مستقل کمیشن کے اہل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر خان کون ہیں؟

انڈین فوج ‘خواتین کے جنگی کردار کے لیے تیار نہیں ہے’

ہیلز میں مارچ کرتی خواتین فوجی اہلکار، ’یہ جنسی تعصب ہے‘

خواتین نے مسلح افواج میں بطور ڈاکٹر، نرسز، انجینئرز، سگنلرز، ایڈمنسٹریٹر اور وکیل کام کیا ہے۔

انھوں نے میدان جنگ میں فوجیوں کا علاج کیا، دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنایا، بارودی سرنگوں کا پتہ لگایا اور ہٹایا، اور مواصلاتی لائنیں بچھائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین نے جنگ لڑنے کے علاوہ تقریباً سب کچھ کیا ہے لیکن انھیں اب بھی پیادہ فوج اور آرمرڈ فوج میں خدمات انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp