کیا ناروے میں غربت بڑھ رہی ہے؟


دنیا کے امیرترین ممالک کے نام لیئے جائیں تو ناروے ان میں پوری شان و شوکت سے موجود ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ملک میں کچھ غریب لوگ بھی رہتے ہیں؟ اور یہ غریب کون ہیں اور کیوں غریب ہیں؟

غربت کو کس پیمانے سے ناپا جاتا ہے؟ کیا لوگ بھوکے سوتے ہیں؟ کیا والدین غربت سے مجبور ہو کر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں؟ کیا کوئی بچہ اسکول میں پھٹے ہوئے جوتے پہن کر آتا ہے؟ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ناروے میں غریب کسے کہا جاتا ہے۔

غربت کا گریڈ جاننے کے لیئے کوئی ایسا ٹھوس پیمانہ نہیں ہے لیکن اس بات پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ ناکافی غذا، بے گھری اور تن نہ ڈھانپ سکنا غربت کی نشانی ہے۔ اس قسم کی غربت ایک کامل غربت ہے۔ اس میں کوئی بحث نہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق ایک ڈالر روزانہ کی کمائی غربت کی نشانی ہے اور اسے دیکھیں تو ناروے میں کوئی غریب نہیں۔ لیکن اگر یوروپی یونین کی تعریف سامنے رکھیں تو ناروے میں بھی غریب پائے جاتے ہیں۔

ایک عام وضاحت غربت کی یہ ہے کہ اگر زندگی سہل اور باوقار طریقے سے نہ گذاری جا سکے تو یہ غربت ہے۔ اور اس قسم کے غریب لوگ ناروے میں ہیں جو روز مرہ ضروریات تو پوری کر لیتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بچت جو معاشیات کی ایک اہم ضرورت ہے اس مد میں بھی پیچھے رہتے ہیں۔

ناروے میں روٹی کپڑا مکان ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھوکا، بے گھر اور بے لباس نہیں ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ شہریوں کو غریب کہا جا رہا ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے ناروے اور صومالیہ کے بچوں کا تو ظاہر ہے نارویجین بچہ غریب نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک نارویجین بچے کو دوسرے نارویجین بچے سے موازنہ کیا جائے تو کہیں نہ کہیں فرق نظر آتا ہے۔ اور کہیں کہیں تو بڑا واضح فرق نظر آتا ہے۔ غربت سب سے زیادہ بچوں پر منفی طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔ وہ ذرا بڑے ہوتے ہی یہ بھانپ لیتے ہیں کہ ان میں اور دوسرے بچوں کے پہننے اوڑھنے میں فرق ہے۔

اسکولوں میں چونکہ یونیفارم سسٹم نہیں ہے اس لیئے بچے جو چاہیں پہن سکتے ہیں۔ اسکول میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے آتے ہیں۔ اب امیر خاندان کا بچہ اعلی برانڈ کے کپڑے پہن کر آتا ہے اور مہنگے جوتے پیر میں ہوتے ہیں۔ یہاں سے امیر و غریب کا موازنہ ہوتا ہے۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جب بچے واپس اسکول آتے ہیں تو اپنی تعطیلات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کہاں گئے۔ کس کس جگہ کی سیر کی۔ کیا کیا مزے کیئے۔ اسی جماعت میں چند بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہوتا اور وہ حسرت سے دوسروں کو تکتے رہتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ناروے میں پانچ سے دس فیصد آبادی غربت میں جی رہی ہے۔ امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ غربت جان لیوا نہیں لیکن تکلیف دہ ضرور ہے۔ اب یہ دیکھتے ہیں یہ غریب کون ہیں؟ اور کیوں غریب ہیں۔

غریبوں کے کئی گروہ ہیں اور غربت کی متعدد وجوہات ہیں۔

کم تعلیم یافتہ لوگ۔

کم عمری میں والدین بن جانا اور تعلیم پوری نہ کر سکنا۔

اکیلی مایئں

مشرقی ممالک کے تارکین وطن

والدین میں صرف ایک کمانے والا

بڑے شہروں کی آبادی

بے روزگاری

والدین کا نشہ کرنا

جسمانی یا ذہنی بیماری

حالیہ وبا کورونا کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور غربت میں بھی۔

اعداد و شمار کے مطابق پینتیس فیصد تارکین وطن کے بچے غریب ہیں۔ مقابلے میں نارویجین بچوں کی تعداد پانچ صد ہے۔ اس کی وجہ یہ تعلیم کی کمی یا زبان سے ناواقیت کی بنا پر کام کا نہ ملنا۔ اکثر گھرانوں میں کمانے والا صرف ایک ہوتا ہے اور زیادہ اولاد ہونا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تارکین وطن بے ہنر ہیں یا کاہل ہیں۔ ان کی تعلیم اور ہنر ان کے اپنے ملک میں یقینی طور پر مفید ہیں لیکن ناروے میں شاید ان کی صلاحیت کے مطابق اچھا کام نہیں مل سکتا۔

تارکین وطن میں بے روزگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے کچھ اپنے ملکوں سے اعلی تعلیم حاصل کر چکے ہیں ناروے آ کر انہیں اپنی تعلیم کے مطابق کام نہیں ملتا اور چھوٹا موٹا کام وہ کرنا نہیں چاہتے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بیشتر تارکین وطن نے جان توڑ محنت کی اور نہ صرف یہاں اپنا معیار زندگی بہتر کیا بلکہ وطن میں بھی شان و شوکت سے جاتے اور رہتے ہیں۔

اوسلو شہر میں سب سے زیادہ غریب گھرانے ہیں اور ان میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ہے۔ تارکین وطن بڑے شہر میں رہنا پسند کرتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسےکہ پہلے سے کوئی رشتے دار یا جاننے والا یہاں رہتا ہو۔ یا ان کے خیال میں بڑے شہر میں کام کے مواقع زیادہ ہیں۔ یا یہ کہ بڑے شہر میں انہیں احساس تنہائی کم ہوتا ہے۔

بچے جب تک چھوٹے ہوتے ہیں انہیں امیری غریبی کا اتنا فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں اور اپنے آس پاس دوسرے بچوں کو مہنگے لباس اور جوتوں میں اور جدید ترین موبائل فون لئے دیکھتے ہیں تو احساس محرومی بڑھ جاتا ہے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اٹھارہ سے پینتیس سال کی عمر کے لوگ اس محرومی کا شکار ہیں۔

والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر کسی نشے کے عادی ہیں تو یہ غربت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ نشہ کی بنا پر کوئی کام مستقل مزاجی سے نہیں کر سکتے۔ نشہ پورا کرنے کے لیئے کئی دیگر ضروریات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ بچے نظرانداز ہوتے ہیں اور ان کی جائز ضروریات اور خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔

بے روزگاری کی وجہ سے خاندان سوشل ویلفیر پر گذارا کرتا ہے۔ یہ مدد بس اتنی ہی ہوتی ہے کوئی بھوکا نہ رہے، تن پر پورے کپڑے ہوں اور سر پر چھت ہو۔ عمدہ لباس، برانڈیڈ جوتے یا نیا فون خریدنا اور چھٹیوں پر جانا ذرا مشکل ہی ہے۔ یوں وہ خط غربت کے آس پاس ہی رہتے ہیں اور دوسروں کے مقابلے میں معیار زندگی کم تر رہتا ہے۔ ناروے میں بچوں کو اسپورٹس میں حصہ لینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ والدین اسے ایک اضافی بوجھ سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں جو قطعی نا انصافی ہے۔

غربت ختم کرنے یا اسے کم کرنے کے لیئے سب سے بہتر طریقہ تعلیم ہے اور اس کے لیئے زبان سے واقفیت اشد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اخراجات کم کرنا ہے۔ چھوٹے شہروں میں مہنگائی کم ہے۔ گھروں کی قیمتیں اور کرائے بھی کم ہیں۔

ریاستی ادارے کا کہنا ہے کہ ایک شخص سات ہزار دو سو اسی کرونا یعنی تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ماہانہ پر اچھی طرح گذارا کر سکتا ہے۔ یہ صرف کھانے پینے اور پہننے کا خرچ ہے۔ اس میں گھر کا کرایہ یا بنک کا قرضہ شامل نہیں ہے ۔ یہ کم سے کم آمدنی ہے اور ہر ایک کو ملتی ہے۔

ریاست خاندانوں کی مدد کرتی ہے۔ اس میں بچوں کا وظیفہ ہے جو ماہانہ ملتا ہے اور اسے بچوں کی ضروریات پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہر بچے کی پیدائش پر بھی ریاست ماں کو ضروریات کے لیئے رقم دیتی ہے۔ ان تمام اقدامت کے باوجود ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور اسے ختم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ یہ ہر حکومت اور سیاستدانوں کے لیئے ایک چیلنج ہے۔ سب اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ بچے اس غربت کا شکار نہ ہوں اور اپنے بچپن بغیر کسی محرومی کے ہنسی خوشی گذاریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments