کیا پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود ہے؟


کئی مخصوص سیاستدان اور حکومت مخالف تجزیہ کار اس بات پر معترض ہیں کہ دنیا سے طالبان کو تنہا نہ چھوڑے جانے کا کیوں کہا جا رہا ہے کہ یوں طالبان کی پاکستانی حمایت کا تاثر مزید گہرا اور پختہ ہو تا ہے۔ ہمارے ایک سابق سینیٹر صاحب نے بھارتی میڈیا سے انٹرویو میں پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ طالبان کے ذریعے افغانستان کی قومی شناخت بدلنا چاہتا ہے۔ محترمہ مریم نواز جب عدالت میں اپنے خلاف مالی بد عنوانی کے مقدمات میں حالیہ پیشی کے بعد باہر نکلیں تو چھوٹتے ہی پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت سے باز رہنے اور اس باب میں ’دنیا کے ساتھ چلنے‘ کی نصیحت فرمانے لگیں۔

محترمہ، ان کے والد اور سینیٹر افراسیاب خٹک جیسوں کی اپنی مجبوریاں اور ماضی ہے۔ تاہم اس انداز فکر سے بہرحال اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ جس کے مطابق پاکستان کو طالبان کی حکومت کے استحکام کی خواہش کے اظہار تک سے پرہیز کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ہماری تو رائے یہ ہے کہ نا صرف پاکستان کو طالبان کی حمایت میں عالمی رائے عامہ کو بھر پور طریقے سے ہموار کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے، بلکہ دنیا کے ساتھ مل کر نئی حکومت کے استحکام اور برباد ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے ہر ممکن طور پر عملی تعاون کرنا چاہیے۔

از کار رفتہ سپاہی نے پاک افغان سرحد پر قتل و غارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اپنی انگلیوں کے پوروں پر کٹے پھٹے جسموں سے بہنے والے تازہ انسانی خون کی حرارت کو محسوس کیا ہے۔ طالبان کی حکومت کے استحکام کی خواہش کا مطلب انتہا پسندانہ طرز فکر سے متفق ہونا ہر گز نہیں۔ تاہم طالبان بہرحال ایک حقیقت ہیں اور پاکستان دنیا میں شاید واحد ملک ہے کہ جو اس حقیقت سے نظریں چرا کر جی نہیں سکتا۔ بار بار کہا جا رہا ہے اور طالبان کے کابل پر قبضے سے بہت پہلے تسلسل سے کہا جا تا رہا ہے کہ مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

آج سے لگ بھگ دس سال پہلے ’کیانی نوٹس‘ میں صراحت سے لکھا گیا تھا کہ امریکہ ایک دن ایک بار پھر افغانستان کو چھوڑ کر اپنی راہ لے گا، پاکستان کے لئے مگر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اسی وقت بتا دیا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس طالبان پر داؤ لگانے ) (hedging our betکے سوا کوئی چارا نہیں۔ اندازہ تو یہی ہے کہ یہ جنرل کیانی کی انفرادی سوچ نہیں بلکہ ادارہ جاتی فکر تھی۔ صورت حال یہ ہے کہ آج امریکہ ایک بار پھر خطے کو برباد کرنے کے بعد اپنی راہ پکڑ چکا ہے۔

جبکہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کی جغرافیائی اور معاشی سلامتی کابل میں موجود حکومت کے استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ کابل میں اعلان کردہ عبوری حکومت میں کتنے غیر پختون وزیر ہیں اور کتنی عورتیں، یہ وہ اعتراضات ہیں جو افغانستان سے میلوں دور بیٹھے آسودہ حال ممالک اور ہمارے ہاں محفوظ ڈرائینگ رومز میں فروکش مغرب زدہ لبرلز، گھڑتے اور ہاہاکار مچاتے ہیں۔

اگرچہ تمام تر دباؤ کے باوجود صدر بائیڈن کا انخلاء کے منصوبے پر ڈٹے رہنا قابل تحسین عمل ہے۔ تاہم و زیر اعظم پاکستان کی بات میں بھی وزن ہے کہ امریکیوں کو انخلاء کی ترتیب کا اعلان کرنے سے بہت پہلے طالبان کو ایک حقیقت سمجھتے ہوئے ان کے سامنے وہ مطالبات رکھنے چاہئیں تھے جن کا تقاضا وہ ان سے اب کر رہے ہیں۔ کئی ٹریلین ڈالرز کے اخراجات اور ہزاروں انسانی جانوں کے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادی جو اہداف حاصل نہیں کر سکے، اب طالبان کو تنہا اور ان کی حکومت کو ناکام بنا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک غلطی نسل در نسل کیوں دہرائی جا رہی ہے؟

طالبان کو حکومتی امور میں مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ طالبان جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں ان کی حکومت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ امور مملکت، بالخصوص خزانہ، مواصلات، اور سوشل سیکٹر جیسی اہم وزارتوں کے معاملات مدرسوں کے فارغ التحصیل ملاؤں، مقامی تاجروں اور ٹرکوں کے ذریعے سمگلنگ کا کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ میں ہونا تھی۔ اس مرتبہ جبکہ طالبان اپنی حکومت کو منظم خطوط پر استوار کرتے ہوئے ماضی کے برعکس بین الاقوامی اداروں سے تعلقات کار قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس باب میں اگر ان کی مدد نہیں کی جا سکتی تو کم از کم تکنیکی مہارت رکھنے والی افرادی قوت کے ملک سے فرار کے ذریعے وہاں Brain drain کے اسباب تو پیدا نہ کیے جائیں۔

اشرف غنی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے اوسطا 4.2 بلین امریکی ڈالرز سالانہ بیرونی امداد کی مد میں وصول کر رہی تھی۔ اس کے باوجود افغانستان کی 90 فیصد آبادی اس وقت 2 امریکی ڈالرز روزانہ پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ چھ لاکھ کے قریب افغانی جن میں عورتوں اور بچوں کی کثیر تعداد ہے، بے گھر ہو کر در بدر ہو چکے ہیں۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ ایک بڑا خوفناک انسانی المیہ سر پر کھڑا ہے۔ اس ماحول میں مغربی ممالک اور ان کے زیر اثر مالیاتی اداروں نے اشرف غنی کی دی جانے والی امداد کو روک لیا ہے۔ افغانستان میں ڈالرز کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ افغان حکومت کو یوں اپاہج کیا جاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا۔ کیا دنیا اس ہولناکی سے خود کو محفوظ سمجھتی ہے؟ کیا ماضی سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے؟

نوے کی دہائی میں حکومت سنبھالتے ہی طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی تھی۔ تاہم لگ بھگ موجودہ مالی حالات در پیش ہوئے تو لگائی گئی پابندیاں غیر موثر ہو کر رہ گئیں۔ 1995 ء میں UNDCPکے اندازے کے مطابق افغانستان میں پیدا اور تیار ہونے وا لی منشیات کی مالیت 1.35 ارب ڈالرز تھی۔ اگلے دو سال میں افغانستان سے دنیا بھر میں سمگل کی جانے والی ہیروئن کی مالیت دو گنا ہو گئی۔ مالی وسائل کے حصول کے لئے ہی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے مال کو واپس پاکستانی مارکیٹوں میں سمگل کرنا شروع کر دیا گیا۔

چند برسوں کے اندر پاکستان کا ریونیو نظام اور پاکستانی معیشت کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔ کیا ہم اسی دور میں واپس لوٹنا چاہتے ہیں؟ طالبان حکومت کی ناکامی کی صورت میں پاکستانی طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں خطے میں ایک مرتبہ پھر سر گرم عمل ہوجائیں گی۔ ہندوستان موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمارے ہاں قوم پرست شورشوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ایسا ہوا تو پورا خطہ بد امنی کی لپیٹ میں آئے گا۔ کیا دنیا اس خطے میں لگی آگ کی حدت سے محفوظ رہے گی؟

مودی کے ہندوستان، پاکستان میں مغربی حمایت سے اقتدار میں واپسی کی راہ دیکھنے والے، مقدمات میں گھرے چند سیاستدانوں اور ان سیاستدانوں پر اپنی ساری عمر کی کمائی داؤ پر لگا دینے والے چند تجزیہ کاروں کے اعتراضات اپنی جگہ۔ پاکستان کے پاس طالبان کے ماضی سے متعلق تمام تر خدشات کے باوجود دنیا سے کابل میں عبوری حکومت کی حمایت کی اپیل کرنے کے سوا کیا کوئی دوسرا راستہ موجود ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments