لہری: شوخ اداکار کا سٹینو گرافر سے ’وی آئی پی‘ کامیڈین بننے تک کا سفر

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


لہری
لہری فی البدیہ جملوں سے فلموں کے مناظر میں مزاح کا عنصر شامل کر دیتے تھے
اداکار لہری نے جب فلموں سے ریٹائر ہونے کے بعد داڑھی بڑھا لی اور وہ صوم و صلوۃ کی پابندی بھی کرنے لگے تو ان دنوں معین اختر نے سرکاری ٹی وی کے لیے ان سے مکالمہ کیا جو قہقہوں کا ورلڈ کپ ثابت ہوا۔

معین اختر: لہری صاحب بھابی کیسی ہیں؟

لہری: وہی پرانی والی ہے یار (حاضرین کے قہقے)

معین اختر (بے تحاشہ ہنستے ہوئے) 30 سال سے زیادہ آپ نے فلموں میں کام کیا ان 30 برسوں میں فلم انڈسٹری کی طرف آپ کی کوئی اولاد نہیں آئی؟

لہری (انتہائی سنجیدگی سے) جی نہیں۔۔۔ فلم انڈسٹری کی طرف سے میری کوئی اولاد نہیں آئی۔۔۔ لہری کی یہ باتیں سن کر حاضرین کے ساتھ معین اختر بھی اچھل اچھل کر قہقہے لگا رہے تھے حالانکہ معین اختر بذات خود بھی قہقہوں کے اس کھیل کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی تھے۔

لہری کا اصلی نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ وہ دو جنوری 1929 کو ہندوستان کے علاقے کانپور میں پیدا ہوئے جو معین اختر کا بھی شہر تھا۔ لہری اٹھارہ سال کی عمر میں قیام پاکستان کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آ کر آباد ہوئے۔

لہری سٹینو گرافر تھے جو ڈکٹیشن آنکھ جھپکنے سے پہلے ٹائپ کر دیتے

لہری صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر نے بتایا کہ ابا جان اداکار بننے سے پہلے ٹائپسٹ اور سٹینو گرافر تھے۔

’وہ بتاتے تھے کہ ٹائپنگ کرتے ہوئے میری سپیڈ بہت زیادہ تھی، اُدھر میرے باس لفظ اور جملہ ادا کرتے اِدھر میں جملہ چھاپ کر فل سٹاپ لگا دیا کرتا تھا۔‘

لہری پیدائشی طور پر بذلہ سنج اور جملہ باز تھے۔ مہران سفیر بتاتے ہیں کہ ’ابا (لہری صاحب) کی یہ صلاحیت اس وقت تک قائم رہی جب تک وہ ہوش میں رہے۔‘

ذیابطیس کی زیادتی کی وجہ سے زندگی کے آخری دنوں میں ان کے دونوں گھٹنے کاٹ دیے گئے تھے، دل کے عارضے کے باعث ان کی اوپن ہارٹ سرجری کے علاوہ پروسٹیٹ کا آپریشن بھی ہوا لیکن ان تمام طبی پیچدگیوں کے باوجود لہری صاحب کی زندہ دلی برقرار رہی۔

انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز ون مین شو سے کیا۔ ایک شو سے انھیں 30 روپے ملتے تھے جسے وصول کرنے کے بعد لہری کو اس دن مزید پیسے کمانا پسند نہیں تھا۔ انھیں اپنے لیے فلموں میں کام کرنا بھی پسند نہیں تھا لیکن جب فلم انڈسٹری کا حصہ بنے تو بہترین کامیڈین کے 11 ایوارڈ اپنے نام کیے۔

یہ لہری صاحب کا ایک منفرد ریکارڈ ہے جسے کوئی دوسرا توڑ نہیں سکا۔ جن فلموں کے لیے انھیں ایوارڈ دیے گئے ان میں دامن، پیغام، کنیز، میں وہ نہیں، صاعقہ، نئی دلہن، انجمن، دل لگی، آج اور کل، نیا انداز، صائمہ اور بیوی ہو تو ایسی شامل رہیں۔

اداکارہ شیلارحمانی کو قریب سے دیکھنے کے لیے فلم سائن کر لی

ایک مرتبہ لہری صاحب نے سینئر ٹی وی ہوسٹ مہتاب چنا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’اداکار ابو شاہ ان کے دوست تھے جو باریش تھے اور فلموں میں فرشتہ یا اس سے ملتے جلتے نیک و کار انسان کا کردار کیا کرتے تھے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں وہ فرشتہ صفات کی ضد تھے۔

لہری نے بتایا کہ ابوشاہ نے کہا کہ انڈیا سے بہت بڑا ڈائریکٹر آیا ہے او پی دتہ اور وہ فلم ’ٹیکسی ڈرائیور‘ کی ہیروئن شیلا رحمانی کے ساتھ ایک فلم بنا رہا ہے۔

شیلا پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سیکس سمبل کے طور پر مشہور تھیں۔

لہری صاحب نے بتایا کہ ’میں نے سوچا مجھے فلم سے تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن شیلارحمانی کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ ابو شاہ کے ساتھ ایک فلمی دفتر گیا جہاں سٹاف کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ انھوں نے کھاتے کھاتے مجھ سے پوچھا آپ کیا بیچتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ ’تناول ماحضر‘ فرما رہے ہیں اور میں بیچنا شروع کر دوں اچھا نہیں لگتا۔ فلمی سٹاف کھانا تناول فرما چکا تو میں نے اپنی مشہور آئٹم ’مریض ِعشق‘ سنائی، وہ سب من گھنے بن کر بیٹھے رہے۔ میں سمجھ گیا یہ بدتمیزی کر رہے ہیں، میں نے پینترے بدلے اور بالآخر شیلارحمانی کو دیکھنے کا بندوبست ہو گیا یعنی ہمیں فلم میں کام مل گیا۔‘

لہری

انور مقصود، مصطفی قریشی، معین اختر، کمال خان، ندیم بیگ، قاضی واجد اور دیگر کی لہری کے ساتھ یادگار تصویر

فلم ’عشق پر زورنہیں‘ کے لیے لہری کا کراچی سے لاہور کا سفر

لہری صاحب کو فلموں میں کراچی سے لاہور لانے کا سہرا پنجابی فلموں کے ولن تایا الیاس کشمیری کے سر ہے۔

لہری صاحب یہ قصہ سناتے بڑا نقشہ باندھا کرتے تھے۔ الیاس کشمیری ایک فلم پروڈیوس کر رہے تھے ’عشق پر زور نہیں‘ کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ وہ ریل کا سیکنڈ کلاس ٹکٹ اور لاہور میں درمیانے درجے کا ہوٹل فراہم کریں گے۔

’ریل سے اُترا اور لاہور سٹیشن پر اس شخص کو تاڑنے لگا جس نے مجھے ریسیو کرنا تھا لیکن وہاں ہوا یہ کہ پہلے ریل گئی، اس کے بعد مسافر گئے، قلی بھی چلے گئے اور پھر سودا بیچنے والے بھی چلے گئے لیکن کوئی مجھے لینے نہ آیا۔ خالی سٹیشن پر میں بھوت کی طرح اکیلا گھوم رہا تھا، بالآخر ایک بینچ پر تھک کر بیٹھ گیا۔‘

’ایک شخص مجھے گھور رہا تھا، اس نے مجھ سے پوچھا آپ کہیں باہر سے آئے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں میں اس بینچ پر رہتا ہوں، کیا آپ کو الیاس کشمیری صاحب نے بھیجا ہے، اس نے کہا جی ہاں، میں نے عرض کیا مجھے ہوٹل لے چلو، اس نے کہا نہیں پہلے آپ میرے ساتھ چلیں۔ وہ شخص مجھے لکشمی چوک ایک سنیما کی چھت پر لے گیا جہاں کشمیری صاحب تاش کی بازی لگا رہے تھے۔‘

’کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر اونگھتا رہا اس کے بعد میں نے کشمیری صاحب سے کہا مجھے ہوٹل بھیج دیجیے میں نہانا چاہتا ہوں۔ کشمیری صاحب نے اس شخص کو اٹھنی دے کر کہا لہری صاحب کو حمام پر نہلا لاؤ۔ مجھے یوں لگا کہ وہ شخص مردے نہلانے والا اور میں مردہ ہوں۔ اس شخص نے کہا کشمیری صاحب اب اٹھنی کا کونسا زمانہ ہے پورا ایک روپیہ دیجیے، بولے صابن اپنا لے کر جاؤ۔‘

لہری کے فی البدیہہ ڈائیلاگ پر منورظریف سے ہنسی ضبط نہ ہوسکی

لہری صاحب کے جونیئر مگر فلم کے سینیئر اداکار غلام محی الدین جنھوں نے اپنے کیریئر کی یاد گار فلموں ’شرارت‘ اور ’موم کی گڑیا ‘ کی شوٹنگز کے کئی ایک دلچسپ قصے سنائے۔

انھوں نے بتایا کہ ’شرارت‘ ہدایتکار ایس سلیمان کی فلم تھی جس کی کہانی اور منظر نامہ بہت ہی مزاحیہ تھا۔ میں فلم کا ہیرو اور اداکارہ ممتاز ہیروئن تھیں جبکہ لہری صاحب ممتاز کے ابا کا کردار ادا کر رہے تھے۔‘

غلام محی الدین بتاتے ہیں کہ ’کہانی کے مطابق میں اپنے جگری دوست منور ظریف کو اپنی آنٹی کا بہروپ دے کر ممتاز کے گھر بھیجتا ہوں تاکہ وہ میرے لیے ممتاز کا رشتہ مانگیں۔ ممتاز اور لہری کا تعلق چونکہ کھاتے پیتے گھرانے سے ہوتا ہے اس لیے آنٹی بھی امیرعورت کا بہروپ دھارتی ہیں۔ بہترین ساڑھی، اونچی ہیل، ماڈرن وگ، جیولری اور ہاتھوں میں سفید دستانے پہنے ہوئے منور ظریف بہت ہی جاذب نظر آنٹی دکھائی دیتے ہیں۔ لہری صاحب جب آنٹی کو دیکھتے ہیں تو دل ہاربیٹھتے ہیں۔‘

غلام محی الدین نے بتایا کہ مذکورہ فلم کی کہانی، منظر نامے اور جملوں میں بہت سی فی البدیہہ باتیں لہری صاحب اور منور ظریف نے اپنے تئیں کی تھیں۔

’ایک منظر میں میری اور ممتاز کی منگنی ہوتی ہے، منور ظریف آنٹی کے روپ میں ممتاز سے کہتے ہیں۔۔ بیٹی اپنا ہاتھ اِدھر لاؤ تاکہ میں تمہیں منگنی کی انگوٹھی پہنا دوں، لہری صاحب شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ منور ظریف کی طرف بڑھا دیتے ہیں۔۔۔ لہری صاحب کی یہ حرکت اس قدر برجستہ تھی کہ منورظریف جیسے مستند اور پیشہ ور اپنی ہنسی کو بمشکل ضبط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو تو میں ہتھکڑیاں پہناؤں گی، میں بچی کو انگوٹھی پہنانے کی بات کر رہی ہوں۔‘

رائٹر کامیڈی لکھنے سے قاصر ہوتے تو کامیڈینز اس کمی کو اپنے تئیں پورا کرتے رہے

اداکار غلام محی الدین کہتے ہیں کہ ’ہمارے کامیڈینز برصغیر سمیت دنیا بھر کا بہترین ٹیلنٹ تسلیم کیے گئے ہیں جو سکرپٹ پڑھ کر اس میں اپنے پاس سے اضافہ کرتے رہے وہ اقوال زریں بنتا رہا۔‘

غلام محی الدین کا کہنا تھا کہ ’یہ روایت اداکار ظریف، لہری، منورظریف، ننھا، علی اعجاز اور رنگیلا سمیت دوسرے فنکاروں نے فلم میں رکھی تھی اسے بعد میں آنے والوں نے اسی شاندار انداز میں آگے بڑھایا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں کہانی کار تو تھے لیکن مزاح لکھنے والے نہیں تھے لیکن اس کمی کو ہمارے کامیڈینز نے نہ صرف پورا کیا بلکہ اس شعبہ میں شاندار طریقے سے خود کفالت اختیار کر لی۔‘

غلام محی الدین نے بتایا کہ’سنہ 1976 تک جب فلم انڈسٹری میں میری مصروفیات بڑھ گئیں تو میں لاہور میں کرائے کے مکان میں منتقل ہو گیا۔ تب لہری صاحب میرے گھر آئے اور انھوں نے ایک شفیق بزرگ کی طرح گھر سے کام پر جانے اور پھر واپس آنے کا ایک وظیفہ بتایا جو میں 45 سال سے بلاناغہ ادا کرتا ہوں۔‘

لہری

اداکارہ شبنم لہری کی خیریت دریافت کرتے ہوئے

لہری فلم میں مزاح کے نام پر اعلیٰ ادب بھی تخلیق کرتے رہے

پاکستان فلم اور ٹیلی وژن انڈسٹری کے سینیئر اداکار ندیم بیگ کا کہنا ہے کہ ’لہری صاحب بہت ہی عمدہ فنکار تھے اور ان میں ایک طبع زاد مزاحیہ فنکار بھی تھا۔ وہ فلم میں اپنے کردار، کہانی، سیاق وسباق اور منظر نامے کو ملحوظ خاطر رکھ کر یوں جملے بازی کرتے تھے کہ گویا مزاحیہ ادب تخلیق کر رہے ہوں۔ لفظوں کی ادائی اور جملوں کی نشست وبرخاست اتنی شاندار تھی کہ زیر زبر سے معنی و مفہوم اور مزاج بدل دیا کرتے تھے۔‘

ندیم کہتے ہیں ’یوں تو لہری صاحب نے بہت سی فلمیں کیں لیکن اس وقت مجھے فلم دل لگی، پرنس، سہر ے کے پھول، صائمہ، دلنشیں، بہشت، اناڑی اور نادان کے لہری یاد آ رہے ہیں۔ بہت ہی بھلے انسان تھے ،بہترین لباس پہنا کرتے تھے اور اجلی شخصیت کے مالک تھے۔‘

لہری کے ساتھ کام کرنا مشکل تھا؟

اداکارہ نشو لہری کے ساتھ کام کرنے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لہری صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے مشکل یہ پیش آتی تھی کہ وہ اچانک کوئی بات کر دیتے تھے اور ہنسی روکنا مشکل ہو جاتی تھی۔‘

وہ بتاتی ہیں ’ہدایتکار اسلم ڈار کی فلم ’زبیدہ ‘ میں میرے ہیرو وحید مراد تھے اور میں ان کی سٹینو گرافر بنی تھی۔ فلم کے ایک منظر میں، میں نے سفید ساڑھی پہنی ہوتی ہے اور میں دفتر میں سو جاتی ہوں۔ لہری صاحب مجھے دیکھ کر فقرہ چست کرتے ہیں۔ ’اصلی ہے یا ماربل کی بنی ہوئی ہے۔‘

’یقین جانیے میرے لیے یہ سین کرنا مشکل ہو گیا تھا، جونہی لہری صاحب اپنے خاص انداز سے ’ماربل‘ پر زور دے کر ڈائیلاگ بولتے تھے میں ہنسی یوں نکلتی جیسے سوڈے کی بنٹے والی بوتل دھماکے سے کھلتی تھی۔ ‘

اداکارہ نشو کا کہنا تھا کہ لہری صاحب کے ساتھ انھوں نے کئی ایک فلمیں کیں جن میں ’بہشت‘ اور ’نیک پروین‘ یاد گار تھیں۔

فلم فلاپ ہونے پر جب مصطفی قریشی 25ہزار روپے ادا کرنے لہری کے ہاں گئے

سینئیر اداکار مصطفیٰ قریشی اپنے دیرینہ دوست لہری کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’وہ وی آئی پی کامیڈین تھے جنھیں خواص کے ساتھ عوام نے بھی پسند کیا۔‘

’میں نے ایک فلم پروڈیوس کی تھی، ندیا کے اس پار، اس میں لہری کی عشرت چوہدری کے ساتھ جوڑی تھی۔ فلم بعض وجوہات کی بنا پر فلاپ ہو گئی۔ لہری صاحب سے جو معاوضہ طے پایا تھا اس میں سے 25 ہزار روپے باقی رہ گئے تھے۔ میں وہ رقم ادا کرنے ان کے ہاں گیا تو لہری صاحب نے کہا کہ لوگ تو سپر ہٹ فلم کے بقایاجات ڈکار جاتے ہیں، آپ فلاپ فلم کا معاوضہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔‘

لہری

لہری صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر صدیقی

مصطفی قریشی نے بتایا کہ ’لندن میں ہدایتکار پرویز ملک کی فلم ’میرے ہم سفر‘ کی شوٹنگز تھیں جہاں میرے علاوہ شبنم اور محمد علی بھی تھے۔ لہری کو جب معاوضہ کی رقم پاؤنڈ کی شکل میں ادا کی گئی تو انھوں نے سب پیسوں کے ایک مشہور برانڈ کے جوتے خرید لیے تھے۔ وہ ایک انتہائی خوش پوش انسان تھے، فلم انڈسٹری میں اسلم پرویز اور لہری کو ان کے پہناووں کے باعث پرنس کہا جاتا تھا۔

پاکستان کے سینیئر کامیڈی آرٹسٹ خالد عباس ڈار کہتے ہیں کہ’لہری کا جملہ اور لہجہ دونوں بہترین ہوا کرتے تھے۔‘

خالد عباس ڈار کا کہنا تھا کہ ’لہری بڑے آرٹسٹ تھے ،انھوں نے اپنے انداز میں کمال احمد رضوی کے انداز کی پیوند کاری کر کے ایک نئی اختراع ڈالی تھی جسے بہت سراہا گیا۔‘

میاں نواز شریف سے کہا۔۔۔ ’باتیں بہت ہو گئیں اب چیک پر سائن کریں‘

لہری صاحب کے ہاں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں دو وفات پا گئیں۔ لہری صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر صدیقی نے بتایا کہ معین اختر ایسے فنکار تھے جو وقتاً فوقتاً ان کی خیریت دریافت کرنے آتے رہے۔ ان کے علاوہ عمر شریف، جاوید شیخ، تحسین جاوید، بہروز سبزواری، اداکارہ شبنم اور اداکار ندیم بھی ان کی خیریت دریافت کرنے آتے تھے۔

مہران سفیر صدیقی نے بتایا کہ ’ سنہ 2011 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ابا کی تیمارداری کے لیے ہمارے گھر آئے تو ابا نے انھیں بہت ہنسایا۔ نواز شریف صاحب نے ابا سے کہا کہ وہ ان کے بڑے پرستار ہیں۔‘

’ہیروئنز کے مختصر کپڑوں پر طنز کرتے ہوئے لہری نے میاں نوازشریف سے کہا کہ۔۔۔ وہ خاتون باریک جھالی نما لباس پہن کر آ گئیں، مجھ سے پوچھا کہ کیسی لگ رہی ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ جہاں سے گزریں گی مچھر کٹھمل مرے نہ مرے شرافت کے جراثیم ضرور مر جائیں گے۔‘

’لہری صاحب کا یہ چٹکلا سن کر میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی قہقے لگانے لگے۔ اس پر لہری صاحب نے کہا کہ۔۔۔ میاں صاحب باتیں بہت ہو گئیں اب ایک چیک پر سائن کر دیں جس پر میاں نوازشریف نے ابا کے لیے اسی وقت 25 لاکھ روپے کے چیک پر سائن کیے۔‘

مہران بتاتے ہیں کہ چیک وصول کرتے ہوئے لہری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’پرستار اور حکمران ساری زندگی میری باتوں پر قہقے تو لگاتے رہے لیکن کسی نے بھی اس طرح داد نہیں دی جیسے میاں نواز شریف نے اپنے ذاتی خزانے کو نقصان پہنچایا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp