اشاعتی اداروں کے گھس بیٹھئے



ایک وقت تھا کہ خاکسار لاہور سے شائع ہونے والے واحد مزاحیہ ماہنامہ ”چاند“ میں خاکے، مضامین اور کہانیاں وغیرہ لکھا کرتا تھا اور انہی دنوں بچوں کے ادب سے بھی خاصا تعلق تھا اور بچوں کے مشہور رسالے ”تعلیم و تربیت“ میں بھی تواتر سے خاکسار کی کہانیاں شائع ہوا کرتی تھیں اور اب کچھ عرصہ سے ان کہانیوں کو ”اور مجرم پکڑا گیا“ کے عنوان سے کتابی صورت میں سامنے لانے کی سوچ رہا ہوں لیکن اس کے لیے کسی ایسے پبلشر کی تلاش جاری ہے جو کہ فی سبیل اللہ اس کتاب کو شائع کرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتا ہو، ان کہانیوں سے یاد آیا کہ ان دنوں لاہور کے ایک معروف پبلشر کے مینیجر نے جھنگ آ کر خاکسار سے ملاقات کی اور ان کہانیوں کو قیمتا دینے کو کہا، ظاہر ہے اس کے بعد ان کہانیوں پر خاکسار کا نام بطور مصنف نہیں رہنا تھا اور یہ بات کسی لکھنے والے کو کبھی بھی گوارا نہ ہو سکتی ہے کہ اس کی چیز کسی دوسرے کے نام سے شائع ہو، اس پبلشر کے مینیجر کی خاکسار نے ”عزت افزائی“ کے بعد اسے گھر سے رخصت کر دیا تھا، بتاتا چلوں کہ اس پبلشر کا تعلق شوبز کی دنیا اور شاعری وغیرہ سے بھی کافی ہے، یہ بات جہاں افسوس ناک تھی وہاں یہ چیز بھی ظاہر کر رہی تھی کہ ملک میں کچھ اشاعتی ادارے کس طرح کے گھٹیا کاموں میں ملوث ہیں اور یقینی طور پر وہ کچھ مجبور لوگوں سے ان کے لکھے فن پارے خریدنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہوں گے، ویسے خاکسار کے علم میں ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ دوسروں کو شاعری وغیرہ بہت لکھ کر دیتے ہیں، اس ضمن میں کچھ شاعرات کا نام بہت لیا جاتا ہے اور ایک امریکہ سے آنے والی شاعرہ تو اس حوالے سے بڑا نام کما چکی ہیں کہ وہ جب بھی پاکستان آتی ہیں تو دو چار ”لکھی لکھائی“ کتابیں یہاں سے ساتھ لے جاتی ہیں اور ان کو لکھ کر دینے والے بھی کوئی عام شاعر نہیں ہیں بلکہ خاصے نامور شاعر یہ حرکت کرتے ہیں اور بدلے میں ڈالرز اور غیرملکی دورے پاتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے ایک ممتاز افسانہ نگار، محقق، نقاد اور استاد بتاتے ہیں کہ ایک بہت مشہور ناول نگار خاتون کے پیچھے دراصل ایک ”مرد ذات“ موجود ہے، جسے ”بدذات“ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔

خاکسار کے شہر جھنگ میں ایک بزرگ شاعر یہ کام بڑی جانفشانی سے کیا کرتے تھے اور ان کا ریٹ بھی بہت مناسب تھا، ایک بار بہاولپور کی ایک نوجوان شاعرہ ان سے 40 روپے فی غزل کے حساب سے تقریباً پوری کتاب لکھوا کر لے گئی تھی، پتا چلنے پر خاکسار نے ان دنوں جب اردو کے ممتاز نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے انٹرویو کرتے ہوئے اس بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ

”ان بزرگوں کا کاروبار ہی یہی ہے“

اسی طرح ساہیوال کے ایک بزرگ شاعر بھی یہ خرید و فروخت دھڑلے سے کیا کرتے تھے اور حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے کاموں میں اکثر خریدار خواتین ہی ہوا کرتی ہیں، اب بھی اسلام آباد کی جانی مانی ایک ”خوبصورت شاعرہ“ کے بارے رازدار بتاتے ہیں کہ اس کے پیچھے راولپنڈی کے ایک ”راجہ صاحب“ کا ہاتھ ہے جسے ”راجہ گدھ“ کہنا مناسب ہوگا۔

خیر سے ایسے کئی قصے سنائے جا سکتے ہیں لیکن خاکسار نے اپنے ساتھ ہونے والی ایک ”کمینی اور گھٹیا واردات“ کا ذکر یہاں ضرور کرنا ہے کہ جس کے لیے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے کہ چند سال قبل لاہور کے ایک مایہ ناز ”ڈنگر پبلشرز“ نے اخبارات میں اشتہار دیا کہ انہیں فوری طور پر کوکنگ اور بیوٹی ٹپس کے حوالے سے ایک کتاب کا مسودہ درکار ہے۔ اب خاکسار چونکہ کوکنگ سے خاصی دلچسپی رکھتا تھا اور ہے اور بریانی، کڑاہی اور اس طرح کی دیگر ڈشز پکانے کا ماہر بھی ہے نے اس اشتہار کے بعد تقریباً ایک ماہ لگا کر اس ادارے کو ”ہاٹ کوکنگ اینڈ بیوٹی ٹپس“ کے عنوان سے ایک خاصا معیاری مسودہ تیار کر کے بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ارسال کر دیا اور غلطی یہ کی کہ اس مسودے کی کاپی نہ رکھی کہ ذہن کے کسی گوشے میں یقیناً یہ بات موجود رہی ہوگی کہ ایسا شہرہ آفاق اشاعتی ادارہ کسی کے ساتھ ایسا ویسا بلنڈر کیسے کر سکتا ہے؟

لیکن جب کچھ عرصہ تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو خاکسار نے اسی ایڈریس پر خط لکھ کر مسودے بارے پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور پھر خاکسار لاہور ان کے آفس پہنچا اور اس مسودے بارے پوچھا تو انہوں نے ایسے کسی بھی مسودہ کے حوالے سے کسی بھی قسم کی وصولی اور موجودگی وغیرہ سے صاف انکار کر دیا جس پر خاکسار اس وقت بھی بڑا حیران ہوا تھا اور آج بھی اکثر سوچتا ہے کہ اتنے بڑے ادارے کو ایک معمولی سے مسودے بارے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟

اس ادارے کی ساکھ خاکسار کی نظروں میں اس دن تباہ ہو گئی تھی، افسوس کہ خاکسار کے پاس مسودے کی کاپی نہ تھی ورنہ اس ادارے کو بیچ چوراہے ننگا کر دینا تھا، اب معلوم نہیں کہ اس مسودے کا ان بدبختوں نے کیا کیا ہو گا؟ بہرحال وطن عزیز میں ایسے چور ادارے اور دو نمبر لوگ تھوک کے حساب سے موجود ہیں کہ جو دوسروں کی محنت کا پھل نہایت ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کھا رہے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ انہیں دوسروں کا مال آسانی سے ہضم بھی ہوجاتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو لاہور کے مشہور زمانہ ”ڈنگر پبلشرز“ کا بے تحاشا پھیلا ہوا بزنس جا کر دیکھ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments