ابن صفی اور سڈنی شیلڈن کا تقابلی مطالعہ


آج ہم سب میں ابن صفی کے بارے میں مورخ و محقق عقیل عباس جعفری صاحب کا مضمون ”ناول نگار ابن صفی: ایک آرٹ گریجویٹ جن کی تخلیق کی قوت کسی سائنسدان سے کم نہ تھی“ دیکھ کر کئی باتیں یاد رہی ہیں :

ابن صفی وہ مصنف ہیں کہ ہمیں رشک رہا کہ کاش ان جیسا سری ادب کوئی سندھی میں بھی پیش کرتا اور اسی طرح عمران اور فریدی وغیرہ کے کردار بھی! اگرچہ ماضی میں، شاید اسی نوے کی دہائی تک بھی، سندھی میں انگلیوں پر گننے جتنی جاسوسی کتب، زیادہ تر تراجم، لکھی بھی گئیں، لیکن موجودہ دور میں سندھی زبان میں سری ادب کے نام کی کوئی چیز کم ازکم ہماری نظر سے نہیں گزری۔ اور ایک علت یہ بھی ہے کہ سندھی میں اس قسم کی تفریحی چیزوں کو ذہنی عیاشی سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے (کہ شاید کئیوں کو ذہنی کے بجائے طبعی عیاشی زیادہ پسند ہو؟

جب کہ سندھی میں پورنوگرافی بھی کبھی پنپ نہ سکی، یا پھر شاید ہمارے ہاتھ نہ لگ سکی؟ ) حالانکہ تفریحی ادب وہ شارع یا زینہ ہے جو کہ آپ کو ادب کی اعلیٰ منزلوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اگر ہم نے بھی تفریحی ادب؛ ناول، ڈائجسٹ اور رسائل وغیرہ نہ پڑھے ہوتے تو یقیناً غیر افسانوی ادب بھی آسانی سے نہ سمجھ سکتے، حالانکہ اب بھی کئی کئی لفظ، جملے اور باتیں کئی کئی بار پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتی ہیں یا پھر بھی سمجھ نہیں آتی! اور لکھنے میں بھی غلطیاں سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔

ابن صفی کی عمران سیریز کی تقریباً 120 اور جاسوسی دنیا کی 125 عدد تمام کی تمام کتابیں ہم نے کئی کئی بار پڑھی ہیں اور ہر بار جہاں نیا مزہ پایا ہے وہیں ہر بار کوئی نہ کوئی نیا لفظ بھی ہمارے سامنے آتا رہتا ہے کہ جو ہم پچھلی بار نہ سمجھ سکے تھے یا جس پر دھیان نہیں دھرا تھا۔ اور یوں لفظ، جملے اور ناول کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے یا پھر یہ بھی پایا کہ ابن صفی جیسا مصنف بھی کبھی کبھی کسی لفظ پر چوک سکتا ہے جیسا کہ انہوں جاسوسی دنیا کے کسی ناول میں شاید ”دھوبن“ لفظ ذہن میں نہ آنے پر یا بعد میں درستی کے خیال سے ”اس کی کپڑے دھونے والی نوکرانی“ لکھ دیا تھا!

اگر آپ عمران سیریز کے مستقل قاری ہیں یا رہے ہیں اور آپ نے طلسم ہوشربا مختار رضوی کی بچوں والی ہی سہی! یا اصلی تے وڈی طلسم ہوشربا کلاں (جو کہ ہم نہیں پڑھ سکے ہیں ) یا پھر ”طلسمی دنیا الہ آباد“ کے سلسلے ”(یہ سلسلہ بھی عباس حسینی ہی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا اور رومانی دنیا کے ساتھ شائع کرتے تھے؟ ) کے ناول بھی پڑھے ہوں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ابن صفی صاحب کا علی عمران کا کردار کسی حد تک خواجہ عمرو عیار سے متاثر ہے۔

عمران اگرچہ خواجہ عمرو کی طرح لالچی نہیں ہے لیکن اسی کی طرح مکاروں کے ساتھ مکار اور عیاروں کے ساتھ عیار ہے۔ اپنے وطن اور مقصد سے وفادار اور بھیس بدلنے یعنی میک اپ کا ماہر بھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ جس قسم کا میک اپ کر صورت تبدیل کرلیتے تھے وہ صرف طلسم ہوشربا اور عمران سیریز میں ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہ لیلیٰ خالد صاحبہ کو تو صورت کی تبدیلی کے سلسلے میں کئی کئی بار پلاسٹک سرجری کرانی پڑی تھی! حتی کہ محی الدین نواب صاحب کی طویل ترین سلسلے“ دیوتا ”والے فرہاد علی تیمور بھی اپنی تمام تر غیرمعمولی صلاحیتوں کے باوجود صورت کی تبدیلی کے لیے پلاسٹک سرجری کا سہارا لینے پر مجبور تھے۔

مرحوم ابن صفی نے کہیں بقلم خود بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ بذات خود اور ان کا کردار عمران طلسم ہوشربا کے کردار عمرو عیار سے متاثر ہے۔ ان کے نقادوں نے اس بات کو تو بار بار دہرایا ہے کہ وہ کچھ انگریزی کتب سے متاثر ہوئے لیکن اس بات کا ذکر شاید ہی کسی نے کیا ہو؟

ابن صفی نے اپنی کسی ناول کے پیشرس میں ذکر کیا تھا کہ کئی سندھیوں اور بنگالیوں نے انہیں (متحدہ پاکستان کے ایام میں ) خط لکھ کر آگاہ کیا کہ انہوں نے محض ان کی کتابیں پڑھنے کے لیے ہی اردو سیکھی ہے۔ یعنی ایک دور ایسا بھی تھا کہ سندھیوں اور بنگالیوں کو اردو سیکھنی پڑتی تھی اور یہ دور بھی ہم پر آیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو سندھی سکھانی پرتی ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ اردو کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ عمران سیریز بھی ہے۔

یہ بات ہم ایک قاری اور ایک پیشہ ور کتب فروش دونوں ہی حیثیتوں سے کہ سکتے ہیں۔ جب کہ ہماری اردو کی اصلاح اور اجالنے میں بھی ان کی تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن ہمیں ان سے یہ بھی شکایت ہے کہ وہ چاہتے تو ہمارے اردو داں، خواہ اردو خواں حضرات کو ان ہر دو زبانوں، یعنی بنگلہ اور سندھی سمیت دیگر پاکستانی زبانوں کی طرف راغب کر سکتے تھے جو بات وطن عزیز میں لسانی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی میں اہم کردار سکتی تھی لیکن ان کی کسی تحریر میں ہمیں اس قسم کی ترغیب یاد نہیں! البتہ کسی ناول کے پیشرس میں ہی ”ٹنڈو آدم“ کی کسی قاری کو تمسخرانہ انداز میں ”ٹنڈو آدمی“ (شاید ’صاحب، کے لاحقہ کے ساتھ) ضرور لکھا گیا ہے۔ ہاں یاد آیا ایک ناول میں عمران سے انہوں نے بلھے شاہ کی کافی ضرور سنوائی ہے۔

بات زبان کی نکلی ہے تو ہمیں سڈنی شیلڈن یاد آ رہے ہیں جنھیں کہ عارف وقار صاحب نے امریکا کا ابن صفی گردانا ہے۔ سڈنی شیلڈن کے ناول ”ونڈملز آف دی گاڈ“ میں ایک بچہ ایک موقعے پر اپنی والدہ سے کہتا ہے کہ، ”امی میرے ہم جماعت (عجیب) لہجے میں انگریزی بولتے ہیں،“ تو اس کی والدہ کہتی ہے کہ، ”بیٹا یاد رکھو، جب کوئی (عجیب) لہجے میں کوئی زبان بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تم سے ایک زبان زیادہ جانتا ہے۔“ جب کہ ہمارے ہاں ہم ایک دوسرے کی زبانوں ہی پر نہیں ایک ہی زبان والے اپنی زبان کے مختلف لہجوں پربھی ہنستے رہتے ہیں۔

مثال کے طور:
”تو دکھن کا ہی دکھنیج بول
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنیج بول! ”

ابن صفی اور سڈنی شیلڈن میں ایک قدر مشترک ذہنی بیماریاں بھی تھیں، ابن صفی سکیزوفیرینیا (انفصام، یا دوہری شخصیت) کے شکار ہوئے، تو دشمنوں نے اڑا دیا کہ خدانخواستہ وہ پاگل ہو گئے لیکن انہوں کچھ برسوں میں شفا پالی اور اس کے بعد بھی تا دم مرگ لکھتے ہی نہیں رہے بلکہ فلم تک بنا ڈالی، جب کہ ان کا ایک ڈرامہ ”ڈاکٹر دعاگو“ 1977 ع سے پی ٹی وی کے سٹوڈیوز میں محبوس ہے، یہ ڈرامہ جو کہ 1977 ع کی عام انتخابات کی نشریات کے لیے پروڈیوس کیا گیا تھا، نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر اب تک نہیں دکھایا گیا، اس کی پی ٹی وی پر دکھائی گئی جھلکیاں ہمیں یاد ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ اس میں عمران کا کردار محمد قوی خان نے ادا کیا تھا، کم از کم ڈرامے کی جھلکیوں سے تو یہی جھلکتا تھا!

جبکہ سڈنی شیلڈن بیماری کے ساتھ ساتھ جیتے رہے اور کام بھی کرتے رہے۔ ابن صفی صاحب کے برعکس وہ شوبز کے آدمی تھے جو کہ بعد کے ایام میں شوبز کے ساتھ قلم کاری بھی کرنے لگے۔ سڈنی شیلڈن کی کریڈٹ پر کئی فلمیں، ڈرامے، سیریلس اور سٹیج ڈرامہ آ جاتے ہیں جن میں ان کی اپنے ناولوں پر بنی فلمیں اور ڈرامے بھی شامل ہیں۔ ان کی ایک ٹی وی سیریز ”آئی ڈریم آف جینی“ تو ہمیں بھی یاد ہے کہ ہم نے پی ٹی وی پر دیکھی تھی۔

ابن صفی اور شیلڈن کا تقابل کیا جائے تو ہمارے زیر مطالعہ رہے سڈنی شیلڈن کے نالز میں عورت مرکزی کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ ابن صفی کی ناولز میں زیادہ تر خواتین کو ثانوی یا معاون کرداروں میں ہی پیش کیا گیا ہے۔ اور ”اسلامی تاریخی ناولوں“ ہی کی طرح اس قسم کی اکثر خواتین اس مرد مجاہد علی عمران پر مفتون نظر آتی ہیں۔

شیلڈن خواتین کو با اختیار دکھاتے ہیں اور صفی صاحب کئی بار خواتین کی تحقیر اور توہین یا انہیں بے توقیر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر دعاگو میں وہ ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ ان کی نرس کے سرخی لگے لبوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا کہ بلبل الٹ گیا ہے، یا ایک اور کردار کی چست پتلون پر جملہ چست کیا جاتا کہ وہ چلتی ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا تربوز لڑ رہے ہیں، وغیرہ!

البتہ ان پر فحاشی کا الزام لگانے والے ان نا انصافی کرتے۔ بلبل کا الٹنا اور تربوز کا لڑنا کو آپ چاہیں تو فحاشی قرار دے سکتے ہیں لیکن ایک کردار کے بارے میں یہ جملہ لکھنے پر کہ اور اس نے بتی بجھا دی، کو فحاشی کے زمرے میں لانا غلط ہی قرار پائے بتیاں تو خواتین کی ناولوں اور افسانوں میں بھی بجھا دی جاتی ہیں!

شیلڈن جمہوریت کے حامی اور کسی قدر سوشلزم کی طرف مائل دکھتے ہیں لیکن صفی صاحب عمران کی زبانی خدا کی آمریت کی بات کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نہ تو شاہی یا صدارتی محل میں بستا ہے نہ ہی ایوان زیریں یا بالا میں! وہاں اس کے بندے بستے جو کہ اس کے نائب اور سائے کہلاتے ہیں اور یہ صاحبان اللہ کے نام پر ووٹ یا اقتدار حاصل کر اسی طرح سے حکمرانی کرتے جیسا کہ ایک لطیفہ ہے کہ ایک بچے نے اپنی ماں سے شکایت کی، ”اماں اس فقیر کو روٹی مت دیں یہ مانگتا تو خدا کے نام پر ہے لیکن کھاتا آپ ہے!“

ابن صفی کے قاری ہی نہیں ان کے کتب فروش بھی کبھی کبھی ان کو دلچسپ خط لکھتے تھے ایک کتب فروش نے ان کی کتابوں کی قیمت روپوں کے بجائے پیسوں میں لکھنے پر شکایت کی برائے مہربانی آپ اپنی کتابوں کی قیمت پیسوں کے بجائے روپوں لکھیں کیوں کہ بعض شریر طلبا جب تین روپے لانے کے بجائے تین سو پیسے لے آتے ہیں تو ہماری شکایت پر اصرار کرتے ہیں کہ، ”جناب ہم کیا کریں کتاب کی قیمت ہی تین سو پیسے لکھی ہوئی ہے۔“ اور ہمیں مجبوراً کتاب بیچنے کی خاطر تین سو پیسے گننے پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments