عورتیں معاشرے کی تعمیر میں ایک ماہر تعمیرات کی حیثیت رکھتی ہیں


عورتیں معاشرے کی تعمیر میں ایک ماہر تعمیرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک عورت معاشرے میں کتنے ہی رشتوں میں مرد کی زندگی پر آسائش بنائے ہوئے ہیں۔ کسی نے عورتوں کی معاشرتی اور خاندانی حیثیت کی اہمیت کو کیا خوب صورت طور پر بیان کیا ہے کہ ”خواتین مردوں کی طرح کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان کی کوئی بیوی نہیں ہوتی جو انہیں مشورہ دے سکے۔“ عورت، بحیثیت بیوی، اس کے خاندانی کردار کو چند الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے، ”بیویاں جوانی میں شوہروں کی مالکن، درمیانی عمر میں ساتھی اور بڑھاپے میں ان کی نرسیں ہیں۔

“ عورتوں کے سارا دن کی تگ و دو، گھریلو اور ملازمت کی فکروں پریشانیوں کے بعد دن کے اختتام پران کی پذیرائی ہونی چاہیے اور انہیں سراہا جانا چاہیے۔ دور حاضر میں خواتین اپنے تعلیم اور علم کے ہنر کی بدولت خاندانی ترقی کے علاوہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو عورتیں مردوں کے برابر ہونے کی کوشش کرتی ہیں ان میں جذبہ کی کمی ہوتی ہے۔ لیکن چند برسوں سے معاشرے میں کلیدی حیثیت کی حامل عورت کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس ایشو پر بہت کچھ کہا بھی جا چکا ہے اور لکھا بھی جا چکا ہے۔ لیکن عجیب معاشرتی رویے دیکھنے میں آتے ہیں جس سے دل بوجھل اور احساسات پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ”۔ اس وقت اس نے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک میرے مرنے کی نوبت پہنچ گئی۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔“

اب تو ناقابل تصور اور غیر متوقع معاشرتی و سماجی مسائل اور ان کی نشان دہی کرتے واقعات سے ذہن و دل چھلنی اور گھائل ہونے لگے ہیں۔ بنت حوا تو کہیں خود اک کھلونا بن گئی اور کئی بنا دی گئی۔ سوچیں تو ان حالات میں تلخ سوالوں کے کئی ناگ پھن اٹھائے سامنے آ کر کھڑے ہوجائیں۔ ان سوالات کا جواب شاید کسی کے پاس ہو بھی اور شاید یہ پدر سری معاشرہ جواب دینا بھی نہ چاہے۔ اس موضوع سے متعلق عجیب سی ایک کیفیت نے گزشتہ کئی مہینوں سے اسیر کر رکھا ہے۔

میں حالت تصور میں حوا کی بیٹی کو ماضی کے ادوار میں لگی غلاموں کی منڈی میں برائے فروخت جنس کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ جہاں خرید دار ان کے اعضاء کو اچھی طرح ٹٹول کر اور تسلی کر کے خرید رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت بلوائیوں کے ہاتھوں اپنی عصمت کو محفوظ رکھنے کے لئے عورت خود کشی کر رہی ہے۔ افراتفری اور بد امنی کے اس ماحول میں جہاں متوقع حملہ آوروں سے اپنی عورتوں کی حفاظت کے لئے مرد مجبور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ وہ انہیں زہر کی پڑیاں یا پانی کے کنوؤں میں چھلانگ لگانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ ایک باشعور ذہن میں سوال اٹھتا ہے کیا یہ عورت ذات اسی مالک کل کی بنائی مخلوق نہیں؟ وہ عورت جسے ذات خداوندی نے حضرت آدم کے مدد گار کے طور پر تخلیق کیا تھا۔ اور اس کے بعد سوالوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

کیا عورت کے سماجی رشتے جیسے ماں، بہن، بیٹی اور ایسے تمام خاندانی رشتے بے وقعت ہیں؟ کیا گھروں، بازاروں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور مختلف اداروں میں عورت کا استحصال اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ صنف نازک ہے؟ کیا اس لئے عورت پہ ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں کہ اسے باوفا اور با اختیار نہیں سمجھا جاتا ہے؟ کیا عورت نے دنیا کی آسائشوں کے لئے خود کو تشہیر کا وسیلہ بنا کر اپنی حرمت اور احترام کھو دیا ہے؟ کیا عورت اس چیز سے بے خبر ہے کہ الٰہی قانون ہے کہ ”تیری رغبت تیرے شوہر کی طرف ہوگی“ ؟

کیا عورت ایک انسان ہوتے ہوئے اس اخلاقی اصول سے بھی لاعلم ہے کہ بدعنوانی اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال و دولت بے جڑ درخت کی مانند ہے جو تیزی سے پھیلتا تو ہے لیکن پھر یہ کمزور آسرا ایک دن زمین بوس ہو جاتا ہے؟ کیا مرد ہی عورت کو ناجائز دھندوں میں ملوث ہونے کے لئے مجبور کرتا ہے؟ کیا عورت صرف اور صرف بعض حالات میں اپنی اور اپنے بچوں کے لئے بھوک کے عفریت کے سامنے جھک جاتی ہے؟ کیا عورت صرف دو وقت کی روٹی کے لئے خود کو مقام عزت و احترام سے گرا لیتی ہے؟

کیا عورت پیٹ کو بڑا پاپی اور بھوک کو بلوان سمجھتی ہے؟ کیا جہالت اور شہوت کا تاریک اور بھیانک اندھیرا گھر سے نکلنے والی عورت اور بچیوں کو دانت نکوسے تکتا رہتا ہے اور موقع پاتے ہی ان کی عصمتوں کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیا عورت، ایک ماں اور ایک بیوی ہوتے ہوئے اس کا فرض کلی یہی ہے کہ اپنے خاندان کی خدمت میں ایک مزدور کی طرح اپنی محنت، اپنی طاقت اور جوانی کا خراج پیش کرتی رہے؟ کیا عورت جسے اپنے شکم میں رکھ کر کسی چیز کی کمی نہ آنے دے وہی مرد بڑھاپے میں اس عورت کو بے قدر اور عضو معطل جانے؟

کیا مرد پر طاری حیوانیات کا عفریت اسی وقت تسکین پاتا ہے جب تک وہ کسی بے بس عورت کا جنسی استحصال کر کے اس کا سر تن سے جدا نہ کر لے؟ کیا مرد کی شہوت کی آگ قبر میں سے عورت کے مردہ جسم کو نکال کر اور اس کی بے حرمتی کر کے ہی بجھتی ہے؟ کیا مرد اپنی بے عزتی کا بدلہ اور انتقام عورت کے منہ پر تیزاب پھینک کر ہی لے پاتا ہے؟ کیا مذہبی اقلیتی عورتوں کے اغواء، جبری تبدیلی مذہب و شادی سے ہی کوئی مرد مذہبی سورما کہلاتا ہے؟

کیا ”ستی“ کی رسم میں عورت کے اپنے شوہر کے ساتھ جل مرنے سے ہی اس کی وفا شعاری کا ثبوت ملتا ہے؟ کیا ”کاروکاری“ میں عورت کو ”کاری“ قرار دے کر موت کی نیند سلانے سے خاندان کی عزت و ناموس بحال ہوتی ہے؟ کب تک اس پدر سری معاشرے میں عورت کو کم عقل اور دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا رہے گا؟ کب تک ہمارے معاشرے میں عمر رسیدہ عورت بے وقعت جب کہ سر سفید بوڑھے مرد معتبر اور با حیثیت تصور کیے جاتے رہیں گے؟

راقم کے نزدیک یہ معاشرتی رویے تعمیری نہیں بلکہ منفی نوعیت کے ہیں۔ ان رویوں میں سدھار کیسے ممکن ہو۔ مذہبی اور معاشرتی پلیٹ فارم کی افادیت سے انکار نہیں۔ لیکن شہوت اور حریص پن ذہنیت ایک آکاس بیل کی طرح وہاں تک بھی پھیل چکی ہے۔ لیکن ایک امید کی کرن، قدرت نے ان حقائق میں رکھ چھوڑی ہے کہ جہاں سیہ شب ہے وہاں ایک اجلی سحر بھی ہے، جہاں موت کی پیامبر طوفانی لہریں ہیں وہیں محفوظ ساحلوں کی شنید بھی ہے۔ جہاں طویل مسافتیں ہیں وہیں منزلوں کا پتہ دیتے سنگ میل بھی ہیں۔ کاش کے قوم کے قلب و نظر میں عورت ذات کے لئے احترام کا جذبہ جاگے۔ اور ایک عورت گھر سے باہر قدم نکالتے ہوئے عدم تحفظ کا شکار نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments