سلامتی کونسل کا اجلاس: افغان مندوب کا طالبان پر پابندیاں لگانے اور انہیں تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ


غلام اسحاقزی معزول صدر اشرف غنی کی کابینہ کا حصہ تھے جو اب تک سلامتی کونسل میں افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مندوب غلام اسحاقزی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کو تسلیم نہ کرے اور ان پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں۔

جمعرات کو سلامتی کونسل کے ورچوئل اجلاس کے دوران غلام اسحاقزی نے خطاب کے دوران کہا کہ طالبان کی جانب سے نگراں حکومت کے لیے اعلان کردہ شخصیات پر بیرونِ ملک سفر پر پابندی سمیت اقوامِ متحدہ کی موجودہ پابندیوں کو نافذ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر طالبان رہنماؤں کے لیے سفری پابندیوں میں نرمی کی گئی تو وہ اس عمل کو بین الاقوامی سطح پر اپنی غیر متنوع حکومت کے لیے پذیرائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ غلام اسحاقزی معزول صدر اشرف غنی کی کابینہ کا حصہ تھے جو طالبان کی جانب سے سات ستمبر کو عبوری حکومت کے اعلان کے باوجود اب تک سلامتی کونسل میں افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

غلام اسحاقزی اس سے قبل بھی طالبان کی عبوری کابینہ کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ طالبان کی 33 رکنی کابینہ میں سے 17 شخصیات اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جن میں نگراں وزیرِ اعظم کے علاوہ دو نائب وزرائے اعظم، وزیرِ خارجہ، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ دفاع شامل ہیں۔

سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران افغان مندوب نے طالبان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ حال ہی میں افغان عوام کی جانب سے احتجاج کیا گیا جو طالبان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ان کی جانب سے نافذ کردہ نظام ہر افغان شہری کو تسلیم نہیں۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق افغان مندوب نے اپنے خطاب کے دوران شرکا کو کہا کہ افغانستان کی حالیہ صورتِ حال کے بعد افغانستان میں کسی بھی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک اس میں تمام طبقات کی نمائندگی شامل نہ ہو اور وہ خالصتاً افغان عوام کی خواہشات کے مطابق نہ ہو۔

واضح رہے کہ طالبان کی اعلان کردہ 33 رکنی کابینہ میں کسی بھی خاتون رکن کو شامل نہیں کیا گیا اور اس کابینہ میں تمام وزارتوں کے لیے صرف طالبان سے وابستہ شخصیات کو ہی شامل کیا گیا ہے۔

جمعرات کو سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران افغان مندوب نے الزام عائد کیا کہ طالبان نے پنجشیر صوبے میں بڑے پیمانے پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا۔

ان کے بقول طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اس صورتِ حال نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کابل میں اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں جس سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔

یاد رہے کہ چار ستمبر کو طالبان نے پنجشیر میں فتح کا اعلان کیا تو کابل میں اس کا جشن منایا گیا۔ اس موقع پر کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پنجشیر میں طالبان مخالف مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود کے وفادار جنگجو طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے۔

افغان مندوب کا مزید کہنا تھا کہ طالبان چن چن کر لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انہوں نے مواصلاتی رابطوں کے ذرائع منقطع کر دیے ہیں جب کہ کھانے پینے کی اشیا کی سپلائی بھی روک دی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں اور خفیہ ادارے کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔

افغان مندوب نے معاشی مشکلات اور مہنگائی میں گھرے افغان عوام کے لیے انسانی بنیاد پر فوری امداد کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments