افغانستان ترقی کرے گا، لیکن پاکستان؟



مبارک ہو، آج طالبان نے نئی حکومت کا اعلان کر دیا۔ 20 سال کی جنگ کے بعد ایک اور عبوری حکومت آخر کار بن ہی گئی ہے۔ وہ کیا کام کرے گی؟ کیسے کرے گی؟ آگے کیا ہو گا؟ اس نئی حکومت کو کیا مشکلات پیش آئیں گی؟ یہ چل بھی پائے گی کہ نہیں؟ یہ اور اس جیسے اور کئی سوالات کا جواب ہمیں وقت ہی دے سکے گا۔ لیکن میرا موضوع تو کچھ اور ہے۔

افغانستان کی کل آبادی، 2020 کے اندازوں کے مطابق 32، 890، 171 ( تین کروڑ اٹھائیس لاکھ، نوے ہزار ایک سو اکہتر) ہے، جو اسے دنیا کا 43 (تینتالیسواں ) بڑا ملک بناتے ہیں۔ اور اس کا کل رقبہ 652864 اسکوئر کلومیٹر ہے، اور اس ملک کے 34 صوبے (ایڈمنسٹریٹیو یونٹ) ہیں۔ اور صوبوں کو گورنر چلاتے ہیں۔

جی آپ نے بالکل درست پڑھا، افغانستان کے کل صوبوں کی تعداد 34 ہے۔

اب ہم ذرا جلدی سے تھوڑا سا مطالعہ پاکستان میں پڑھے گئی، پاکستان کے بارے میں کچھ معلومات کو دہرا لیتے ہیں۔

پاکستان کی کل آبادی، 2021 کے اندازوں کے مطابق 225199937 (بائیس کروڑ، اکاون لاکھ، ننانوے ہزار، نو سو سینتیس) ہے، جو ہمیں اس دنیا کا 5 (پانچواں ) بڑا ملک بناتے ہیں اور پاکستان کا کل رقبہ 881913 اسکوائر کلومیٹر ہے، اور پاکستان کے کل 5 صوبے ہیں۔

جی بالکل، ایک بائیس کروڑ ملک کی حامل پاپولیشن کے کل صوبے (ایڈمنسٹریٹیو یونٹس) 5 ہیں۔
اب ہم تھوڑا سا مزید اسے بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ایک اور مثال آپ کے سامنے رکھتے ہیں

صوبہ سندھ کی کل آبادی، 2017 کی مردم شماری کے مطابق، 47886051 ( چار کروڑ، اٹھہتر لاکھ، چھیاسی ہزار، اکاون) ، ہے مطلب افغانستان کی آبادی سے بھی 14995880 ( ایک کروڑ، اننچاس لاکھ، پچانوے ہزار، آٹھ سو، اسی) زیادہ۔

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہت سے عوامل کے ساتھ، اس ملک کی گورننس کو بہتر طور پر چلانے کے لئے ان کا بہتر طور پر ایڈمنسٹریٹیو یونٹس میں کام کرنا بھی ایک بہت اہم عمل ہوتا ہے۔ اب اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے، یہ حکومت کرپشن پر قابو پا کر ایک دیانتدار قیادت کے طور پر کام کر لیتی ہے، اور اداروں کو بھی دیانتداری کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیتی ہے تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں کے اگلے دس سال بعد ہم میں سے کئی افغانستان کی مثال دے رہے ہوں گے، جیسے کے کچھ بھائی لوگ بنگلہ دیش کی دیتے ہیں ( جس کی کل آبادی 16 کروڑ سے اوپر ہے اور اس کے بھی آٹھ ڈویژن ہیں ترکی کے 81 صوبے ہیں اور آبادی کوئی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے ) ، اور اتنی آبادی کے ملک کو چلانے کے لئے جو وسائل درکار ہو سکتے ہیں، تو میری ذاتی رائے میں تمام دنیا کو چھوڑ دیں، ہمیں بھی چھوڑ دیں، اور صرف چائنا، افغانستان کے ساتھ کھڑا ہو جا تا ہے، (جس کی اپنی آبادی ایک ارب، تینتالیس کروڑ ہے، مطلب یہ تین کروڑ تو ان کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔

تو اتنے عرصے میں افغانستان کو اسٹیبل ہونے میں کوئی مشکل نہیں آنی، اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ، کم آبادی کے اوپر، لوکل سطح پر فیصلہ سازی، پلاننگ، ایمپلیمینٹیشن اور کنٹرول کا ہونا ہے۔ تمام ادارے ایک چھوٹی آبادی میں تقسیم یونٹ کو نا صرف بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں بلکہ اس میں موجود عوام کو بہتر سروس بھی دے سکتے ہیں۔ جو اس ملک کی آبادی کی ترقی کا ایک اہم ترین جز ہے۔

جو بھائی لوگ بہت سے ملکوں کی مثالیں دیتیں ہیں، کہ دیکھو یہ ملک پاکستان کے بعد آزاد ہوا تھا اور آج دیکھو کہاں کے تو بھائی، آپ بھی تو دیکھ لیں کہ آپ خود اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

پاکستان کے بہت سے مسائل کی جڑ، اس کا بہت بڑے بڑے آبادی کے ایڈمنسٹریٹیو یونٹس کا ہونا ہے۔ بہت سی وجوہات کی بنا پر ہم آج تک صرف 5 یونٹس بنا سکے (اور اگر جنوبی پنجاب کو بھی شامل کر لیں تو بھی یہ چھ ہوں گے، مشکل سے وہ بھی اگلے پتہ نہیں کتنے سالوں میں)۔ عوام کے لئے ایک بہتر فیصلہ سازی، پلاننگ اور اس کی بہتر طور پر ایمپلیمینٹیشن کے لئے، چھوٹی آبادی پر مشتمل یونٹس کا ہونا اشد ضروری ہے، ہم اگر تھوڑی دیر کے لئے سندھ کی آبادی اور اس میں موجودہ ڈسٹرک سیٹ اپ کی بھی بات کر لیں، اور اسے بھی ایک ایڈمنسٹریٹیو سسٹم مان لیں تو بھی یہ اس وقت 29 ڈسٹرکٹس ہیں، جس میں بہت سے اداروں کا کنٹرول اور اختیارات ڈپٹی کمشنر، یا مئیر کے پاس ہے ہی نہیں، (اور اس اختیارات کی جنگ، وفاق، صوبائی حکومت، لوکل گورنمنٹ، ایڈمنسٹریٹر نظام، کنٹونمنٹ بورڈز وغیرہ وغیرہ نے بہت سے اداروں کو چو چو کا مربہ بنا دیا ہے، کراچی اس کی واضح مثال ہے ) جبکہ صرف سندھ ہی افغانستان سے آبادی کے لحاظ سے کوئی ڈیڑھ کروڑ زیادہ ہے۔

اور اگر آپ پنجاب، کے پی، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی آبادی اور ان کے رقبہ کو لیں لیں تو آپ بہت بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ ہم خود اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مسائل کی روٹ کاز کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں اور میری ذاتی رائے میں پاکستان کے چند بڑے مسائل کی روٹ کاز میں ہمارے مزید ایڈمنسٹریٹیو یونٹس کا نا ہونا بھی ایک بہت بڑی روٹ کاز ہے۔

اور اگر آپ افغانستان کی بات کریں تو کوئی سوا تین کروڑ کے ملک کا 34 صوبوں کے ساتھ کام کرنا، ان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ہو گی، اگر افغانستان میں مکمل امن قائم رہتا ہے اور حکومت بہتر طور پر اپنے شہریوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کر لے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں مزید ایڈمنسٹریٹیو یونٹس بنیں جو کسی بھی رنگ، نسل، زبان، ثقافت یا مخصوص علاقوں سے ہٹ کر صرف آبادی کی بنیاد پر ہوں اور وسائل کی تقسیم، ان کے استعمال، اختیارات کا مکمل نظام اور کنٹرول ان ایڈمنسٹریٹیو یونٹس کے اپنے پاس ہوں۔ تاکہ پاکستان کی عوام، ترقی اور خوشحالی کا ثمر بھی پا سکیں، اور انہیں ایک بہتر گورننس اور سروسز مل سکیں۔

اگر پاکستان کے تمام ڈویژنز کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے، اور وہ اس وقت جن ناموں اور حدود یا باؤنڈریز میں کام کر رہے ہیں، وہی قائم رکھی جائے تو یہ ایک ورک ایبل سلوشن ہو سکتا ہے، اس وقت سندھ کے 7، پنجاب کے 9، بلوچستان کے 7، کے پی کے 7، اور گلگت بلتستان کے 3 ڈویژنز ہیں، کل ملا کر 33 ڈویژنز بنتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے کل 33 صوبے بن سکتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈویژنل سطح پر اداروں کے کام کرنے، اختیارات اور وسائل کا نظام پہلے سے موجود ہے، جسے صوبائی درجہ دے کر انہیں اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس کے لئے صرف ایک بہت مضبوط سیاسی بصیرت، ہمت، جرات اور یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

راشد محمود خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد محمود خان

بلاگر تعلیم کے حوالے سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں اور نوجوانوں کی ایک غیرسرکاری تنظیم میں چیف ایگزیکٹیو افسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rashid-mehmood-khan has 15 posts and counting.See all posts by rashid-mehmood-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments