لندن کا عجائب خانۂ ہجرت (2)۔


روانگی (departure) کے ہال پر کندہ ہے برطانیہ سے باہر جانے والوں کی چار سو سالہ تاریخ آگے پیچھے دیواروں پر تصاویر لگا کر مختلف کہانیاں بنائی گئی تھیں۔ میں ہر دیوار پر شہ سرخی پڑھتا گیا۔ ایک بینر نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا:

کمپنی کے لوگ ہندوستان میں

یہاں کئی تصاویر لگی ہوئی ہیں جن میں سترہویں، اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ہندوستان بھیجے جانے والے اہلکاروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک پوڈ کاسٹ بھی تیار ہے جو ہیڈ فون لگا کر سنا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ کچھ افراد کے انٹرویوز ہیں۔ ایک تاریخ دان کا نام میرے لیے سب سے زیادہ سب سے چونکا دینے والا ہے۔ میں ان کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو ذہن نشین کرتا جاتا ہوں۔ ان کا نام ہے ولیم ڈارلمپل۔

ایسٹ انڈیا کمپنی

” 1616 ء میں لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نامی ایک تجارتی کمپنی قائم ہوئی۔ سترہویں صدی وہی وقت جب ہندوستان کی مغل سلطنت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت ہے جبکہ مغل شہنشاہ ہی خطۂ ارض کا امیر ترین فرمانروا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان دنیا بھر کی مجموعی عالمی پیداوار کا چالیس فیصد پیدا کر رہا تھا جبکہ اس میں انگلستان کا حصہ صرف 7 فیصد تھا۔ ہندوستان دنیا کی سب سے اعلی اور سستی ٹیکسٹائل مصنوعات پیدا کر رہا تھا۔ 1640 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا سارا سرمایہ ٹیکسٹائل کی اسی عالمی تجارت میں جھونکنے کا فیصلہ کر لیا۔

سو سال گزرتے ہیں مغل سلطنت روبہ زوال ہوجاتی ہے۔ ایک طرف سے افغان حملہ آور اور دوسری جانب سے مرہٹہ مغلوں کی مرکزی سلطنت کا شیرازہ بکھیرتے جاتے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں یہ ملک ابھی بھی نمبر ایک ہے لیکن ایک مرکزی سلطنت کی جگہ سینکڑوں ریاستیں باہم دست و گریباں ہیں ”

یورپ میں نشاہ الثانیہ

”یہی وقت ہے جب یورپ میں نشاہ الثانیہ ہو رہی ہے۔ سائنسی علوم کا اثر ہر شعبۂ زندگی کے ساتھ ساتھ جنگ سے متعلق صنعتوں پر بھی ہوتا ہے۔ ایک حربی انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ جدید تمنچے، نت نئے توپ خانے، بڑی توپوں کو میدان جنگ میں تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی آسانی اور ایک سائنسی جنگی حکمت عملی کا مطلب ہے کہ مٹھی بھر یورپی اپنے سے کئی گنا بڑی ہندوستانی سپاہ کو شکست دے سکتے ہیں۔ محض اتفاق ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت رونما ہو رہا ہے جب اقتدار پر مغلوں کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔

اٹھارہویں صدی کے ہندوستان کی کشمکش میں سوال یہ نہیں کہ ہندوستان کا اقتدار ملک میں رہتا پے یا نہیں بلکہ فیصلہ صرف یہ ہونا تھا کہ اتنا بڑا اور مالامال ملک فرانسیسیوں کی جھولی میں گرتا ہے یا انگریزوں کی۔

1803 ء میں سلطنت دہلی پر گوروں کا قبضہ ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ قبضہ ایک ملک پر دوسرے ملک کا قبضہ نہیں تھا بلکہ لندن میں قائم ایک چھوٹے سے دفتر کا ہندوستان پر قبضہ تھا۔ آج یہ بات بڑی عجیب لگے گی لیکن کمپنی کی فوج برطانیہ کی فوج سے دوگنی بڑی تھی۔ ہندوستان جیسا بڑا ملک جس کی آبادی اس وقت بیس کروڑ تھی۔ چند ہزار گوروں پر مشتمل ایک کمپنی کے ہاتھ لگ گیا جو درحقیقت دنیا کی تاریخ کی پہلی ملٹی نیشنل کمپنی تھی ”

کمپنی کی ہوشیاری

”کمپنی کی فنکاری ملاحظہ کریں کہ انہوں نے جس فوج کے ساتھ ہندوستان فتح کیا اس میں 95 فیصد سپاہی خود ہندوستانی ہی تھے اور ان کی تنخواہوں کے لئے پیسہ بھی ہندوستان کے بینکروں سے حاصل کیا جا رہا تھا“

جنگ پلاسی اور رابرٹ کلائیو

”ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتوحات میں سب سے اہم موڑ جنگ پلاسی 1757 ء تھی جس میں سب سے بڑا کردار کمپنی کے جواں سال کلرک رابرٹ کلائیو نے ادا کیا۔

ہوا یوں کہ بنگال کے نواب سراج الدولہ نے جو فرانس کے ساتھ معاہدہ کرچکے تھے نے کمپنی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک شام چھاپہ مار کر ایک سو اکتالیس گوروں کو گرفتار کیا اور بہت ہی تنگ کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ اگلی صبح تک ان میں سے ایک سو سے زائد انگریز دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔ یہ خبر سن کر رابرٹ کلائیو نامی کمپنی کا ایک کلرک جو جنونی پن اور خون خرابے میں کافی نام کما چکا تھا فوراً بنگال پہنچا جہاں اسے کلکتہ میں واقع کمپنی کی فیکٹری کا انچارج بنا دیا گیا۔

یہاں اسے ایک خط موصول ہوا جو جگت سیٹھ نامی ایک بنگالی ساہوکار نے لکھا تھا جس میں جگت نے پیش کش کی تھی کہ اگر وہ مہربانی کر کے سراج الدولہ کو جو قطعاً ایک مخبوط الحواس اور بدتمیز آدمی ہے معزول کردے تو اسے بیس لاکھ پاؤنڈ دیے جائیں گے جو ان بیس لاکھ پاؤنڈ کے علاوہ ہوں گے جن کی ادائیگی کمپنی کو کی جائے گی۔ کلائیو کہتا ہے ”حاضر جناب آپ فکر ہی نہ کریں“ اور پلاسی کے میدان میں اترتا ہے۔

انگریزی تاریخ میں اس معرکہ کو شجاعت کی غیر معمولی داستان بنا کر پیش کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلائیو کے مد مقابل سراج الدولہ کی فوج کے سپہ سالار میر جعفر کو بھی جگت سیٹھ پیسے دے کر یہ جنگ ہارنے پر راضی کرچکا ہے۔ چنانچہ حملہ آور اور دفاع کرنے والی افواج ایک ہی پیج پر ہیں۔ سراج الدولہ پکڑا جاتا ہے اور اسے ٹھکانے لگا کر میر جعفر نواب کی گدی سنبھال لیتا ہے۔ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں کسی فوجی جنرل کا مغربی طاقت کی مدد سے اپنے ہم وطنوں سے غداری کر کے اقتدار پر قبضے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ میر جعفر کے مربی جگت سیٹھ کی موت جعفر کے جانشین اور داماد میر قاسم کے ہاتھ لکھی ہے ”

کمپنی سرکار اور برطانوی نوجوان لڑکوں کی ہندوستان ہجرت

”رابرٹ کلائیو ہندوستان سے بے تحاشا دولت لوٹ کر برطانیہ روانہ کرتا ہے۔ اس دولت سے وہ صرف وسیع جائیداد اور شاہی خطاب ہی نہیں خریدتا بلکہ برطانیہ میں سائنسی علوم کے سب سے بڑے ادارہ رائل سوسائٹی کا فیلو بھی بنا دیا جاتا ہے۔ ان شاندار کامیابیوں کی داستانیں خوب نمک مرچ لگا کر پھیلا دی جاتی ہیں یوں نو عمر انگریزوں میں ہندوستان جانے اور وہاں بہتی افسانوی دولت سے ہاتھ رنگنے کی شدید خواہش پیدا کی جاتی ہے۔

کمپنی کے اقتدار کا سورج 1857 ء کے غدر کے ساتھ غروب ہوجاتا ہے اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں انگریز، اسکاٹش اور آئرش نوجوان ہندوستان جا چکے ہیں۔ ان لڑکوں کو یہ نہیں علم کہ اس ملک میں شدید گرمی کے علاوہ ملیریا اور پیچش سمیت کئی ٹراپیکل بیماریاں بھی ہوتی ہیں جو ہر تین میں سے ایک انگریز کی جان لے لیں گی۔ اسی طرح ان میں سے ایک تہائی پر ہندوستان کا جادو ایسا چڑھے گا کہ وہ ہندوستانی خواتین کے بطن سے پیدا ہونے والی اینگلو اورینٹل نسل پیچھے چھوڑ جائیں گے ”

ڈارلمپل ہنستے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے کئی بزرگوں کو ہندوستان میں کمپنی کی ملازمت میں خوب پیسہ کمانے کا موقع ملا اور شادی کے ذریعے ان کی رشتہ داری نظام حیدرآباد کے خاندان سے قائم ہو گئی۔

بنگال کا قحط

کمپنی کے لالچ کا شکار صرف گورے لڑکے ہی نہیں ہوئے بلکہ غلط اقتصادی پالیسی کے باعث اس زرخیز خطہ میں ایک بدترین قحط بھی پڑا جس میں کم از کم دس لاکھ بنگالی مارے گئے۔

ڈارلمپل کی کتاب جس کی تشہیری مہم پاکستانی وزیراعظم نے چلائی

ڈارلمپل کی زبانی یہ ریکارڈ شدہ باتیں سن کر یکایک ہمیں یاد آیا کہ ابھی دو سال قبل جب عمران خان ریاض سے امریکہ جاتے ہوئے سعودی ولی عہد کے دیے ہوئے طیارے پر سوار تھے تو اخبارات میں ایسی متعدد تصاویر شائع ہوئیں جن میں وہ ڈارلمپل کی نئی تصنیف انارکی کو اپنے سینے پر سجا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے خود مصنف نے اپنی کتاب کی اس تشہیر پر شکریہ کرنے کے بجائے طنز آمیز ٹویٹ کرنا مناسب سمجھا۔

آمد۔ کابل مارکس کا لندن

آمد arrival والے سیکشن میں ایک پورا کارنر جرمن انقلابی کارل مارکس کے ان ایام سے متعلق ہے جو انہوں نے انگلستان میں بطور پناہ گزین گزارے۔ وہ کس اخبار کے لئے لکھتے تھے، کس شراب خانے میں اٹھتے بیٹھتے تھے، ان کی رہائش کہاں کہاں رہی اور آخری آرامگاہ کہاں بنی۔ ہمیں سب سے دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ کارل مارکس برطانیہ میں رہنے والے واحد شخص تھے جنہوں نے ہندوستان پر پہلے کمپنی اور پھر براہ راست برطانیہ کی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید کی۔ ڈارلمپل نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ہر چند برطانیہ نے مارکس کو شہریت نہیں دی لیکن ان کی آزادی رائے کا حق برقرار رکھا۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی سمیت متعدد پارٹیوں کے زعماء پر مارکسی افکار کی چھاپ ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments