راولپنڈی کا آخری غار


پاکستان میں خبروں کی دنیا کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ دنیا میں کئی جگہوں پر بہت بڑی خبریں سمجھے جانے والی خبریں تو یہاں روز مرہ کی کارروائی ہیں۔ افغانستان کے انقلابات، عدلیہ میں اکھاڑ پچھاڑ، جمہوریت کی بحالی، غداری، حب الوطنی، عورت مارچ، اسلامی انقلاب کیسی کیسی رنگا رنگی ہے اس میں ایک معمولی سی چیز کا تذکرہ پاکستان میں ابلاغی دنیا کی توہین ہی تو ہے۔ لیکن گوارا کر لیں ایک معمولی سے غار کا تذکرہ۔

زیادہ پرانی بات نہیں بیس بائیس سال پہلے جرنیلی سڑک پر لاہور سے راولپنڈی آتے ہوئے گوجر خان سے ہی سڑک گھنے درختوں اور پہاڑوں کے دامن میں کسی حسینہ کی خم دار طویل زلف کی مانند بل کھانے لگتی۔ یہ میرے بچپن کا دور تھا اس دور کی جی ٹی روڈ کی کئی یادیں حسین ہونے کے باوجود حافظے سے محو ہو چکیں۔ بہت سی یادوں پر اسی سڑک پر اڑتی دھول کی طرح دھول کی دبیز تہہ جم چکی ہے جو بہت کوشش سے پھونک مار کر جھاڑ جھنکار سے کچھ کچھ برامد ہو جاتی ہیں۔

ایسی ہی ایک یاد ان پہاڑوں کے بنیادوں میں بنے بیشمار غار تھے۔ لاری میں سفر کرتے ان غاروں کو دیکھتے ایک عجب دیومالائی سا جہاں تصور خانے میں آباد ہو جاتا۔ ہمارے بچپن میں عمر و عیار اور طلسم ہوشربا کی سیکڑوں کہانیاں دستیاب ہوتیں تھیں۔ تو سامنے کا غار کسی پس منظر کے طلسم ہوشربا کا دہانہ بھی نظر آیا کرتا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے ایک غار کہ منہ پر ایک بندہ برف کا صندوق لگا کر ٹھنڈی بوتلیں بیچا کرتا تھا۔ ایسے ہی دو چار غاروں کی منہ پر پردے تنے ہوتے کہ وہ غار کسی کی غربت کو پناہ دیے ہوتے تھے۔ یادوں کے دھندلکوں میں مجھے بچپن میں سردیوں کا ایک سفر ایسا یاد ہے کہ رات کو سفر کرتے کئی غاروں میں آگ جلتے دیکھی بھلے وہاں کوئی مزدور ہوں لیکن میں تو اپنے چاچا مستنصر حسین تارڑ کی طرح یہی کہوں گا کہ طلسم ہوشربا کے دہانے پر دربان روشنی کے لیے مشعلیں جلائے بیٹھے تھے۔

نہ جانے کتنی صدیوں کی شکست و ریخت سے پوٹھوہار کے نیم پتھریلے پہاڑوں میں یہ غار بنے ہوں گے۔ کیسے کیسے قافلوں نے گزرتے ان میں قیام کیا ہو گا۔ کتنے ہی مسافروں کو ان پہاڑوں نے سردی بارش اور گرمی سے پناہ دی ہو گی، پھر ان غاروں میں کیا کیا داستانیں سنائی گئی ہوں گی۔ پھر پوٹھوہار کی بارشیں جب برستی ہوں گی تو ان غاروں کے دہانوں پر پانی کی لڑیوں کا پردہ تن جاتا ہو گا، اور یہ غار کیسے کیسے رازوں کے امین ٹھہرے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کوئی دیو کسی حسین پری کو انہیں میں سے کسی غار میں ڈال کر قید کر گیا ہو پھر راہ گزرتے شہزادے نے اسے آزاد کروایا ہو۔ نہیں معلوم ان غاروں کی داستانیں کیسی ہوں گی لیکن یہ تو لازم ہیں بہت سی داستانیں ہوں گی۔

لیکن ہم نے اونچے درختوں کی بلندی اور پہاڑوں کے سنگلاخ پتھروں کا بانکپن غرور سمجھ کے توڑ ڈالا راولپنڈی شہر جس کی آخری حد کچہری چوک ہوا کرتا تھا ہم نے بیس پچیس سالوں میں ایسا پھیلایا کہ ہم نے نہ کوئی درخت بخشا نہ پہاڑ نہ دریا نہ آبشار بس سب کچھ فیز اور سیکٹروں میں بدل گیا۔ وہ طلسم ہوشربا کے دہانے غار ایسے ملیامیٹ ہوئے کہ ہم نے اپنی یادوں سے بھی کھرچ ڈالے۔ اب ہمارے پاس اپنی نئی نسل کو دینے کو یہ یاد بھی موجود نہیں کہ جرنیلی سڑک کے کنارے مخملی سبزے کی بنیاد میں غار ہوا کرتے تھے۔

لیکن چند دن پہلے اسی سڑک پر ایک حفاظتی پتھریلی دیوار کی اوٹ میں ایک غار پر نظر پڑی تو یہ میری اپنی یادوں سے مٹے یہ غاروں کی تذکرے زندہ ہو گئے۔ جی ٹی روڈ پر سواں پل سے تھوڑا آگے ایوب نیشنل پارک کے آغاز کی دوسری سمت آج بھی ایک غار باقی ہے۔ جن پہاڑوں کو ہم نے ملیامیٹ کر دیا اپ چاہے یہ سب بستیاں دوبارہ ملیامیٹ ہو جائیں وہ پہاڑ دوبارہ نہیں اگائے جا سکتے۔ سو اب نوع انسانی کبھی وہ غار نہیں دیکھ سکے گی جو ہم نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بسانے کے لیے ختم کر دیے۔ لیکن ایک معمولی سی کاوش یہ تو کی جا سکتی ہے کہ راولپنڈی جرنیلی سڑک کے اس آخری غار کو بچا لیا جائے۔ مجھے معلوم ہے سیمنٹ پتھر کنکریٹ پلاٹوں اور فائلوں کے عشق میں غرق اہل اقتدار کو اس غار میں کیسی دلچسپی؟

لیکن آپ یوں کیجیئے کہ اس پر بھی قبضہ کر لیں راولپنڈی کا آخری غار چار دیواری میں محبوس کر کے اس پر ٹکٹ لگا دیجیئے۔ اس سے پیسا کما لیں لیکن اسے زندہ رہنے دیں۔

بالکل ویسے ہی جس طرح آپ نے راولپنڈی کے سیکڑوں ایکڑ کے جنگل کاٹ کر ان پر کروڑوں ٹن کنکریٹ کا لیپ کر دیا اور پھر سوسائٹیوں کے راستوں پر بورڈ لگا رکھے ہیں کہ ”درخت لگائیے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments