بے گھری کی لعنت


وہ اپنے بوائے فرینڈ کے کندھوں پر سر رکھ کر زار و قطار رو رہی تھی اور درد بھرے لہجے میں کراہتے ہوئے کہہ رہی تھی، ہنی، مجھے نہیں جینا۔ یہ دنیا رہنے کے قابل جگہ نہیں۔ بس مجھے مرنے دو۔ اس کا بوائے فرینڈ اسے تسلی دے رہا تھا، سویٹ ہارٹ، ایک نوکری چلی گئی تو کیا ہوا، تم اتنی پڑھی لکھی ہو، سمارٹ ہو، خوبصورت ہو، تمہیں کوئی بھی اچھی ملازمت مل جائے اپنے دل کو تسلی دو اور اتنی چھوٹی سی بات پر زندگی سے ناراض سے نہیں ہوا جاتا۔ نہیں میں زندگی سے ناراض نہیں لیکن اگر مجھے کبھی گلیوں پر سونا پڑے تو میں اس سے مرنے کو ترجیح دوں گی۔

تم گلیوں پر کیوں رہو گی، میں ہوں ناں، ہم اکٹھے رہیں گے، بوائے فرینڈ نے اپنی محبوبہ کے آنسو پوجتے ہوئے کہا۔ اپنے دوست کی بات سن وہ آنسو بہاتی ہوئی حسینہ کچھ دیر کے لیے چپ ہو گئی پھر بولی، مجھے تمہارے ساتھ پر فخر ہے لیکن یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا۔ مجھے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے، میں آزاد رہنا چاہتی ہوں۔ مجھے کسی کے سہارے نہیں جینا۔ لیکن دیکھو ناں اس مینجر نے مجھے کیسے بے عزت کر کے نوکری سے نکال دیا۔ میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے اس کے غیر پیشہ ورانہ رویے اور سٹاف کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

بوائے فرینڈ نے پھر اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تم اس مینجر کے خلاف لیبر ڈیپارٹمنٹ میں شکایت درج کروا دو اور اسے اپنے کیے کی سزا مل جائے گی۔ چلو اب چلتے ہیں کہیں باہر جا کر تمہاری پسند کا میکسیکن ڈنر کرتے ہیں۔ وہ مسکرائی اور اس نے اپنے دوست کو اپنی بانہوں میں لے کر خوب بھینچا اور اس کی ہونٹوں پر شکریے کی ایک پیاری بھی دی۔ وہ دونوں ڈنر سے فارغ ہو کر واک کرتے ہوئے گھر آ رہے تھے تو بوائے فرینڈ نے باتوں ہی باتوں میں پوچھا کہ اپنی جان لینے کا خیال تمہیں کیسے آیا اور دنیا میں کتنے ہی لوگ گلیوں میں زندہ رہ رہے ہیں تم کیوں مرنا چاہتی ہو۔

اپنے دوست کا سوال سن کر وہ رک گئی اور کہا چلو کسی پارک جاکر کھلی فضا میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ وہ قریبی پارک گئے، وہاں ایک بنچ پر بیٹھ کر باتیں کرنا شروع کر دیں، یہ اکتوبر کا مہینہ تھا، ہوا ذرا سرد تھی، درختوں کے پتے اپنا رنگ بدل رہے تھے، پارک میں اکا دکا لوگ واک کر رہے تھے لیکن وہاں مکمل خاموشی تھی۔ وہیں، اس اداس ماحول میں دلربا نے اپنی زندگی کی درد بھری داستان سنائی کہ وہ بے گھر ہونے سے کیوں ڈرتی ہے۔ اس نے کہا کہ، وہ اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک بے گھری کی لعنت کو بہت قریب سے دیکھ چکی ہے اور اس نحوست کا شکار بنتی آ رہی ہے۔ لیکن اب اگر ایسا ہوا اور زندگی اسے پھر اس مقام پر لے آئی تو وہ ایسے جینے سے مرنا پسند کرے گی۔

اس کہانی کا مرکزی کردار بے گھری کی لعنت میں شکار ایک چالیس سالہ خاتون ہے جو اپنی غلطیوں اور انا پرستی کی عادت کی وجہ سے گھر سے بے گھر ہو گئی۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ایک بڑے بنگلے میں رہتی تھی لیکن میاں بیوی کے درمیان بچے پیدا کرنے کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے طلاق ہو گئی۔ عورت نے اپنی پکی نس بندی کروا لی اور مرد کو اولاد چاہیے تھی۔

طلاق لینے میں عورت کی مرضی بھی شامل تھی لہذا عورت کو مرد کی جائیداد کا ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔ وہ عورت کسی خاص نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو چکی تھی، وہ کسی پر بھی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ انسانیت پر اس بے اعتباری کے پیچھے اس کے بچپن کا کوئی ٹراما تھا یا پھر جوانی کا کوئی صدمہ تھا جو بھلانا مشکل ہو تا ہے۔ وہ عورت اپنے کندھوں پر ایک ماں بننے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہ تھی، یہ اس لیے کہ وہ ایک غیر ذمہ دار ماں باپ کی اولاد تھی، وہ والدین جو بچوں کو پیدا کر کے دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کہانی کی ہیروئن سرخ بالوں وہ خوبصورت بچی تھی جسے ماں باپ نے پیدا کر کے کسی کے حوالے کر دیا اور وہ اپنی ایک دور کے رشتہ دار کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ جسے وہ اپنی خالہ کا گھر کہتی تھی۔ اس سنہری بالوں والی لڑکی کا نام کیتھی تھا۔ کیتھی کو ماں کے نام سے نفرت سی تھی اور شاید اسی لیے اس نے ماں نہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اپنا جسم اپنی مرضی کا نعرہ لگانے والی تحریک کی سرگرم رکن تھی اور اپنے جسم پر اختیار رکھنے کی اس قدر حامی تھی کہ وہ خودکشی تک کو جائز سمجھتی تھی۔

ماں کی کمی کا احساس اس کی زندگی میں اس قدر گہرا ہو چکا تھا کہ اسے اپنی روح پیاسی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ اس نے اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے کالی ماتا کی پوجا شروع کر دی۔ کیتھی ویسے تو زندگی میں کبھی بے گھر نہیں رہی لیکن اس کا بچپن اپنے ماں باپ کے گھر میں نہیں گزرا، جسے وہ اپنی بے گھری سے تشبیہ دیتی۔ اس کا بچپن جیسا بھی تھا اسے خالہ کے گھر کی چھت میسر تھی، ہائی سکول پاس کرنے کے بعد وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی۔

کیتھی کے بوائے فرینڈ کا لائف سٹائل ہپی تھا، وہ اپنی تفریحی بس میں رہنا پسند کر تا۔ وہ مہینے میں کچھ دن کام کرتا اور پھر اپنی بس پر سوار ہو کر ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ کیتھی کو بھی اس کا لائف سٹائل پسند تھا اور وہ اپنے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی۔ ہائی سکول پاس کرنے کے بعد اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا، اب وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جگہ جگہ کی سیر کرتی اور اپنی جوانی کے مزے لے رہی تھی۔

جوانی کی پہلی غلطی کیتھی کو بہت مہنگی پڑی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی عمر کے سترویں سال میں حاملہ ہو گئی۔ وہ ماں نہیں بننا چاہتی تھی اور اس نے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کی جس سٹیٹ میں وہ رہ رہے تھے وہاں بلا وجہ حمل گرانا، ایک ممنوعہ اور غیر قانونی فعل تھا لیکن دونوں نے چھپ چھپا کر اور کسی نہ کسی طرح اپنا پہلا بچہ ضائع کروا دیا۔ یہ جوانی کا وہ صدمہ تھا جو کیتھی کے اندر ایک ناسور بن کر پل رہا تھا۔ اسے اپنے پہلے بچے کی جان لینے کا غم تھا، وہ اندر ہی اندر سے اپنے آپ کو بچے کے قتل کی قصور وار ٹھہراتی تھی۔

وہ اداس رہنے لگی اور نشے کی عادی ہو گئی۔ اور دوسری طرف کیتھی اور اس کے بوائے فرینڈ کی جوانی اور عشق کی آگ بھی ٹھنڈی پڑنے لگی، ایک دن بوائے فرینڈ کسی کام کا بہانہ بنا کر گیا اور پھر کبھی کیتھی کو نظر نہیں آیا۔ وہ اپنی کھٹارا بس سمیت غائب ہو گیا۔ کیتھی اپنی خالہ کے گھر واپس لوٹ آئی مگر خالہ نے اسے گھر میں مستقل طور رہنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ کچھ دن اپنی پیاری آنٹی کے گھر رہی، اسی دوران نوکری تلاش کر لی اور فل ٹائم جاب کرنے لگی۔

جلد ہی وہ اپنی خالہ کے گھر سے لڑکیوں کے ایک ہاسٹل منتقل ہو گئی۔ اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی شروع کردی اور اکاؤنٹنگ کے شعبے میں گریجویشن کی۔ اپنے پہلے بوائے فرینڈ کی بے وفائی کے بعد وہ مرد ذات سے نفرت کرنے لگی۔ لڑکیوں کے ہاسٹل میں وہ اپنی ہم جنس روحوں کے ساتھ خوش رہنے لگی اور اسے اپنی ضرورتوں کے لیے کسی مرد یا کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ گریجوایشن کی ڈگری ملتے ہی کیتھی کو ایک بڑی لاء فرم میں کام کرنے کا موقع ملا۔

وہ ایک ہوشیار اکاؤنٹنٹ تھی اور جلد ہی باس کی نظروں میں آ گئی۔ باس اسے کمپنی کی دعوتوں میں ساتھ لے جا تا اور اس طرح کیتھی کو ہائی جینٹری کے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع مل گیا۔ کیتھی نے امیروں کی محفل میں آنے جانے کے آداب سیکھ لیے اور اس کا طرز زندگی بدلنے لگا۔ وہ خوبصورت او ر سمارٹ تو تھی ہی لیکن امیروں کی زندگی کے آداب سیکھنے سے اس کی شخصیت کو چار چاند لگ گئے۔

ایک دن، ایک بڑی محفل میں کپل ڈانس کرتے ہوئے امریکہ فوج کے ایک افسر نے کیتھی کا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑے جذباتی انداز میں پوچھا، کیا تم مجھ سے شادی کر و گی۔ کیتھی کو کرنل کی بے باکی پر پیار آیا اور اس نے اس پگلے فوجی افسر کو دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ دونوں جلد ایک بڑے ریسٹورنٹ میں ڈنر کے بہانے ملے۔ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کا سلسلہ آگے بڑھا اور بات شادی تک پہنچ گئی۔ ان کی شادی کے ابتدائی چند سال اچھے گزرے مگر دونوں میاں بیوی کے درمیان پھڈا اس وقت شروع ہوا جب فوجی نے دو عدد بچے پیدا کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار۔

کیتھی، ماں بالکل نہیں بننا چاہتی تھی اور اس نے اپنے خاوند سے ضد میں آ کر اپنی بچہ دانی تک نکلوا دی۔ وہ اپنے جسم کی رانی تھی اور اپنی سلطنت میں اپنی مرضی قائم رکھنا چاہتی تھی۔ وہ ایک اور زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوئی، وہ کسی اور کو اپنے جسم کا حصہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔ کیتھی نے اپنی انا کی تکمیل کی خاطر، اپنے جسم کا وہ حصہ ہی کاٹ ڈالا، جہاں ایک زندگی پلتی ہے، اس نے وہ مندر ہی ڈھا دیا جہاں جسم اور روح کا ملاپ ہو تا ہے۔

کیتھی کا بوائے فرینڈ اس کی زندگی کی کہانی سن کر حیران رہ گیا اور اس سے پوچھا، ڈارلنگ تمہیں ماں بننے سے اتنی چڑ کیوں ہے۔ کیتھی بولی، میں ایک ان چاہی اولاد ہوں، میرے ماں باپ بے گھر تھے، ان دونوں نے اپنے پیار کے رشتے سے انصاف نہیں کیا، وہ مجھے پیدا کر کے چھوڑ گئے اور میں اپنی خالہ کے گھر جوان ہوئی۔ میں نے اپنی ماں کی شکل تیس سال کی عمر میں دیکھی اور مجھے اپنے شرابی باپ کا چہرہ دیکھنا تو کبھی نصیب ہی نہیں ہوا۔ مجھے اپنی ماں سے شکایت ہے کہ جب وہ میری پرورش نہیں کر سکتی تھی تو اس نے مجھے اپنی کوکھ میں نو ماہ تک پالا کیوں؟

وہ پھر آنسو بہانے لگی اور کہا، میں نہیں چاہتی کہ میری بھی کوئی ایسی اولاد ہو جسے مجھے چھوڑ کر جا نا پڑے۔ ماں باپ کے بنا جو دکھ میں نے سہا، کاش، وہ کسی اور دیکھنا نصیب نہ ہو۔ کاش میرے ماں باپ بے گھر نہ ہوتے، مجھے بچپن میں اپنا کوئی گھر ملتا جس کی حسین یادیں مجھے زندگی سے پیار کرنا سکھاتیں۔ کاش میری پہلی محبت بھی کسی گھر میں پروان چڑھتی اور اس گھر کی ہر شے سے مجھے پیار ہوتا۔ کاش میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا، کاش میں پیدا ہوتے ہی مر گئی ہوتی۔

کیتھی کے بوائے فرینڈ نے اپنا اوور کوٹ اتار کر اس کے کندھوں پر رکھا اور کہا چلو اب رات بہت بیت چکی ہے، گھر واپس چلتے ہیں۔ پارک میں ویسے بھی بے گھر افراد نے آنا شروع کر دیا تھا جن سے سب خوف کھاتے تھے۔ وہ بے گھر رات دیر تک ڈاؤن ٹاؤن کے کسی شراب خانے کے باہر بیٹھے رہتے، کوئی رحم دل ان کو چند سکے خیرات دے دیتا تو وہ اسے گاڈ بلیس یو کی دعا دیتے پھر وہ باقی رات گزارنے کے لیے پارک آ جاتے۔ یہ بھی کیا انسانی المیہ ہے جس کا رونا حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے رویا کہ ”لومڑیوں کے رہنے کے لیے گڑھے ہیں، اور پرندوں کے لیے گھونسلے لیکن آدم کی اولاد کے سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

گھر واپس آتے ہوئے کیتھی اور اس کے بوائے فرینڈ نے کوئی بات نہیں کی۔ وہ دونوں بہت اداس نظر آ رہے تھے لیکن کیتھی کے دل کی بھڑاس نکل چکی تھی، اس کا کیتھارسس ہو چکا تھا اور وہ کسی حد تک اپنی جاب چلے جانے اور اپنے باس کے ناروا سلوک کے صدمے سے باہر آ چکی تھی۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنا شروع کر دیا لیکن چند ہی مہینوں کے بعد کچھ رقیبوں کی وجہ سے دونوں میں جدائی ہو گئی۔ کیتھی کو دوبارہ جاب مل چکی تھی۔ اس نے اپنا الگ اپارٹمنٹ لے کر رہنا شروع کر دیا لیکن چند ہی ہفتوں بعد اس کے ایکس بوائے فرینڈ کو خبر ملی کیتھی نے اپنی جان لے لی ہے۔

کیتھی کا دوست جو اس کا غم اچھی طرح سمجھتا تھا، اس نے بے گھر افراد کی زندگی پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بے گھر افراد کے مسائل مزید جاننا چاہتا تھا۔ اس نے کچھ ماہ کے لیے گلی کوچوں اور بے گھر افراد کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ وہاں اس نے جو دیکھا او ر مشاہدہ کیا وہ نا قابل بیان حد تک افسوس ناک تھا۔ ہر بے گھر فر دکے پیچھے دکھ اور درد کی ایک لمبی کہانی تھی۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی تھی جو اپنی زندگی میں کبھی کامیاب انسان تھے لیکن وہ اپنوں کے ستائے اور ڈسے ہوئے تھے۔ جن کے خاندان والوں کے سلوک نے انہیں زندگی کی اس پستی میں دھکیل دیا۔

اپنی تحقیق کے بعد کیتھی کا دوست اس نتیجے پر پہنچا کہ بے گھری کی لعنت، انسانیت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے اور تمام انسانوں کو مل کر اپنے دامن پر لگے اس داغ کو دھونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بے گھر افراد کے مسائل کو سمجھا جائے اور انہیں دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر بے گھری کے خاتمے کی طرف تو جہ نہ دی گئی تو پست زندگی جینے کے عادی لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو گا۔

بے گھر لوگ عبرت کا نشان ہوتے ہیں، ہم سب کے لیے اور ہم سب کو مل کر ہی ان نشانات کو بدلنا ہوگا۔ ہم سب یہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم انسان، جانوروں کے رویے بدل سکتے ہیں، انہیں اپنے گھر میں رکھ کر بچوں جیسا پیار دے سکتے ہیں اور انہیں اچھے استعمال میں لایا جا سکتا ہے تو اپنے جیسے انسانوں کو سدھارنا کون سی بڑی بات ہو گی، بس ایک ارادے کے بننے اور انسانیت کے نام پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے پھر خدا نے چاہا تو دنیا سے بے گھری کی لعنت ضرور ختم ہو سکتی ہے اور کسی کیتھی کو یوں نہیں مرنے پڑے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments