رن این ایکسٹرا مائیل


استاد کی مسلمہ حیثیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ استاد ہی وہ واحد ہستی ہے جو شاگرد کو زمین سے اٹھا کر آسمان جیسی بلندیوں پہ لے جاتی ہے اور استاد کی بے لوث محبت اور محنت کا عالم یہ ہے کہ حقیقی باپ کے بعد استاد ہی وہ شخص ہے جو اپنے شاگرد کو خود سے آگے بڑھتے دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش اور تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے استاد کا ادب اس قدر بڑھا دیا گیا کہ استاد کو روحانی باپ کہا گیا ہے۔

اولیاء کے شہر میں وہ درویش صفت انسان ’صرف استاد ہی نہیں اپنے آپ میں ایک ادارہ‘ ہمہ وقت پرخلوص محنت اور مدد کے لئے دستیاب ’نمبروں کی دوڑ میں بھی اخلاقیات و معاملات کی تربیت‘ ان کی ذات کی خاصہ تھی۔ کہنے کو وہ بدیسی زبان انگریزی کے استاد تھے لیکن اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے باقی علوم پہ بھی اتنا ہی عبور رکھتے تھے۔ کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ ہمارے اسلاف بیک وقت مختلف علوم پہ عبور کے حامل تھے۔ یہ پہلی زندہ ہستی دیکھی تھی جو درسی مضمون کے علاوہ سیاسی ’معاشرتی‘ اقتصادی ’طب‘ فلسفہ اور حتیٰ کہ فلکی علوم پہ بھی عبور رکھتے تھے۔

ایک نئے آنے والے ہم جماعت کو جانے کیا سوجھی کہ لیکچر کے دوران ان کا نام پوچھ لیا۔ فرمانے لگے کہ فی الحال سبق پہ توجہ دو ’اگر نام کے چکر میں پڑے رہے تو ”یو“ نس ”جاو گے۔ ایسی برجستگی پہ کلاس کا بلند و بانگ قہقہہ اور ان کا اپنا زیر لب مسکرانا آج بھی یاد ہے۔ یونس صاحب ہی نے سکول کے دور سے چیزوں کو مختلف نظریے سے دیکھنے کا شعور بخشا تھا۔ صبح سے شام کے معمولات زندگی میں رب کو کیسے شامل کرنا ہے‘ یہ انہی نے سکھانا شروع کیا تھا۔

امتحان کے دنوں میں طلباء کی محنت اور کوشش بلاشبہ بڑھ جاتی ہے اور نمبروں کی دوڑ کی تکان چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ ایسا ہی کوئی دن تھا جب وہ کتابی ہوتے چہروں پہ وہ تکان دیکھ رہے تھے۔ معمول کی کلاس کے بعد ایک غیر رسمی گفتگو میں محنت کی ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ اس وقت وہ بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی کیونکہ وہ بات ہمارے قد سے کہیں اوپر کی بات تھی لیکن آئندہ زندگی میں وہ بات بہت کام آئی اور کامیابی کے زینے طے کرنے میں یہی بات مشعل راہ ثابت ہوئی۔

استاد محترم فرمانے لگے ’آپ سب ہم جماعت ایک سی کوشش کرتے ہو‘ ایک سا نصاب ہے ’ایک ہی پرچہ آئے گا لیکن اس کے باوجود نمبر ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہر کسی کی ذہنی استعداد الگ ہے۔ لیکن کیا ہم اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں؟ سب ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ کچھ دیر انہوں نے جواب کا انتظار کیا اور پھر بلیک بورڈ کی جانب پلٹ گئے۔ بورڈ پہ اک لمبی لکیر کھینچی اور اس کی دو چھوٹی چھوٹی عمودی لکیروں سے حد بندی کر دی۔ اور کہا کہ یہ آپ کی محنت ہے۔ آپ سب اپنی اپنی استعداد کے مطابق کم وبیش ایک جیسی محنت ہی کرتے ہیں۔

پھر اس سے متصل ہی ایک اور نسبتاً چھوٹی لیکن سیدھی لکیر کھینچ دی۔ اور کہنے لگے کہ اس باؤنڈری کے اندر والی محنت تو سبھی کرتے ہیں لیکن اصل کامیابی اسے ملتی ہے جو اس حدود کے باہر والی یہ ایکسٹرا محنت کرتا ہے۔ یہ محنت کچھ بھی ہو سکتی ہے ’کسی غیر نصابی کتاب کا مطالعہ‘ کوئی غیر نصابی سرگرمی ’کوئی کھیل‘ کوئی ورزش یا کوئی بھی ہنر سیکھنا یہ سب اسی محنت میں شامل ہے۔

اپنے مخصوص انداز سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنی میز پہ کلاس کے سامنے بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ’یہ چھوٹی لکیر زندگی کی محنت میں آپ کا ایکسٹرا مائیل ہے۔ یہی آپ کو آگے لے جانے کا باعث بنے گی۔
You have to run that extra mile for your success and for your name.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments