جہیز! ہمارے معاشرے کی درخشندہ مثال؟


ہمارے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ جہیز دینے کا ہے۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کتنے ہی لڑکے لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی۔

اور لوگ جہیز کی رسم کو کوسنے کے باوجود یہی کہتے ہیں کہ کیا کریں، جہیز لینا و دینا تو معاشرے کی روایت و ضرورت ہے۔ اس لیے استاد محترم نصرت جاوید کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ”جان کی امان پاؤں“ تو میرا سوال صرف اتنا ہے کہ آخر جہیز لینا دینا کیوں ضروری ہے۔ ؟ کیا ہم نئے کپڑے، جوتے اور گھر کا ضروری ساز و سامان جیسے کہ فریج، ائیر کنڈیشنر، جنریٹر، یوپی ایس، واشنگ مشین وغیرہ صرف شادی بیاہ کے موقع پر خریدتے ہیں اور باقی ساری عمر ایسی کسی شے کو خریدنے کا سوچتے بھی نہیں؟

نہیں ناں لیکن دوسری طرف زیادہ تر افراد کے لیے شادی صرف ایک دفعہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ تو شریک سفر کا انتخاب جو کہ زیادہ تر افراد کے لیے ایک دفعہ کا سودا ہوتا ہے، کے ساتھ جہیز کے سامان کو نتھی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ اس جہیز کے سامان نے چند ہی سالوں میں تبدیل ہو جانا ہے جبکہ آپ کا شریک حیات وہی رہے گا۔ شادی کا رشتہ اگر جھوٹ، جہیز و مکان کے لالچ اور دھوکہ دہی پر نہ استوار کیا گیا ہو تو یہ بہت مضبوط ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ہم نے یہ خبر پڑھی تھی کہ ایک جوڑے کی شادی کے سنء 2020 ء میں نواسی ( 79 ) سال پورے ہونے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے دنیا کے سب سے طویل عرصے تک شادی کے بندھن میں رہنے والا جوڑا تسلیم کرتے ہوئے سرٹیفیکیٹ عطا کیا ہے۔ اس خبر کا لنک یہ ہے

https://www.dawnnews.tv/news/1140806/

اب ذرا سوچیں کہ ہمارے ہاں سنء چالیس اور پچاس کی دہائی میں کتنی شادیاں صرف ریڈیو نہ دینے کی وجہ سے نہیں ہو سکی ہوں گی۔ اسی طرح سن 1960 کی دہائی میں بلیک اینڈ وائٹ اور سن ستر کی دہائی میں رنگین ٹی وی نہ دینے کی وجہ سے کتنی شادیاں نہیں ہو سکی ہوں گی۔ سن اسی کی دہائی میں کتنی شادیاں صرف وی سی آر نہ دینے کی وجہ سے نہیں ہو سکی ہوں گی۔ اور آج بلیک اینڈ وائٹ اور ٹیوب والے رنگین ٹی اور وی سی آر کو کوئی کوڑیوں کے مول بھی خریدنا پسند نہیں کرتا۔

جبکہ اس زمانے میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے کتنے جوڑے آج بھی موجود ہیں۔ تو ثابت کیا ہوا؟ شادی کا بندھن زیادہ پائیدار ہے یا کہ یہ اشیاء کہ جن کی تھوڑے ہی عرصے میں کوئی وقعت نہ رہی۔ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئر کے ساتھ تو وی سی آر سے بھی برا سلوک ہوا کہ ایک دہائی کا عرصہ بیتنے پر ان کی وقعت اور اہمیت ختم ہو گئی۔ اور آج کوئی بلو رے پلیئر کو بھی اہمیت نہیں دیتا کہ یہ سٹریم اور یوٹیوب کا زمانہ ہے۔ اسی طرح سن دو ہزار کی دہائی میں جنریٹر جہیز میں دینے پر بہت زور دیا جاتا تھا لیکن دو ہزار دس کے بعد شمسی پلیٹیں اور بیٹریوں نے مقبولیت عام پائی تو اب جنریٹر کو بھی کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں رہی کہ کون جنریٹر چلانے کے لیے اتنے مہنگے پیٹرول و ڈیزل اور موبل آئل کا بڑا خرچہ اٹھاتا پھرے۔

اس وقت تو بہت سارے ایسے دکاندار کہ جو شام کو دکان بند کر دیتے ہیں، وہ براہ راست شمسی پلیٹ سے پنکھے وغیرہ دن کو منسلک کر کے چلاتے ہیں تاکہ بیڑی خریدنے اور اس میں پانی ڈالنے و چارج کروانے کا خرچہ بھی بچ جائے۔ اب بہت سے لوگ اپنے گھروں میں ایسا نظام لگواتے ہیں کہ براہ راست شمسی پلیٹ سے آنے والے بارہ وولٹ کو دو سو بیس وولٹ میں تبدیل کر کے دن کو زیادہ بجلی والے بھاری آلات اس سے چلائے جائیں اور رات کو بیٹری سے صرف بارہ وولٹ والے بلب اور پنکھے ہی چلائے جائیں تاکہ بیٹری سے دو سو بیس وولٹ بنانے پر وہ جلد ختم نہ ہو جائے۔

اب ہر محلے میں آپ کو ایسے اکا دکا گھر مل جاتے ہیں کہ جو اپنے گھر میں بجلی کا سارا نظام ہی شمسی پلیٹوں کے ذریعے چلا کر واپڈا کی بجلی کے نخروں سے مکمل نجات پاء چکے ہیں۔ اس وقت استری، پنکھے، روم کولر، پانی کھینچنے کی موٹر اور دیگر کتنے ہی آلات ہیں کہ جو براہ راست بیٹری کے بارہ وولٹ سے چل جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو سر کٹوں میں ٹانکے لگانے والے کاویہ کے لیے بھی بارہ وولٹ سے چلنے والا ایلیمنٹ ہیٹر دستیاب ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر آنے والے سال چھ مہینے میں وہ آلات کہ جن کے ملنے یا نہ ملنے سے ہم لوگ شادی جیسے بندھن کو منسلک کر دیتے ہیں، وہ بدل رہے ہیں۔ چنانچہ اب عام واپڈا کی بجلی سے چلنے والے پنکھے، روم کولر، استریاں، گیزر اور وہ دیگر آلات کہ جن کے ملنے یا نہ ملنے کی شرط پر رشتے منظور یا مسترد کیے جاتے تھے، وہ چلتے ہوئے آلات ایک ہی دہائی میں بیکار قرار دے کر کباڑیوں پر لوہے کے بھاؤ میں کباڑ کے مول پر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ کباڑی اور بیچنے والے دونوں کو پتا ہوتا ہے کہ یہ چیز اب بھی چل سکتی ہے۔ مگر اب ان کے ڈی سی متبادل آ جانے سے صرف بجلی سے چلنے والے آلات کی وہ اہمیت نہیں رہی جو ایک دہائی پہلے ہوتی تھی۔

غریب گھرانوں کے لیے زیادہ جہیز لینے دینے کے معاملے میں مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر خدانخواستہ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو کیا اس کے علاج کے بدلے ڈاکٹر کو صوفہ یا فریج معاوضے میں پیش کریں گے اور کیا وہ ڈاکٹر اسے قبول کر لے گا۔ اس پر ایک واقعہ بقول استاد محترم سعد اللہ جان برق کے ”دم ہلانے لگا ہے“ تو چلیے بیان کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم بیمار پڑے تو ہسپتال گئے۔ باہر میڈیکل سٹور سے دوائی خرید رہے تھے کہ ہسپتال کے دروازے پر ایک ہنگامہ سا مچ گیا۔

اس وقت تو ہم اپنی خراب حالت کے پیش نظر فوری گھر چلے آئے بعد میں اخبار اور کچھ جاننے والوں سے پتا چلا کہ ایک ڈاکٹر کو کسی مریض کے لواحقین نے گولی مار دی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ انتہائی نازک حالت میں ایک مریض آپریشن کے لیے ڈاکٹر کے پاس لائے تھے۔ ڈاکٹر نے کوئی لاکھ روپیہ معاوضہ مانگا۔ تو ان کے پاس اس وقت نقد رقم نہیں تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر کو اس کے بدلے وقتی طور پر اسی وین کو دینے کی پیشکش کی جس میں وہ اپنے مریض کو ڈال کر لائے تھے۔

اور وعدہ کیا کہ وہ بعد میں رقم دے کر وین واپس لے لیں گے لیکن ڈاکٹر نہ مانا اور اس دوران مریض کی موت ہو گئی تو لواحقین میں سے ایک نے مشتعل ہو کر ڈاکٹر کو گولی مار دی۔ جس سے اس کا انتقال ہو گیا۔ یوں ان کا مریض بھی جاں بحق ہوا اور دوسرا قتل کے الزام میں جیل پہنچ گیا۔ اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کس وجہ سے ان کے پاس اس وقت رقم نہیں تھی۔ لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ کسی بھی وقت کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے اور اس سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس موبائل یا بنک اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہونی چاہیے کہ کسی حادثے کی صورت میں ڈاکٹر کا خرچہ پورا کیا جا سکے۔ اور اب تو بطور خاص کرونا وبا آنے کی صورت میں یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ یہ وبا کسی کو کسی بھی وقت اپنا نشانہ بناء سکتی ہے۔

رہ گئی یہ دلیل کہ اگر جہیز نہ دیا تو رشتہ داروں میں ناک کٹ جائے گی تو یہ ایک نہایت ہی بیکار قسم کا بہانہ ہے کیونکہ جس وقت کسی پر کوئی ناگہانی ٹوٹ پڑے تو کوئی ضروری نہیں کہ رشتہ دار آپ کی مدد کو آئیں۔ اپنے محلے کے اردگرد کے جاننے والوں سے پوچھیے تو وہ آپ کو ایسے کئی واقعات بتائیں گے کہ جن میں انتہائی قریبی رشتہ داروں نے وقت پڑنے پر کوئی مدد نہیں کی۔ آپ نے بھی یقیناً ایسے کئی واقعات سنے ہوں گے کہ جن میں سگے بہن بھائی استطاعت رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔

حالانکہ ہم اس بات کا انتخاب تو کر سکتے ہیں کہ کون سے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلق رکھیں اور کون سے کے ساتھ نہ رکھیں۔ لیکن بہنوں بھائیوں کا رشتہ قدرتی ہوتا ہے، اس میں کسی کے ساتھ کم یا زیادہ پیار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن آج کل کے دور میں جب ان رشتوں میں دراڑ آ چکی ہے تو دیگر رشتہ داروں کا کون گلہ کرے۔ چنانچہ رشتہ داروں، جاننے والوں کی محض جھوٹی تعریفیں سننے کے لیے اپنا ناقابل تلافی نقصان کرنا کون سی عقلمندی ہے؟

پھر یہ کہ اگر شادی ناکام ہو جائے تو اول تو سسرالی لڑکی کو جہیز ہی واپس نہیں کرتے ہیں اور اس بات پر بھی لوگوں کے مقدمے چلتے اور لڑائی ہو جاتی ہے۔ کئی دفعہ تو صرف اس جہیز کے سامان پر نوبت قتل مقاتلے تک آ جاتی ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو اور سسرال والے جہیز واپس کر دیں تو یا تو وہ لڑکی کے میکے میں کسی کونے میں بند پڑا امتداد زمانہ کا شکار ہوتا رہتا ہے یا پھر لڑکی کے میکے میں بھائیوں، بہنوں، بھابیوں کے تصرف میں آ جاتا ہے اور اس بات پر نند بھاوج میں لڑائی ہوتی ہے کہ میرے جہیز کا سامان کیوں استعمال کیا یا توڑا۔ اور دوسری صورت میں یہ سامان کباڑیوں یا استعمال شدہ سامان بیچنے والوں کی دکانوں پر پہنچ جاتا ہے جہاں دکاندار اس کے اتنے کم دام لگاتے ہیں کہ اس پر خرچ کی گئی رقم کا ایک تہائی بھی وصول نہیں ہو پاتا۔

تو ایسی صورت میں یہ وقتی تعریفیں اور کاغذ کے پتوں کا تاج محل بنانے کا کیا فائدہ؟

اسی طرح شادی کے موقع پر زیورات دینے کی بات ہو جائے۔ تو یہ بھی نہایت ہی فضول رسم ہے۔ کیونکہ سامان کی طرح زیورات کا معاملہ بھی یہی رہتا ہے کہ شادی کے بعد بھی زیورات بنوانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ چنانچہ انہیں بھی کسی رشتے کے قائم کرنے کے ساتھ جوڑنا نہایت ہی سطحی سوچ ہے۔ اول تو سنار خالص سونا استعمال ہی نہیں کرتے اور کسی بھی زیور میں لازما تانبے، پیتل اور دیگر دھاتوں کے ٹانکے وغیرہ لگاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ زیورات بیچنے جائیں تو سنار زیور میں موجود ٹانکے وغیرہ کی قیمت کاٹ ہی لیتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو یہ بھی ضرور کہے گا کہ جس سنار سے آپ نے یہ زیور خریدا تھا، اس نے اس میں ملاوٹ کی تھی۔ چنانچہ ایسی چیز خریدنے کا کیا فائدہ کہ جس میں دھوکا ہو۔

شادی پہلے ہی ایک ایسا رشتہ ہے کہ جس کے پائیدار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ یعنی یہ اس محاورے کی طرح کا معاملہ ہوتا ہے کہ جو اکثر چین کی بنی اشیاء کی پائیداری کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے کہ چلے تو چاند تک نہیں تو آدھے گھنٹے تک۔ اس حوالے سے بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً بریڈ پٹ اور انجیلینا جولی کی ناکام شادی کو دیکھ لیجیے۔ یا ٹام کروز کے کیٹی ہومز کو پا نے کے بارے میں اوپرا ونفری کی بزم میں صوفے پر اچھلنے کودنے کے مشہور زمانہ منظر کو یاد کیجئے۔

یہ تو وہ شادیاں تھیں جو جہیز وغیرہ جیسے لالچ کے نہ ہونے کے باوجود ناکام ہو گئیں۔ دنیا کے امیر ترین افراد بل گیٹس اور جیف بیزوز کی شادیاں جہیز وغیرہ کے لالچ نہ ہونے کے باوجود محض شخصیت کے ٹکراؤ کے سبب کامیاب نہ ہو سکیں۔ لالو پرشاد یاد دیو کے بیٹے کی ہندوستان کی انتہائی پرتعیش اور مہنگی ترین شادیوں میں سے ایک شادی کی مثال لے لیں جو ایک سال بھی نہیں چل سکی۔ پاکستانی ٹینس کے مشہور کھلاڑی اعصام الحق کی شادی کتنی دھوم دھام سے ہوئی مگر چھ مہینے بھی نہ چل سکی۔

چنانچہ ایک ایسا رشتہ جس کے ساری عمر چلنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، اس کو جہیز کے سامان اور زیورات کے ساتھ نتھی کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ سطحی اور قابل مذمت بات کسی اچھی رشتے کو محض کسی زیور یا برتن کے ملنے یا نہ ملنے سے مشروط کر دینا ہے۔ حالانکہ رشتہ ساری عمر کے لیے قائم ہوتا ہے جبکہ زیورات اور سامان وقتی شے ہے۔ کتنی ہی دفعہ لوگ شادی پر بنائے گئے زیورات تڑوا کر ان کے نئے زیورات بنوا لیتے ہیں کہ اب پرانے زیور کا چلن نہیں رہا۔ اور اس سارے عمل میں صرف سنار کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔

اس سے کئی گنا زیادہ بہتر یہ ہے کہ اگر اس نیت سے زیور بنوا رہے ہیں کہ کل کو بیٹی، بیٹے کو ضرورت پڑی تو ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس میں سنار کی ملاوٹ اور دھوکے کو نکالنے کے لیے بہتر ہے کہ سٹیٹ بنک سے سونے کا بسکٹ لے کر دلھن کو دے دیں کہ جب ضرورت ہو تو اس کا سونا بیچ دینا۔ اس کے علاوہ اپنی استطاعت کے مطابق حق مہر رکھیں اور یہ سوچ کر طے کریں کہ یہ وہ رقم ہے جو ہر صورت ادا کرنی ہے اور حق مہر کی رقم نکاح کے ساتھ ہی ادا کر دیں۔ یا اگر یہ سوچ کر دے رہے ہیں کہ طلاق کی صورت میں سامان اور زیور واپس لینا ہے تو پھر شادی کے معاہدے میں لکھوا لیں کہ حامل ہذٰا کو مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا۔ ورنہ دوسری صورت میں خواری مقدر ہوتی ہے کیونکہ مقدمہ ہونے کی صورت میں وکیل کا معاوضہ اور دیگر اخراجات ادا کرنا پڑتے ہیں، عدالتوں میں خجل خواری الگ ہوتی ہے اور اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ وکیل مخالف فریق سے نہ مل جائے۔

یہ بڑی غلط بات ہے کہ غریب شادی کے موقع پر جھوٹی نمود و نمائش کر کے امیروں کے جیسے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ امیر اور غریب کا کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا۔ مثلاً امیر اگر اپنے بیٹے یا بیٹی کو کئی کلو سونا اور دیگر اشیاء جہیز میں دے سکتے ہیں تو ان کے پاس اس سامان کو رکھنے کے لیے بڑے بڑے ذاتی بنگلے بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو کئی شہروں یا ملکوں میں ذاتی رہائش گاہیں ہوتی ہیں۔ اب اگر غریب شادی کے موقع پر امیر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں بھی کر کے دکھا دیں۔

جبکہ عموماً غریب کے پاس ایک دو کمروں کا ذاتی گھر بھی نہیں ہوتا اور اگر بڑی مشکل سے ہوتا بھی ہے تو بعض اوقات اس میں جہیز کا سامان رکھنے کی گنجائش کم پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح امیر بیمار پڑنے پر دوسرے ممالک سے مہنگا علاج کروا لیتے ہیں جبکہ غریب اپنے علاقے کے سرکاری ہسپتال سے دواء کا نسخہ تو لکھواء لیتا ہے پر اس کے پاس دوائی خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی۔ تو ایسی صورت میں صرف شادی کے موقع پر امیر سے مقابلہ کرنا نہایت ہی سطحی سوچ اور خود کو غربت کی دلدل میں مزید غرق کرنے کا آسان نسخہ ہے۔

اسی طریقے سے یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہمدردی سے کہا جاتا ہے کہ ہائے فلاں بے چاری کی جہیز یا کسی دیگر مسئلے کی وجہ سے شادی نہیں ہو سکی اور بیچاری کے بال سفید ہو گئے ہیں۔ اچھی بات ہے یہ ہمدردی کا اظہار کرنا لیکن آپ نے کبھی کسی مرد کے بارے میں لوگوں کو اس طرح اظہار افسوس کرتا نہیں دیکھا ہوگا کہ ہائے فلاں بے چارے کی شادی نہیں ہو سکی اور اب اس کی داڑھی اور سر کے بال سفید پڑ گئے ہیں۔ بے چارے مردوں کے لیے تو اس بارے میں کوئی ہمدردی کے دو بول بھی نہیں کہتا جو مردوں کے ساتھ ایک اور بڑی زیادتی ہے۔

حالانکہ غریب گھرانوں میں لڑکے اگر عمر میں بہنوں سے بڑے بھی ہوں تب بھی بہن کی شادی کرانے کی سعی میں بھائیوں کی عمر بیت جاتی ہے۔ تو اگر اس حوالے سے لڑکیوں سے ہمدردی دکھائی جاتی ہے تو لڑکے بھی اتنی ہی ہمدردی کے حق دار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ مسئلہ جتنا لڑکیوں کا ہے اس سے کچھ زیادہ لڑکوں کا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر چار پانچ بہن بھائی دو تین مرلے کے گھر میں پلے بڑھے ہیں تو بہن کو تو شادی میں صرف جہیز دینے کی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور اگر جہیز دے دیا جائے تو یہ لڑکی کے شوہر کا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے گھر میں کہاں رکھے گا۔ جبکہ دوسری طرف بھائیوں کے لیے یہ مسئلہ ہوگا کہ انہیں ایک یا دو کمرے کے مکان میں یا تو اس کو کئی منزلہ بناء کر اپنے لیے کمرے بنانے ہوں گے یا پھر بھائیوں کو الگ الگ کسی جگہ زمین لے کر گھر تعمیر کرنا ہوگا تب ہی ان کی شادی ہو سکے گی۔ یعنی یہ مسئلہ بہنوں کی نسبت بھائیوں کے لیے زیادہ گمبھیر ہے۔

لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اب معاشرے کے کچھ افراد میں اس حوالے شعور آنے لگا ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل آپ نے یہ خبر بی بی سی پر سنی ہوگی کہ دو وکیلوں کی آپس میں شادی ہوئی تو دلہن نے حق مہر میں اپنی عمر کے لحاظ سے دولھا سے بتیس قیدیوں کے مفت مقدمات لڑنے کا مطالبہ کر دیا۔

اس خبر کا لنک یہ ہے
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56734577

اسی طرح ایک دوسری شادی میں دلہن نے ایک لاکھ روپے کے برابر رقم کی کتابیں دینے کا مطالبہ کر دیا۔ اس خبر کا لنک یہ ہے۔

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56397341
یوں لگتا ہے کہ آہستہ ہی سے سہی لیکن معاشرے میں ارتقا اور سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام اور خلوص دل سے صرف اس لیے شادی کرتے ہیں تو ان کا رشتہ پائیدار ہوتا ہے جیسے کہ شعیب اور ثانیہ کی شادی لوگوں کی جانب سے ختم ہونے کی پیش گوئی کے باوجود اب تک قائم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments