مولانا طارق جمیل کے تابعین اور ناروے میں گاڑی چلانے کے اصول


وہ 2 ستمبر 2021 کی شام تھی، بھادوں تیسرے عشرے میں داخل ہونے کے قریب تھا۔ شامیں اور راتیں سرد ہونے کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ واک کرتا ہوا ملا کی دکان پہ پہنچا اور سڑک کنارے ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ ابرار جانی کو کہا مجھے پانی کی ٹھنڈی بوتل لا دو۔ آج کل لوگوں نے گھروں میں ہی پچیس پچیس ہزار روپے والے چھوٹے چھوٹے فلٹر پلانٹ لگائے ہوئے ہیں وہاں سے پانی کی بوتلیں بھر کے دکانوں پہ منرل واٹر کے طور پہ سپلائی کر دیتے ہیں۔

ملا آیا تو کہا کہ تبلیغی جماعت کے مرکز شب جمعہ کا بیان سننے چلتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا پرانا مرکز بہاول پور کے علاقہ شاہدرہ ماڈل ٹاؤن بی میں ہے وہاں بھی میں بہت سال پہلے گیا تھا کبھی کبھی اس مرکز کے سامنے واقع شاہد پرفیوم شاپ سے کنوج یا کمبوڈیا کا عود یا انگلینڈ سے درآمد کردہ ٹی روز عطر خریدنے چلا جاتا تھا۔ کئی ایکڑ پہ پھیلا ہوا نیا تبلیغی مرکز نواب آف بہاول پور کے بنائے ہوئے نور محل کے بالکل قریب بنایا گیا ہے تاہم اس سے قبل کبھی بھی وہاں نہ جا سکا تھا۔

ٹکٹ خرید کر کوئی بھی نور محل کو اندر سے دیکھنا چاہے تو جا سکتا ہے۔ میری پیدائش بہاول پور کی ہی ہے لیکن میں اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی یہاں کے بڑے شاہی محلات کو اندر سے نہیں دیکھ سکا۔ وجہ۔ وجہ یہ کہ مجھے دنیا بھر کے شاہی محلات سے وحشت سی ہوتی ہے۔ مجھے یہ اچھے نہیں لگتے۔ ہاں میری جاب کی نیچر ایسی ہے کہ ہو سکتا ہے کبھی مجھے مجبوراً ان محلات کے اندر بھی جانا پڑے۔ زندگی میں کبھی مجھے تاج محل کو بھی براہ راست دیکھنا پڑا تو اسے اندر سے دیکھنے کی بجائے باہر بنے ڈھابہ پہ چائے پینا زیادہ اچھا لگے گا۔

میں کیا کروں میرا مزاج ہی ایسا ہے۔ آج کل بہاول پور شہر کو ٹوور ازم کے حساب سے ایک ماڈل بیوٹی فل سٹی بنانے پہ کام ہو رہا ہے لیکن سچ بتاؤں مجھے کام کرنے کا یہ انداز پسند نہیں آ رہا۔ ایسا لگتا ہے پراجیکٹ کو ڈیزائن کرنے والے ذہن اناڑی ہیں۔ شاید وجہ یہ ہو کہ مختلف ٹریول چینلز پہ فرانس، اٹلی، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، بلجیم، فن لینڈ اور دیگر بہت سارے ممالک دیکھ دیکھ کے میرا ذہن بہاول پور میں ٹوور ازم سٹی بیوٹیفیکیشن کے حساب سے جو معیار چاہتا ہے اس معیار کو یہاں نہیں اپنایا جا رہا۔ خیر۔

مجھے تبلیغی مرکز کے صحن میں لگی سرخ ٹھنڈی اینٹوں کے فرش پہ بیٹھنا بہت اچھا لگا۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی اکثریت اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پہ انھیں معصوم اور بے ضرر لوگ سمجھتا ہوں۔ مغرب کی نماز کے بعد ایک عمر رسیدہ بزرگ نے اپنی تقریر شروع کی۔ بہت اچھی اور پیاری پیاری باتیں کیں لیکن دو باتیں ایسی کر گئے جو مجھے عجیب لگیں۔ پہلی بات یہ کی کہ یہ جو سیاسی جماعتیں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتی ہیں تو یہ کفر ہے۔ دوسری بات بزرگ مقرر نے یہ کی کہ وہ بذات خود مصر گئے تھے جہاں شاید انھوں نے اہرام مصر بھی دیکھے ہوں، کسی مفتی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب حضرت موسیٰ (ع) نے فرعون کے دربار میں اپنا عصا پھینکا تو اس سے جو اژدھا بنا اس کے منہ کا دھانہ ایک میل تک پھیلا ہوا تھا۔

دیکھیں، بلا شبہ یہ حقیقت ہے کہ کائنات کا رازق اور مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس پاک ذات نے اسباب کا ایک نظام بنایا ہے۔ وہ اس بات پہ قادر ہے کہ چاہتا تو انسانوں کو اپنی روزی کے لیے کسی قسم کی کوئی محنت ہی نہ کرنا پڑتی سب کچھ آسمان سے پکا پکایا اترتا رہتا لیکن اس نے چاہا کہ انسان محنت کرے، کام کرے۔ مغرب نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھا کہ ریسرچ کرو، محنت کرو اور یہ کہ اسباب کا سسٹم اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔

مسلمانوں میں پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہی یہ رہی کہ انھوں نے اسباب کو ”کفر“ سمجھا اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہے۔ اس بلاگ کے ذریعے مولانا طارق جمیل سے گزارش ہے کہ آپ تبلیغی جماعت کے تمام مرکزی و دیگر مقررین کے لیے ایک پالیسی جاری کریں کہ وہ اپنی تقریروں میں ایسا کوئی انداز نہیں اپنائیں گے جس سے لوگ سائنس و ٹیکنالوجی اور اسباب کے سسٹم کو کفر سمجھیں اور یہ کہ وہ ناکارہ ذہن بن کے بیٹھ جائیں۔ چونکہ مولانا طارق جمیل سے محبت کرنے والے اور ان کی تقریروں سے اثر لینے والوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے تو ان سے ایک اور درخواست بھی ہے کہ اپنی تقریروں میں لوگوں کو نصیحت کیا کریں کہ وہ شادی کے نام پہ اپنی بہنوں بیٹیوں کو فروخت نہ کیا کریں۔

عورت بھی ایک انسان ہے گائے بھینس کی طرح فروخت کی جانے والی کوئی چیز نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی ایسے رسم و رواج والے علاقے موجود ہیں جہاں لوگ اپنی سگی بیٹی اور بہن کی شادی کے بدلے میں رقم لے لیتے ہیں۔ اصل میں عربوں میں ایک رواج چلا تھا کہ دلہن کے جہیز کا بندوبست دلہا والے کریں گے جو آہستہ آہستہ بگڑ کر یہ روپ اختیار کر گیا کہ دلہا والے جہیز خریدنے کے لیے دلہن کے باپ یا بھائیوں یا چچا وغیرہ کو نقد رقم دیں گے۔

اب اس رقم سے کچھ لوگ تو ضرورت کا سامان خرید کے دلہن کے ساتھ دے دیتے ہیں لیکن کچھ جگہوں پہ چاہے محدود پیمانے پہ ہی یہ ہوا کہ دلہن کے باپ اور بھائیوں نے مکمل رقم اپنے پاس رکھنا شروع کر دی اور پھر نیا تصور سامنے آیا کہ دلہن کی قیمت ادا کر دی گئی ہے۔ اس میں سب سے بڑی قباحت یہ آئی کہ عورت کے بیوہ ہونے کے بعد بھی اسے سسرال کی باقاعدہ ملکیت سمجھا گیا اور ان کا یہ حق سمجھا گیا کہ چاہے تو اپنے خاندان میں اس کا بیاہ کر دیں یا اسے آگے کسی شخص کے ہاتھوں دوسری شادی کے نام پہ فروخت کردیں۔ یہ رواج عرب ممالک، ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، چیچنیا، افغانستان، کرغیزستان، افریقہ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ یہ چین، منگولیا، تائیوان وغیرہ میں بھی ہے۔

5 ستمبر 2021 کی شام تھی میں چاچا منا کے موٹر رکشہ میں بیٹھا شہر کے اندر ہی سفر کر رہا تھا۔ عوام کا ایک ہجوم تھا کیا بوڑھے، کیا جوان اور کیا چھوٹے بچے جی ہاں آٹھ سال سے لے کر ٹین ایجر عمر کے بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلائے سڑک پہ آئے ہوئے تھے۔ اور ٹیک کر رہے تھے۔ گاڑی اور موٹر سائیکل کو بلاوجہ تیز دوڑا رہے تھے۔ کئی گاڑیاں اور بائیکس آپس میں بمشکل ٹکرانے سے بچ پا رہے تھے۔ ہمارا رکشہ بھی بار بار ایکسیڈنٹ سے بچ رہا تھا۔ میں اندر بیٹھا مسلسل یا حافظ یا حفیظ یا سلام استغفراللہ کا ورد کر رہا تھا۔ اچھا سڑک پہ گاڑیوں کا بہت زیادہ رش ہو، ایکسیڈنٹ کے امکان والی کیفیت ہو تو دل میں گھبراہٹ سی بھی آ جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی میں ہجوم اور ٹریفک میں جانے پہ ہو جانے والی گھبراہٹ اور دل کی دھڑکن تیز ہونے کی دوا جیلسیمیم Gelsemium۔ 30 ہے ویسے تو Crataegus-30 بھی دل کے ٹشوز کو مضبوط کرتی، تیز دھڑکن پہ قابو پاتی، ہائی بلڈ پریشر کو نیچے نارمل پوزیشن پہ لاتی اور گھبراہٹ دور کرتی ہے۔

اکبر شیخ اکبر کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں لوگ بلاوجہ بھی کار اور موٹر سائیکل لے کر گھر سے باہر سڑک پہ آ جاتے ہیں اور پھر ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ میں ایک ٹریول چینل کی بنائی ہوئی ڈاکو مینٹری ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں سیکنڈے نیویا ملک ناروے کو دکھایا جا رہا تھا۔ اس میں دعوٰی کیا گیا کہ وہاں کی حکومت نے سڑکوں پہ ٹریفک جام اور فضا میں آلودگی سے بچنے کے لیے یہ قانون بنایا ہے کہ کوئی بھی گاڑی چند مرتبہ تو گھر سے باہر اندرون شہر کی مرکزی سڑکوں پہ آ سکتی ہے مثلاً آفس جانا ہے، بچوں کو اسکول چھوڑنا ہے یا اور کوئی لازمی ضروری کام لیکن گاڑی بار بار گھر سے باہر اندرون شہر کی سڑکوں پہ آئے گی تو آٹو میٹک کیمرے کنٹرول روم میں لگے کمپیوٹرز کو پیغام دیں گے کہ فلاں نمبر کی گاڑی شہر کی سڑکوں پہ آنے کی اپنی حد سے تجاوز کر چکی ہے اور پھر کمپیوٹرز جرمانہ کی ٹکٹ بھیج دیتے ہیں۔

یورپ میں یہ سسٹم بھی ہے کہ گاڑی نے ایک بار ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کی تو فرض کیا پہلا جرمانہ سو ڈالر کا ہوا تو دوسری بار خلاف ورزی پہ دو سو ڈالرز اور تیسری بار پہ چار سو ڈالرز کا ہوگا۔ وہاں غلط پارکنگ پہ کئی سو ڈالرز کا جرمانہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیائی حکومتیں شہر کی سڑکوں پہ ٹریفک کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی متعارف کرائیں۔ مجھے یورپ پہ بنائی جانے والی ویڈیوز میں ٹرام چلنے کے مناظر بہت اچھے لگتے ہیں۔ کاش جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھی خوبصورت ٹرامیں چل رہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments