کہانی کیسے اور کہاں سے شروع کروں۔ بہت دن کہانی کی بنت میں گزر گئے۔ کچھ غیر ضروری تعداد جن کا کہانی کے کرداروں سے تعلق نہیں تھا۔ ان کی موجودگی نے ایک نئی کہانی جنم لی۔

وہ ایک الگ قصہ ہوا۔ اصل قصہ جو بیان کرنا ہے۔ اس کی خوشبو ہر سطر سے آنا ضروری ہے۔ اس لیے جو جیسا ہے ویسا ہی رہے اچھا ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہوا چاہتا ہے۔ پل بھر کا بھروسا نہیں۔ سو کہانی کو چار چاند لگانے کے لیے طرح طرح کے اسلوب میں ڈھالنے کے بعد اندازہ ہوا۔ تمہارا کردار کہیں چھپ گیا ہے۔ تمہارا چاند سا چہرہ چھپ جانے کے لائق نہیں، یہ مکمل کردار ہوا۔ انصاف کا تقاضا یہی لگا۔ کہانی اپنی رو میں بہتی جائے۔

جن کے من کو بھائی وہ ضرور پڑھیں گے۔ کوئی نہ بھی پڑھے۔ یہ یادیں اور ان کہی باتیں لکھ کر دل سے بوجھ ضرور سرکے گا۔ جو اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی کم نہیں ہو رہا۔ وہ بھانت بھانت کے لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے دل چھلنی کرتے رہے۔ ان کے لیے یہ عام سی باتیں ہوں گی۔ ایسی عام باتیں جو دوسروں کا دل توڑیں۔ ان کے دکھ سکھ میں اپنا راگ الاپ کر دل آزاری کریں۔

میری سب کہانیاں تم سے شروع ہو کر تم پہ ختم ہوتی ہیں۔
میری ہر داستان کا خیال تم ہو۔
تمہارے ذکر کے بغیر ہر لفظ ادھورا ہے۔
تمہیں وہ ان گنت شب کی تنہائیاں یاد ہوں گی۔
جو ہم دونوں کی رازداں تھیں۔
اچھا سنو
ہماری منڈیر پر اب بھی تنہائی کے گہرے سیاہ بادل چھائے رہتے ہیں۔
رفتہ رفتہ اداسیاں اور تنہائیاں دیمک کی طرح ہمارے آنگن کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔
جن درختوں سے پھل پک کر گرتا تھا۔
اب ان شاخوں پر ویرانی کا سماں ہے۔
جہاں سے سرخ گلابوں کی خوشبو آتی تھی۔
اب وہاں ایک مٹی کی ڈھیری ہے۔
جس پر لوگ پھول نچھاور کرتے نہیں تھکتے۔
لیکن ان پھولوں کی خوشبو فضا میں عجیب سی
اداسی بکھیرتی ہے۔
نجانے تم یہ باتیں سن بھی رہی ہو یا یوں ہی مسکرا رہی ہو۔
تم جانتی ہو۔
اب ہم جدا جدا منزل کے مسافر ہیں۔
لیکن تمہاری یادیں اور وہ باتیں
جن کی ہم ہمراز تھیں۔
ان کو چند الجھے، بکھرے الفاظ کا سہارا لے کر
ایک سفید چمکتے دمکتے کاغذ پر لکھ اپنے زخموں کا مرہم تلاش کر سکیں۔
___________________

دیکھو یہ وہی کمرا ہے جو ہمارے کمرے کے بالکل ساتھ ہوتا تھا۔ جس کی چھت کچی تھی۔ ہم وہاں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں کوئی آسیب ہو۔ جو ہماری گردن دبوچ لے گا۔ وہاں برتنوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ جب کوئی محفل، عرس اور مجلس ہوتی۔ وہیں سے ضرورت کے برتن نکالے جاتے۔ اب وہ گھر بھی نہیں رہا نہ ہی برتن رہے ہیں۔ پرانی عمارت کو کوئی یاد نہیں کرتا لیکن پرانے برتنوں کی یاد کسی نہ کسی حوالے سے ضرور یاد رہتی ہیں۔

تمہیں اپنا پرانا گھر یاد ہی ہو گا۔ جہاں تم نے اپنی زندگی بسر کی۔ اب گھر کا نقشہ بدل چکا ہے۔ جہاں کچھ نیا سامان، نئے لوگوں اور کچھ قبروں کا اضافہ ہوا ہے۔ قبروں سے یاد آیا۔ تمہیں یاد ہو گا۔ جب ہم چھوٹے تھے تو قبر کا نام سنتے خوف زدہ ہو جاتے۔ پھر ایک ہمارا گزر قریبی قبرستان سے ہوا۔ یہ پہلا قبرستان تھا جو ہم نے قریب سے دیکھا تھا۔ جو قبروں سے بھرا پڑا تھا۔ کچھ قبروں پہ تازہ گلاب کی پتیاں سجی تھیں۔ کچھ پہ سوکھی پتیاں اپنی ناقدری پر افسوس کر رہی تھیں۔

وہاں ایک آدمی جس کے سر پر نیلے رنگ کی پگڑی سی تھی۔ سفید رنگ کی بنیان اور تہبند پہنے ہاتھ میں بڑا سا تھیلا تھامے قبروں پہ دانہ پھینک رہا تھا۔ وہ جیسے ہی دانہ پھینکتا۔ درختوں کی اوٹ میں چھپی چڑیاں چہچہاتی دانہ چگنے آ جاتیں۔ اس وقت ہم اس حسین اور دلفریب نظارے سے لطف اندوز نہ ہو سکے۔ تب ڈر و خوف کا سایہ مضبوط تھا۔ اس لیے ہم کبھی آنکھیں بند کرتے کبھی کھولتے قبرستان کی حدود سے گزرے۔ دوسرا ہم نے سن رکھا تھا کہ لڑکیاں قبرستان نہیں جاتی ہیں۔

بلکہ لڑکی ذات کو قبرستان کا نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ رات کے اس پہر جب میں تمہیں یہ سب سنا رہی ہوں تو یقین مانو میرے دل میں وہی خوف ہے۔ جو بچپن میں قبرستان کا نام سنتے پیدا ہوتا تھا۔ حالاں کہ اب کافی عرصے سے نہ قبروں سے ڈر لگتا ہے نہ قبرستان سے۔ یوں لگتا ہے ان سے جنم جنم کا رشتہ ہے۔ اب ہر جگہ بکھری ریزہ ریزہ لاشیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان زندہ لاشوں کو قبر میں اتارنے کی رسم کب ادا کی جائے گی۔ انسان ساری زندگی رسم و رواج کی پاسداری کرتے اپنی موت کی رسم کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ یہاں موت بھی ایک رسم ہی ہے۔ جو کسی میلے سے کم نہیں ہوتی۔ کوئی میت والا گھر ہو۔ تو میلے کا سماں ہوتا ہے۔ بس ایک ساز بجانے والے کی کمی ہوتی ہے۔ لوگ ثواب کی نیت سے جوق در جوق میت کا چہرہ دیکھنے چلے آتے ہیں۔

تمہیں کچھ چہرے یاد ہوں گے۔ جو تمہارے لیے اپنی زندگی میں ہی مر چکے تھے۔ وہ قبرستان کا رستہ بھول گئے تھے اس لیے کافی عرصہ در بدر بھٹکتے رہے۔ آخر کار ایک دن اپنے اصل ٹھکانے پر پہنچ گئے۔

بالکل ہمارے نیاز کے برتنوں کی طرح۔ جن کے نصیب میں ٹھوکریں لکھی تھیں۔ عقیدت مند نیاز انتہائی عقیدت سے کھا کر برتنوں کو ٹھوکروں کے سپرد کرتے دعائیں دیتے رخصت ہوتے۔ کچھ دیر بعد ان برتنوں کے وارث آ جاتے جو بچا کچھا سالن اور روٹی کے ٹکڑے اپنے میلے شاپروں میں ڈالتے برتنوں کو صاف کرتے۔ برتن دھونے والی ان خانہ بدوش بچوں کے انتظار میں صفائی کرنے میں تاخیر کرتی تاکہ اس کا بوجھ کم ہو۔

اسٹور زیادہ تر بند پڑا رہتا ہے۔ کبھی کوئی پرانی ناکارہ چیز رکھنی یا نکالنی ہو تو بند دروازہ کھولا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے وہاں کا دروازہ گر گیا۔ کب کی دیمک لگی نے اپنا کام کر دکھایا۔

دروازہ گرتے ہی سب سے پہلا خیال تمہارا آیا۔
اب جب محفل میلاد ہوتی ہے۔ تو اسٹور روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے۔

نیاز کے لیے برتنوں کا ڈھیر پہلے اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے۔ پھر ان کو اصل مقام پر پہنچانے کی بھی بہت جلدی ہوتی۔ نیچے کچن میں ان نیاز کے برتنوں کے لیے کوئی جگہ بن نہیں پاتی۔ اور وہ اوپر سے نیچے کا سفر کسی خاص دن کے موقع پر یوں ہی اترتے چڑھتے طے کرتے رہتے ہیں۔ کچھ مٹی کے برتن یوں ہی اوپر نیچے لاتے لے جاتے ٹوٹ گئے۔ جن کا غم مرنے والوں سے زیادہ منایا گیا۔ یہ نیاز کے وہ برتن تھے۔ جو کسی خاص دن میں نکالے جاتے۔ ان میں رکھی نیاز گھر سے باہر نہ نکالی جاتی۔ جو مہمان گھر آتے صرف وہی یہ ختم پڑھی نیاز نوش فرماتے۔

”ہمارے بزرگوں کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ ہر سال نیاز کے ٹوٹے برتنوں کا غم بھی خوشی کے موقع پر ضرور مناتے ہیں“

اسٹور روم میں میرے یا پھر کسی ملازم کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا۔ میں اب بھی برتنوں کے ڈھیر سے تمہارے لیے چھوٹا سی پلیٹ اور کپ ڈھونڈتی ہوں۔ تمہارے کھانے کے برتن سب سے الگ ہوتے تھے۔ رنگ برنگے، دیدہ زیب ڈیزائن والے۔

پہلے میں یہی سمجھتی رہی۔ تمہارے برتن الگ ہونے کی کوئی خاص وجہ ہے۔ جس کا اب ذکر کرتے اور سوچتے میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔ تمہارے کھانے کے برتن اماں اس لیے الگ خریدتی تھیں۔ تاکہ تم دلکش نقش و نگار اور خوب صورت رنگوں سے سجے کپ اور پلیٹیں دیکھ کر کھانا رغبت سے کھاؤ۔

لیکن تم سے روٹی کا ایک ٹکڑا چبایا نہ جاتا۔ اماں اپنا کھانا سب سے الگ لے کر تمہارے سرہانے بیٹھ جاتیں۔ اور چھوٹے چھوٹے لقمے تمہارے منھ میں ڈالتی جاتیں۔ تم تین چار لقمے منھ میں لیے ان کو مسکراتی نظروں سے دیکھتی رہتی۔ جب اماں کھانا ختم کر کے اٹھنے لگتیں تو تمہارے منھ سے وہ تین چار لقمے نکال کر برتن رکھنے چلی جاتیں۔ آج بہت عرصے بعد اسٹور روم میں ترتیب سے رکھے ہوئے برتنوں کے اور پرانی کتابوں والے ڈبے دکھائی دیے تو پرانے کاغذ اور کتابیں دیکھنے کو جی مچلنے لگا۔

جن میں میری نصابی کتب سنبھال کے رکھی تھیں۔ کاش ان پرانے ڈبوں میں تمہاری بھی کوئی نصابی کتاب ہوتی۔ جس پر تمہارا نام لکھا ہوتا۔

—————————–

رات کے اندھیرے میں بلب کی پیلی روشنی بہت وحشت زدہ لگتی ہے۔ یہ پیلا بلب بھی پرانے کاٹھ کباڑ سامان کی ایک جگمگاتی نشانی ہے۔ جس کی روشنی بے چینی اور یاسیت کی علامت ہے۔ بھلے روشنی کے سب رنگ دلکش ہوتے ہوں لیکن سفید روشنی سا سکون کسی اور رنگ کی روشنی میں نہیں ملتا۔

میں اس پیلی روشنائی کے سائے میں بیٹھی خود کو آسیب زدہ روح سمجھنے لگتی ہوں۔ پرانے گھروں پرانے لوگوں کو اس پیلی روشنی سے اب بھی اندھا پیار ہے۔ اس پیلے بلب کی طرح میں بھی جب دل کرتا پورے گھر میں بھٹکتی روح کی مانند پھرتی۔ میں اپنا وہ ساتھی تلاش کرتی جو کہیں کھو گیا تھا۔ جس کی منزل کا نام و نشان دور دور تک دکھائی نہ دیتا۔

میری تلاش کا سفر تمہارے سرہانے بیٹھ کر ختم ہو جاتا۔ تمہارے گھنگھریالے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ان پر جھک کر بوسہ دیتا میری ساری تھکن اتر جاتی۔

جب گھر کا کونا کونا اور سب کمرے گھوم کر ان کی ایک ایک دیوار دیکھتی اور پھر چھت دیکھتی تو مجھے بارش یاد آ جاتی ہے۔ جب بارش ہوتی تو ایک کمرے سے ٹپ ٹپ پانی گرنے لگتا۔ ہاں وہ یہی اسٹور روم تھا۔ باقی سب کمروں میں بارش گھس نہ پاتی بس اس ایک کمرے میں بارش رستہ بنا کر آ جاتی اور وہاں پڑے سامان کو بھگوتی۔ بارش کو پتا نہیں کس اجنبی نے اس کمرے کی راہ دکھا دی تھی جو جان چھوڑنے کا نام نہیں لیتی تھی۔

رات کو جب بارش ہوتی تو وہاں پڑے سامان پر پانی کے قطرے گرنے سے عجیب سی ڈراؤنی آواز سنائی دیتی۔ سامنے والے میز پر پڑا سفید رنگ کا کڑھائی والا کور بھی بھیگ جاتا۔ کوئی بھی بارش کا پانی روکنے نہ جاتا سب اپنے اپنے کمروں میں سوئے رہتے۔ میں سوچتی کہ اس پانی سے ہماری کبھی جان نہیں چھوٹ پائے گی۔ سب چیزیں خراب کر دے گا اور پھر ساتھ والے کمروں میں بھی آ جائے گا۔ اور ایک دن تمہیں بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔

صبح ہوتی تو کرسیوں پر بھی مٹی کے نشان ہوتے اور فرش بھی گیلی مٹی سے بھرا ہوتا۔ یہ کمرا بہت برا اور زہر لگتا جس کی چھت بہت گندی تھی بارش کا پانی روک نہیں سکتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کمرے سے خوف آنا لگا یوں لگتا یہاں کوئی ہے جو بولتا نہیں لیکن چھپ چھپ کر سب کو دیکھتا ہے۔

اب اتنے سال بعد اسٹور روم کی چھت کو پرانی چھت سے موازنہ کرتے دیکھتی تو پرانے کمرے سے نفرت اور ڈر کو اپنی بیوقوفی کی ٹوکری میں ڈال کر خود کو چھت سے گرتے قطروں سے بچانے کے لیے دوسری سائیڈ پر کتابوں کے ڈبے کھینچ کر بیٹھ گئی۔

پہلے کمرے کی چھت کچی تھی اور کمزور بھی۔ دراصل پرانے گھر کی آدھی چھت کچی تھی اور آدھی پکی۔ اس لیے بارش کے قطرے کچی چھت پر ٹپ ٹپ گرتے رہتے۔

اس کچی چھت میں بارش کے پانی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں تھی۔ لیکن یہ پکی چھت۔ یہ بھی سیلن زدہ ہوئی تھی پانی بارش نہ ہونے کے باوجود بھی چھت سے ٹپ ٹپ کرتا رہتا۔ ٹینکی کے پانی نے چھت کو اس حال تک پہنچا دیا۔ بارش ہو نہ ہو پانی کے قطرے کمرے میں بھی بارش برسنے کا سماں بنا دیتے۔

میں پرانی کتابوں والے ڈبے جھاڑ کر کھولنے لگی اور ایک ایک کر کے ساری کتابیں، رجسٹر اور ڈائریاں نکالنے لگی۔ کتابیں اور رجسٹر چھوڑ کر میں ڈائریاں دیکھنے لگی اور ان کو اپنے دوپٹے کے پلو سے صاف کر کے کھولنے لگی۔ چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی ڈائریاں اور کچھ دفتری ڈائریاں جو میں نے خریدی نہیں تھیں بلکہ سب تحائف میں ملی تھیں۔ تمہیں یاد ہے کہ کبھی ڈائری خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ میری دوستیں جب اپنے لیے کوئی نئی ڈائری خرید کر لاتیں تو میرے لیے بھی ڈائری ضرور خرید کر لاتیں۔

یہ سب میری دوستوں کے شوق تھے جنہیں پہلے خط لکھنے کا شوق چرایا اور نیلے، پیلے، ہرے اور گلابی رنگوں کے ہلکے پھلکے سے کاغذ لے کر ان پر ایک دوسرے کے نام لکھ کر دوستی کے پیام نامے لکھتیں۔ انہیں خط لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے اس شوق کی خاطر وہ پاکٹ منی سے خط سجانے کے لیے رنگارنگ چیزیں خریدتیں۔

مجھے اتنے طویل خط لکھتیں میں سانس روکے پڑھتی جاتی اور صفحہ پہ صفحہ پلٹتی سوچتی یہ سب کیسے لکھ لیتی ہیں۔ مجھ سے تو ایسا نہیں لکھا جاتا یہ کیسے لکھ لیتی ہیں۔ حالاں کہ مجھے ہمیشہ کہانیاں پڑھنے کا شوق رہا۔

میں دوستوں کو خط لکھنے کی بہت کوشش کرتی لیکن الفاظ میرا ساتھ نہ دیتے۔ مجھ سے پیار محبت، میل ملاپ اور جدائی کی باتیں لکھنا بہت مشکل لگتا۔ بہت کوشش کرتی کہ کم از کم انہیں جوابی خط ہی لکھ دوں لیکن مجھ سے کبھی یہ کام نہیں ہو سکا۔ سب دوستوں کو ہمیشہ یہی گلہ رہتا تم خط کا جواب نہیں دیتی اور میں اپنی سستی اور نالائقی کو چھپانے کی خاطر ہنس کر کہتی۔

”ہمارا ایک اسکول ہے روزانہ ملاقات ہو جاتی ہے پھر میں کیوں خط لکھوں؟ میں پاگل نہیں تم سب پتا نہیں کیسے اتنے لمبے چوڑے خط لکھ لیتی ہو“ ۔

ان طویل خطوط میں زیادہ تر زندگی بھر دوستی نبھانے کے وعدے ہوتے اور پیار محبت کے اظہار گھر میں گزرے وقت کی روداد ہوتی۔ جو میں کبھی کبھی پڑھتے اکتا جاتی۔ یہ کیسی دنیا تھی۔ میری اس خیالی دنیا سے دوستی نہیں ہوئی نہ کل نہ آج۔ ضرورت سے زیادہ حقیقت پسندی بھی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کا حسن تباہ کر دیتی ہے۔ میں اس حسن میں چاہ کر بھی کبھی پناہ نہیں لے سکی ایک وقت کی کمی دوسرا میری حقیقت پسندی۔ ان دونوں نے کبھی خیالی دنیا میں کھونے اور اس کو بسانے کا موقع نہیں دیا۔ سب سے اہم تمہارا وجود جو میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ہر مشغلے میں تمہارے وجود کی محبت رکاوٹ بنی۔ بہت سے کام اور شوق ادھورے رہ گئے۔ پھر بھی افسوس نہیں نہ کبھی ہو گا۔ تمہاری محبت ہر خواہش سے بڑھ کر ٹھہری۔ جس میں گم ہو کے دوستوں کا خلوص اور پیار دکھائی نہ دیا۔

” ہم پاگل ہیں جو تمہارے لیے اتنے پیارے پیارے خط لکھتے ہیں کیا تمہیں پڑھ کر اچھا نہیں لگتا؟“ ۔
ثمین میری سب سے اچھی دوست ناراضی جتانے لگی۔

”اچھا تو بہت لگتا ہے لیکن مجھ سے نہیں لکھے جاتے اور ان سب باتوں کے جواب جو خط میں لکھی ہوتی ہیں سب کو دیتی تو ہوں پھر ناراضی کیسی؟“ ۔

نہ وہ میری بات سمجھتیں نہ ہی میں اپنی بات سمجھانے میں کبھی کامیاب ہو سکی۔ پھر اسکول الگ ہو گئے۔ پہلے ہفتے میں پھر ایک ماہ کے وقفے بعد سب کسی ایک دوست کے گھر جب ملتے تو سب کے ہاتھ میں مختلف رنگ برنگے اسٹیکرز اور پھولوں سے سجے envelope ہوتے۔

جو دیکھنے میں بہت دیدہ زیب ہوتے۔ کلرفل مارکرز سے باہر دوستوں کے نام لکھے ہوتے۔ سب اپنے اپنے خطوط کا تبادلہ کرتے۔ اکیلی میں سب سے خط بٹورتی اور ڈھیٹ بنی ہنستی رہتی اور سب یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے۔

”یہ کبھی نہیں سدھر سکتی اس کا نکماپن کبھی ٹھیک نہیں ہونے والا“ ۔

اچانک بات خط سے ڈائری تک پہنچ گئی پھر ہم سب ایک دوسرے کو جو گفٹ دیتے اس میں ایک عدد پیاری رنگین سی ڈائری بھی اضافہ ہونے لگا۔ کچھ dairies میں سے بھینی بھینی خوشبو بھی آتی اور کچھ پر لاک کے نام پر کوڈ ورڈز لگائے جاتے۔ یہ دور بہت سنہری اور خوب صورت تھا لیکن یہاں آ کر بھی مجھے شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ سب کی ڈائری کے صفحات حسین یادوں سے سجی ہوتیں اور کہیں پر ہم سب کی تصویریں لگی ہوتیں۔ میں اپنی ڈائریاں دیکھتی تو ان کے خالی صفحات میرا منہ چڑا رہے ہوتے۔ اب بھی میری ڈائریاں یوں ہی خالی ہوتیں ہیں وہ مجھے پکارتی ہیں آؤ اور کچھ لکھو۔ کوئی پیار کا گیت، اپنے ڈر کی کہانی، کسی ظالم دیوتا کا قصہ۔ نہیں تو کچھ ادھورے خوابوں کا تذکرہ۔

لیکن میں ان بے جان ڈائریوں کے قریب نہیں جاتی۔ جو راز اگلواتی ہیں اور پھر کسی کے ہاتھ لگ جائیں تو رازوں کی پٹاری کھل جائے۔ اس ڈائری کے سائے سے اللہ بچائے۔ بہت شیطان ہوتی ہے۔

ایک دن مجھے نجانے کیا سوجھی میرا بھی دل چاہا ڈائری پر کچھ لکھوں میں ڈائری لے کر بیٹھ گئی اور بہت دیر تک سوچتی رہی اس پر کیا لکھوں مجھے کچھ لکھنے کو نہ سوجھا۔

تو میں اس پہلے صفحے پر ”زینب“ لکھ دیا۔

سرخ رنگ کی روشنائی گلابی صفحے پر جگمگانے لگی اور زینب کا نام ننھے سے تارے کی طرح چمکنے لگا جیسی چمک اس کے چہرے پر تھی بالکل ویسی ہی چمک اس کا نام ڈائری کے صفحے پر بکھیرنے لگا۔

زینب میری چھوٹی اور سب سے پیاری بہن جو ہنستی تو اس کے دانت سفید موتی کی لڑی کی مانند چمکتے اور اس کی بڑی بڑی ایش گرین آنکھوں کی چمک اس کے سرخ و سپید چہرے سے نگاہیں ہٹنے نہ دیتیں۔ اتنا مکمل حسن میں نے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ زینب کو دیکھ کر میں اپنی آنکھیں دیکھتی اور اللہ میاں سے کہتی۔

”آپ نے میری ایسی کلرفل آنکھیں کیوں نہیں بنائیں“ ۔
اللہ میاں ہر دفعہ میرے شکوے پر مسکرا دیتے۔

پھر بہت جلد یہ بات سمجھ آ گئی کہ سب کی شکلیں الگ الگ ہوتی ہیں اور سب ہی پیارے ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ بہت حسین ہو کر بدصورت ہوتے ہیں اور کچھ بدصورت ہو کر بھی حسین لگتے ہیں ساری بات دل کی ہوتی ہے جو انسان کو خوب صورت و بدصورت بناتا ہے۔

زینب کا نام لکھنے کے بعد نیچے لکھا تھا۔
”میری زینب میری ڈائری“ ۔

ڈائری کے صفحے اب سفید سے پیلے ہو رہے تھے۔ ان کو آہستہ آہستہ دیمک لگ رہی تھی۔ ایسی دیمک جو نا محسوس انداز میں رگوں میں سرایت کر جاتی ہے اور پتا تب چلتا ہے جب سب کچھ چاٹ جاتی ہے۔ انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جب دھیرے دھیرے ذات کو دیمک لگتی پورے وجود میں اپنا مسکن بنا لیتی ہے تو انسان ماضی کے گھپ اندھیروں میں اپنی کھوئی ذات کو تلاشتا پھرتا ہے۔

زینب کا نام دیکھ کر میں ماضی کی بھول بھلیاں یاد کرنے لگی جب نام لکھ کر میں بھاگ کر اس کے سرہانے پہنچی اور پاس بیٹھ کر اس کو ڈائری کا وہ صفحہ دکھانے لگی جہاں اس کا نام ٹمٹماتے تارے کی مانند چمک رہا تھا۔

وہ ڈائری کا گلابی رنگ کا ورق اور اس پر بنی بلی کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور میں ڈائری اس کے سرہانے رکھ کر اس کے گھنگھریالے بال اپنی انگلیوں سے سنوارنے لگی۔ مجھے اس کے بال بہت اچھے لگتے کاش میرے بال بھی گھنگھریالے ہوتے اور ہم دونوں بہنیں ایک سی لگتیں۔

اس کے بال بڑے ہو رہے تھے اور ماتھے پر بکھرے تھے زینب کے بال بوائے کٹ ہوتے۔ اس کے ساتھ کافی عرصہ میرا ہیئر اسٹائل بھی ایسا ہی رہا اور ہم دونوں بہنیں آئینے دیکھ کر خوش ہوتیں کہ ہمارے کپڑے اور ہیئر اسٹائل ایک جیسے ہیں۔

ہر تہوار پر ہمارے ڈریس تقریباً ایک جیسے ہوتے۔ پھر وقت گزرنا کے ساتھ میرے کپڑوں کے ڈیزائن اور سائز میں فرق آنے لگے۔ زینب کے کپڑوں کا اسٹائل اور سائز ہمیشہ ایک سا رہا۔

جب میری نظر زینب کے پاؤں پر پڑتی تو میرے پاؤں میں جوتے ہوتے لیکن زینب کے پاؤں۔

وہ ہمیشہ ننگے رہے اس کے پاؤں میں کبھی مجھے جوتا نظر نہیں آیا۔ میں اس کے پاؤں پکڑ کر دیکھتی ان کو ہلاتی اور سیدھے کرنے کی کوشش کرتی لیکن وہ پھر مڑ جاتے۔ پیروں کی نسیں صاف دکھائی دیتیں ان میں خون بھی ہوتا لیکن وہ بے حس و حرکت پڑے رہتے ہلنے جلنے کا نام نہ لیتے۔ پہلے یوں لگتا تھا ان میں خون نہیں لیکن خون تو تھا وہ بھی اپنی جگہ شاید جم گیا تھا۔ ٹھنڈا ہو گیا تھا یا پھر مفلوج۔

بہت یاد کرنے کے باوجود بھی مجھے یاد نہیں پڑتا۔ کہ اس کے پاؤں میں کبھی جوتے دیکھے یا خریدے۔ نہیں شاید کبھی نہیں۔ میرا اب بھی دل چاہتا ہے کہ اس کے پیروں کو چھو کر وہ نرمی محسوس کروں اور ان ننھے پیروں کو اپنی نرم مٹھی میں بند کر کے ان کا درد ختم کرنے کی کوشش کروں۔

امی اکثر پرانی یادوں میں کھوئی ہوں تو بتاتی ہیں۔

کہ ”جب زینب پیدا ہوئی تھی تب چھوٹے بچوں کے جو شوز ہوتے ہیں وہی خریدے تھے۔ دو سال کی جب ہوئی تو پھر کبھی جوتا خریدنے کی نوبت نہیں آئی نہ کوئی معجزہ ہوا۔“

میں شدید احساس محرومی کا شکار ہو جاتی جب اپنے سے دو سال چھوٹی بہن کو ننگے پاؤں دیکھتی جس کے کپڑے اور ہیئر اسٹائل میرے جیسا ہوتا۔ لیکن جوتے نہ ہوتے۔ جب تصویر بنوائی جاتی تو مجھے اس کے ساتھ لگ کر اس کی گردن پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا پڑتا وہ بہت خوش ہوتی اور میں کسی معجزے کے انتظار میں اس کے کھڑے ہونے کی دعا کرتی۔