چین جیک ما جیسے صنعت کاروں کو دبا کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟


فائل فوٹو
صنعت کار جیک ما کی اقتصادی سلطنت کی ایک اہم ای کامرس کمپنی ،علی بابا پر اپریل میں 2.8 ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا
چینی صنعت کار جیک ما کے لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ان کی کمپنی 'علی بابا' مالیاتی یونٹ 'گروپو ہورمیگا' نومبر 2020 میں ہانگ کانگ اور شنگھائی کے اسٹاک ایکسچینج میں درج ہونا تھا۔

‘گروپو ہرمیگا’ کی قیمت تقریباً 34.4 ارب ڈالر تھی۔ اسے علی بابا کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہونے والی لِسٹِنگ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن آخری چند منٹ میں حالات بدل گئے۔

چینی مالیاتی ریگولیٹرز نے مارکیٹ میں ‘مسابقتی خدشات’کا حوالہ دیتے ہوئے لِسٹنگ کا عمل روک دیا۔ اتنا ہی نہیں اس لسٹنگ کے سلسلے میں ہونے والے جشن میں بجلی کی فراہمی بند کر دی گئی۔موسیقی روک دی گئی اور تقریب کے مہمانوں سے گھر جانے کو کہا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے علی بابا سے کہا کہ وہ کمپنی کی تشکیل نو کرے۔ جیک ما جو کبھی چین کی کامیابی کی علامت ہوا کرتے تھے، مہینوں تک عوام کی نظروں سے اوجھل رہے۔

اس غیر متوقع فیصلے کے اثرات بین الاقوامی سطح پر دیکھے گئے۔ لیکن پھر بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ علی بابا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف شی جن پنگ حکومت کی کارروائی کا آغاز تھا۔

صدر شی جن پنگ کا فیصلہ

سرکاری میڈیا کی خبروں کے مطابق چینی کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس کے دوران صدر شی جن پنگ نے ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر کنٹرول سخت کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

شی جن پنگ نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد ‘غیر معقول سرمائے کی توسیع کو روکنا اور بےحساب ترقی سے نمٹنا ہے’۔

واضح انتباہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اُن کمپنیوں کے خلاف مہم کو دوگنا کریں گے۔ شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سوشلسٹ مارکیٹ کی معیشت کو بہتر بنانے اور عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔

‘عام لوگوں کی خوشحالی’ کا نعرہ شی جن پنگ کی حکومت کا نیا منترہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسائل کی دوبارہ تقسیم اور کمپنیوں کے درمیان مقابلہ بڑھانے کے لیے یہ ضروری تھا۔

‘گروپو ہورمیگا’ کے آئی پی او پر پابندی کے بعد حکومت نے دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں پر بھی کئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ کمپنیاں ای کامرس ، ٹرانسپورٹیشن ، فن ٹیک ، ویڈیو گیمز اور آن لائن تعلیمی کاروبار سے وابستہ ہیں۔

صدر شی جن پنگ

صدر شی جن پنگ نے ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر کنٹرول سخت کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے

سب سے بڑا جرمانہ

صنعت کار جیک ما کی اقتصادی سلطنت کی ایک اہم ای کامرس کمپنی ،علی بابا پر اپریل میں دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا۔ یہ ملک کی اقتصادی تاریخ میں کسی کمپنی پر اب تک کا سب سے بڑا جرمانہ تھا۔

جرمانے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کمپنی نے مارکیٹ میں اپنی غالب پوزیشن کا غلط استعمال کیا ہے۔

حکومت کی نئی پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنیاں ہیں-ٹینسینٹ (انٹرنیٹ کمپنی) ، میٹیوان (فوڈ ڈیلیوری) ، پنڈیوڈیو (ای کامرس) ، دیدی (ایپ پر مبنی ٹیکسی سروس) ، فل ٹرک الائنس ، کنزیوم نے علیحدہ علیحدہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے فیصلے میں تعاون کریں گے۔

اس حوالے سے تازہ ترین معاملہ الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی بی وائی ای ڈی کا ہے۔ کمپنی کا اپنے چِپ بنانے والے یونٹ میں حصص بیچنے کا منصوبہ تھا لیکن ‘حکومتی تحقیقات’ کی وجہ سے اس عمل کو درمیان میں روکنا پڑا۔

کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش

ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف جاری حکومتی مہم پر شی جن پنگ کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تمام معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حکومتی فیصلوں کو کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے جواز کے لیے استعمال کیے جانے والے دلائل میں ‘اجارہ داریوں کو روکنا’ اور ‘صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت’ شامل ہیں۔

اس حوالے سے حال ہی میں ایک قانون بھی منظور کیا گیا ہے۔ جس کے تحت حساس ذاتی ڈیٹا کا غیر قانونی حصول کمپنی کے کام کو معطل یا منسوخ کر سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اس مہم میں ڈیٹا کی حفاظت کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ‘بے حساب سرمائے میں توسیع’ کی دلیل استعمال کی جا رہی ہے۔

پچھلے سال دسمبر میں حکومت نے اس جملے کا خوب استعمال کیا تھا جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ ‘کمپنیوں کو عوامی مفاد کی قیمت پر ترقی نہیں کرنے دی جائے گی’۔

فائل فوٹو

حکومت کی نئی پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنیاں ہیں-ٹینسینٹ (انٹرنیٹ کمپنی) ، میٹیوان (فوڈ ڈیلیوری) ، پنڈیوڈیو (ای کامرس) ، دیدی (ایپ پر مبنی ٹیکسی سروس) ہیں

بہت سے تجزیہ کار اس حکومتی مہم کو کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

حکومت کا نظریہ

سنگاپور کے ایک بزنس سکول میں بین الاقوامی کاروبار کے پروفیسر مائیکل وٹ کہتے ہیں ‘چینی کمیونسٹ پارٹی ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی پر بریک لگانا چاہتی ہے۔ اس صنعت سے ایسے اشارے ملے تھے کہ جیسے وہ بھول گئے تھے کہ کمان کس کے ہاتھ میں ہے۔

‘جیک ما کے ساتھ یہی ہوا۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کی جس کے بعد ان کی کمپنی سے متعلقہ آئی پی او کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دیدی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے سرکاری رہنما اصولوں پر عمل نہیں کیا’۔

‘حکومت کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ان کمپنیوں کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ معاملے کی اصل جڑ یہ ہے کہ چین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کمان کس کے ہاتھ میں ہے’۔

ایک امریکی تھنک ٹینک پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس کے محقق مارٹن چوزینپا کا کہنا ہے کہ کنٹرول قائم کرنے کے علاوہ حکومت کچھ اور حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کی کچھ جائز وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

مارٹن چوزینپا کہتے ہیں ‘عام لوگوں کے پرائیویسی سے متعلقہ ڈیٹا کا بہتر تحفظ اور دنیا بھر کے معاشروں میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو روکنا ایک درست وجہ ہو سکتی ہے’۔

فائل فوٹو

حکومت نہیں چاہتی کہ چینی کمپنیوں تک غیر ملکی کمپنیوں کو رسائی ملے

‘تکنیکی بالادستی’

مارٹن چوزینپا کہتے ہیں ‘ اگر ہم ڈیٹا کو قومیانے بات کر رہے ہیں۔ ہم ان کمپنیوں پر سخت قوانین لگانے کی بات کر رہے ہیں جن میں پرائیویٹ کمپنیوں کے پنپنے کی گنجائش کم ہے تو یہ ایک بڑا مسئلہ لگتا ہے’۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں چینی لا سینٹر کی ڈائریکٹر انجیلا ژانگ نے اسے تاریخی تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ریگولیشن سے متعلق ایک عرصے سے خدشات تھے اور حکومتی پابندیاں صرف اس کے حل کے لیے لائی گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ‘چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں اب تک انتہائی لچکدار ماحول میں کام کر رہی ہیں لیکن اب ان کمپنیوں کے لیے قوانین طے کیے جا رہے ہیں۔’

فائل فوٹو

کیا حکومت تکنیکی بالا دستی چاہتی ہے

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک بھی اسی طرح ٹیکنالوجی کے شعبے پر اپنا کنٹرول بڑھا رہے ہیں۔

لندن سکول آف اکنامکس کے ماہر کیو جن کا کہنا ہے کہ چین کا مقصد ایک طرح کی ‘تکنیکی بالادستی’ قائم کرنا ہے تاکہ وہ کلیدی شعبوں میں عالمی معیارقائم کر سکے۔ اس سے بین الاقوامی معیشت پر اس کے اثرات بڑھیں گے۔

غیر ملکی کمپنیوں تک رسائی

ای کامرس یا ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بجائے حکمت عملی کے لحاظ سے زیادہ اہم شعبوں جیسے کوانٹم کمپیوٹر ، سیمی کنڈکٹر اور سیٹلائٹ سیکٹر کی ترقی میں حکومت کی دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت غیر ملکی کمپنیوں کی چینی کمپنیوں تک رسائی کو محدود کرنا چاہتی ہے۔

فائل فوٹو

چینی حکومت اپنی معیشت کے ایک بڑے حصے پر قوانین اور ضابطوں کو سختی سے نافذ کرنا چاہتی ہے

مشاورتی فرم مارکم برنسٹین اینڈ پنچک (ایم بی پی) کے شریک چیئرمین ڈریو برنسٹین کا کہنا ہے کہ چین میں ہونے والی تبدیلیوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کو اس شعبے میں نقل کرنے والے کاپی کیٹس کے بجائے ٹائیگر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

ای کامرس یا ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بجائے حکمت عملی کے لحاظ سے زیادہ اہم شعبوں جیسے کوانٹم کمپیوٹر ، سیمی کنڈکٹر اور سیٹلائٹ سیکٹر کی ترقی میں حکومت کی دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کا سال 2025 کے لیے حکومت کا منصوبہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چینی حکومت اپنی معیشت کے ایک بڑے حصے پر قوانین اور ضابطوں کو سختی سے نافذ کرنا چاہتی ہے۔

سنگاپور میں بی بی سی کے نامہ نگار پیٹر ہاسکنز کا کہنا ہے کہ نئے قواعد و ضوابط کا دائرہ کار تکنالوجی کے شعبے سے بڑا ہونے والا ہے۔ اس میں قومی سلامتی اور تجارتی اجارہ داری کے پہلو بھی شامل ہونگے۔

چین اور جاپان کی دشمنی کی کہانی جو چین اپنے شہریوں کو بھولنے نہیں دیتا

انڈیا چین سرحدی کشیدگی: چین پیچھے ہٹنے پر کیسے راضی ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp