اگلا افغانستان کون سا ہے؟


افغانستان میں طالبان کی برق رفتار کامیابی سے جہاں مغرب و مشرق کے اتحادی امریکی یقین دہانیوں پر شکوک میں مبتلا نظر آتے ہیں وہیں بزور نظام تبدیل کرنے کے خواہاں جہادی حلقوں میں بھی خود اعتمادی کی تازہ لہر دیکھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ طالبان کی کامیابی پر صومالیہ میں الشہاب تنظیم کے زیرِ نگیں علاقوں میں تین روزہ جشن منایا گیا۔

شام کے صوبہ ادلب میں حیات تحریر الشام کے چھاپہ ماروں نے پریڈ کی اور مٹھائی تقسیم کی۔ یمن کے کچھ علاقوں میں آتش بازی چھوڑی گئی اور دیگر افریقی و ایشیائی ممالک میں متحرک جہادی تنظیموں کی جانب سے تہنیتی پیغامات اور سوشل میڈیا میمز کی بھرمار ہو گئی۔ وہ الگ بات کہ داعش یا ان سے منسلک حلقوں کو ہرگز خوشی نہیں ہوئی۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان بھی معیاری مسلمان نہیں ہیں۔

طالبان کی کامیابی سے خوش جہادی حلقوں کو امید ہے کہ اگر عام ہتھیاروں سے مسلح ملیشیا ایک سپر پاور کو دوڑا سکتی ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی کسی طالب کا دس برس پہلے کہا گیا مقولہ درست ثابت ہوا کہ ’’ ان کے پاس گھڑی ہے مگر ہمارے پاس وقت ہے۔ ‘‘

صحارا پار افریقی ملک مالی کے شمالی علاقوں پر مبینہ طور پر القاعدہ سے منسلک جہادی گروہ کی رٹ پچھلے ایک عشرے سے قائم ہے۔ دو ہزار تیرہ میں جب اس گروہ نے ٹمبکٹو سمیت کئی اہم شمالی شہروں پر قبضہ کر لیا تو سابق نو آبادیاتی طاقت فرانس کے فوجی دستے مالی کی اتحادی حکومت کے تحفظ کے لیے ہنگامی طور پر اتارے گئے اور مقبوضہ شہر واپس لے لیے گئے۔

مگر اب سے دو ماہ قبل فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا کہ ہم ان علاقوں میں تاحیات نہیں رہیں گے۔ مالی میں فرانسیسی دستوں کے کمانڈر مارک کونریت نے دعوی کیا کہ اب صحارا پار ممالک (مالی، نائجر، گنی بساؤ، چاڈ) کے فوجی براہ راست دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

چنانچہ فرانس کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ قصبات کی حفاظت کا کنٹرول مقامی سپاہ کے سپرد کیا گیا جب کہ فرانس بوقتِ ضرورت فضائی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ پالیسی میں اس تبدیلی کا جواب شدت پسندوں نے کچھ یوں دیا کہ نائیجر سے متصل مالی کے ایک سرحدی گاؤں میں سرکار کی حمایت کے شبے میں آٹھ اگست کو اکاون دیہاتیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس برس اس علاقے میں اب تک سات سو سے زائد سویلین مارے جا چکے ہیں۔

مشرق میں صومالیہ سے مغرب میں ماریطانیہ سمیت بارہ افریقی ممالک میں امریکی اسپیشل فورسز کے لگ بھگ سات ہزار ارکان موجود ہیں۔ نائجرمیں آغادیر کے مقام پر امریکا نے ایک بڑا فوجی اڈہ بھی تعمیر کیا ہے۔ مگر تیل کی دولت سے مالامال مغربی افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائجیریا کے صدر محمد بو ہاری کا ایک مضمون پندرہ اگست کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شایع ہوا۔ ( اسی دن کابل میں طالبان بھی داخل ہوئے تھے)۔ مضمون کے مطابق جیسے جیسے یورپی ممالک انتہاپسندی سے لڑنے کی ہمت کھو رہے ہیں ویسے ویسے ہمیں آنے والے وقت کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

نائجیریا کو شدت پسند گروہ بوکو حرام کے چیلنج کا مسلسل سامنا ہے۔ مگر بوکو حرام سے نمٹنے کے لیے سرکاری فوج کے جو دستے شمالی نائجیریا میں تعینات کیے گئے ہیں ان کے ہاتھوں بھی عام لوگوں کی زندگی حرام ہے۔ لوٹ مار، کرپشن، ٹارچر، اسلحہ فروخت کر کے پیسے جیبوں میں ڈال لینا وغیرہ وغیرہ۔

کچھ یہی حال کرپشن کی عالمی رینکنگ میں سرِفہرست صومالیہ کا بھی ہے۔ جہاں شدت پسند تنظیم الشہاب سے لڑنے کے لیے امریکی اسپیشل فورسز کے آٹھ سو ارکان تعینات ہیں۔ الشہاب کے ٹھکانوں کو ڈرون حملوں کا سامنا رہتا ہے۔

سابق صدر ٹرمپ نے گزشتہ دسمبر میں امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندیہ دیا تھا۔ مگر جولائی سے الشہاب کے خلاف دوبارہ ڈرون حملوں میں شدت آ گئی۔ صومالیہ کے کچھ علاقے پر ایتھوپیا بھی چند برس سے قابض ہے۔ مگر اب ایتھوپیا کو اپنے ہی ایک صوبے تگرے میں شورش کا سامنا ہے لہٰذا اس کے دستے بھی صومالیہ چھوڑ رہے ہیں۔

ترکی اور برطانیہ نے صومالی فوج کو الشہاب کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت بھی دی ہے۔ مگر ملک کے تقریباً نصف دیہی علاقوں پر الشہاب کی ہی مرضی چلتی ہے۔ پچھلے کئی برس کے تجربے نے الشہاب کو ایک منظم قوت بنا دیا ہے۔ وہ ریاستی بد انتظامی خلا کو پر کر رہی ہے۔ اس کا اپنا محصولاتی و انصافی نظام ہے۔ اگر امریکی فوج اور مغربی فوجی مشیر صومالیہ چھوڑ دیں تو اس ملک کا شیرازہ ایک بار پھر بکھر جائے گا یا الشہاب ریاست پر بھی قبضہ کر سکتی ہے۔

صومالیہ اور افغانستان میں متعین رہنے والے ایک سابق برطانوی سفارت کار مائیک کیٹنگ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارا ماڈل ناقص ہے۔ ساری توجہ اور پیسہ میزبان ملک کی فوجی تربیت اور تکنیکی مہارت بڑھانے پر ہے۔ مگر اس تربیت یافتہ فوج کی پشت پناہی کے لیے جو مضبوط ریاستی سیاسی ڈھانچہ درکار ہے اس کی تشکیل، استحکام یا اس کے نتیجے میں گڈ گورننس کے فروغ پر ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ چونکہ مقامی ادارہ سازی نہیں ہو پاتی لہٰذا جس فوج کی تربیت پر پوری توانائی صرف ہوتی ہے وہ بھی یہی سوچ کر دل ہار جاتی ہے کہ ہم کس کے لیے لڑیں۔ افغانستان سے افریقہ تک یہی مسئلہ درپیش ہے۔

شروع شروع میں ریاستی نا اہلی، روزمرہ کرپشن اور عدم انصاف سے تنگ آئے عوام متبادل قوت کے طور پر شدت پسند تنظیموں کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔ مگر پھر ان تنظیموں کا سخت گیر و بے لچک رویہ ہی لوگوں کو دور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے داعش نے جب موصل پر قبضہ کیا تو وہاں ان کے خلاف کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوئی۔ بجلی کا نظام بہتر ہو گیا۔ کچرا باقاعدگی سے صاف ہونے لگا۔ لوگوں کے آپس کے تنازعات کے فیصلے تیزی سے ہونے لگے۔ رشوت میں بہت حد تک کمی آئی۔

جب کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے والی خلقت کو نامناسب لباس پہننے، داڑھی نہ بڑھانے یا خواتین کے تنہا باہر نکلنے یا پردے کے احکامات پر تسلی بخش عمل نہ کرنے یا مرد حضرات کو سگریٹ نوشی یا پتلون شرٹ پہننے پر سزائیں ملنی شروع ہوئیں۔ اور مخالفین کو پنجروں میں بند کر کے زندہ جلانے یا اقلیتی یزیدی خواتین کی غلام منڈی جیسی تصاویر سامنے آئیں تو ابتدائی دنوں کی عوامی خوشی کافور ہوتی چلی گئی اور تین برس بعد وہی لوگ جو داعش کے آنے پر مطمئن تھے موصل پر دوبارہ قبضہ کرنے والی عراقی فوج کا خیر مقدم کر رہے تھے کہ جس سے وہ تین برس پہلے سخت خفا تھے۔

طالبان کی پہلی حکومت کے زوال میں خارجی وجوہات کے علاوہ اندرونِ ملک عام لوگوں پر ضرورت سے زیادہ سختی بھی تھی۔ جنوبی افغانستان کی جس دیہی اکثریت نے مجاہدین کے بدنظم نظامِ حکومت کے متبادل کے طور پر طالبان کا خیرمقدم کرتے ہوئے امن و امان کی بحالی پر سکھ کا سانس لیا۔ وہی لوگ اکتوبر دو ہزار ایک میں غیر جانبدار ہو گئے۔ اور جب اگلے بیس برس میں وہی پرانی بدعنوان و بدنظم اشرافیہ ان پر مسلط کر دی گئی جس سے نجات پر طالبان کا خیرمقدم کیا گیا تھا تو بمباری، کرپشن اور مرکزی حکومت کی لاتعلقی سے تنگ آئی خلقت نے پھر طالبان کے لیے بازو وا کر دیے۔

اسی لیے افغانستان میں اس وقت جو بھی سیاسی و سماجی بے چینی نظر آ رہی ہے وہ شہری علاقوں میں ہے۔ دیہی آبادی اس سے لاتعلق ہے اور طالبان کی اکثریت کا پس منظر بھی دیہی ہے۔ اگر اس بار بھی سخت گیری اور جبری گورننس کا سابقہ دور کی طرح مظاہرہ ہوا تو پھر وہی ہوگا جو ایسے حالات میں دوبارہ ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔

مسلمان سماجوں میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونا، پھر اس سے اکتا جانا اور پھر راغب ہونا۔ اس کا ایک بنیادی سبب فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی سیاسی و تاریخی و جغرافیائی ناانصافی تو خیر ہے ہی۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جب مذہبی سیاسی جماعتیں پہلے سے طے شدہ آئینی و قانونی ضوابط کے اندر بھی کھیلنے کی کوشش کرتی ہیں اور بلٹ کے بجائے بیلٹ کا راستہ اپناتی ہیں تو بھی انھیں اقتدار میں پوری طرح شریک نہیں کیا جاتا۔ اس کی واضح مثال چلی، الجزائر، مصر، اردن اور اب تیونس ہے۔ ان جماعتوں کے حامیوں کی ایک بڑی اکثریت تو دب جاتی ہے مگر کچھ لوگ جن کا یقین ووٹ کی سیاست پر پہلے ہی متزلزل ہوتا ہے وہ کلیتاً آئینی دائرے کی خوش گمانی سے آزاد ہو کر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔

یہ کلیہ جتنا دائیں بازو پر منطبق ہے اتنا ہی بائیں بازو پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ آمریت و  فاشزم کو بھلے اپنی پسند کا کوئی بھی نظریاتی یا غیر نظریاتی نام دے لیں۔ رہتا وہ فاشزم ہی ہے۔ اور انسان فاشزم دائمی طورپر برداشت کر ہی نہیں سکتا۔

حکومتیں ہتھیار اٹھانے والوں کو دہشت گرد سمجھتی ہیں اور وہ حکومتوں کو ظلم کا منبع سمجھتے ہیں۔ یوں اگلا خونی راؤنڈ شروع ہو جاتا ہے اور اس لڑائی میں ہر بار گھاس ہی کچلی جاتی ہے۔ جب تک یہ گھن چکر نہیں ٹوٹے گا سماج اور ملک یونہی ٹوٹتے بنتے رہیں گے۔

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments