بے حسی حد سے گزر جائے گی تب جاگو گے


آپ کہیں شہر کے بہت دور دراز مقام پر مدعو ہیں، ہنسی مذاق میں دیر بھی ہو گئی ہے، رات خوب بھیگ چکی ہے ہنستے ہنسے جیسے ہی آپ گاڑی کے قریب آ کر رموٹ پریس کرتے ہیں آپ کی ہنسی کو جیسے بریک لگ جاتے ہیں اور آپ سراسیمگی کی حالت میں اردگرد کھڑے دوست احباب کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔ اب اگر آپ کی گاڑی سے بیٹری چوری ہو گئی ہے تو رات کے تین بجے کون سی بیٹری کی دکان کھلی ہوگی، اس لمحہ جو بے بسی، خجالت اور تکلیف کی کیفیت آپ پر طاری ہوتی ہے وہ شاید ہی کوئی لفظوں میں بیان کرسکے۔

پاکستان بھر میں عموماً اور بالخصوص کراچی میں گاڑیوں کے مالکان ہمیشہ اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ ان کی قیمتی گاڑی سے کچھ چوری نہ ہو جائے، گاڑیوں سے پرزہ جات کی چوری کا معاملہ اتنا زیادہ عام ہو گیا ہے کہ آپ سکھ چین کے ساتھ کہیں تفریح کے لئے، تقریب میں شرکت کے لئے، یا خریداری کے لئے نہیں جا سکتے۔ دل پر ایک بے چینی چھائی رہتی ہے، اور دل گاڑی میں ہی اٹکا رہتا ہے کہ اللہ خیر کرے اور چور کے دست برد سے محفوظ رکھے، ورنہ واپسی پر جو پریشانی ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اس اذیت ناک تجربہ کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ دو ایسے ویڈیو کلپ نظر سے گزرے جن کو دیکھ کر دو مختلف خیالات نے جنم لیا، ایک خلاقی تنزلی کی انتہا کا اور دوسرا بے حسی کی انتہا کا۔ ایک ویڈیو کسی تفریح گاہ کی تھی جہاں رات کے وقت کوئی فیملی اپنی گاڑی پارکنگ میں پارک کر کے تفریح کے لئے گئے ہوئے تھے ساتھ ہی ایک رکشہ کھڑا تھا، کچھ دیر ماحول کا جائزہ لینے کے بعد رکشہ والا اپنے رکشے سے اترا اور بڑی مہارت و سرعت کے ساتھ اس نے ساتھ کھڑی کار کا بونٹ کھول کر اس کی بیٹری نکالی اور رکشہ کی عقبی نشست کے نیچے رکھ لی اور چلتا بنا۔

پارکنگ سے لگ رہا تھا کہ وہ جگہ شہر سے دور کوئی مقام ہے کہ وہاں بہت زیادہ گاڑیاں پارک نہ تھیں۔ اب جب اس گاڑی کے مالکان واپس آئے ہوں گے تو کتنی شدید پریشانی کا شکار ہوئے ہوں گے، ان کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوں گے، خواتین بھی ہوں گے مگر ان تمام پریشانیوں سے بے خبر رکشہ والا چور تو اپنا کام دکھا کر جا چکا تھا، گلہ کس کا کٹا کیوں کر کٹا تلوار کیا جانے۔ ایسا ہی ایک ویڈیو کلپ حال ہی میں نظر سے گزرا جس میں ایک نشئی بیٹری چور دن دھاڑے شہر کی مشہور ترین مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑی ایک کار سے بیٹری چوری کر رہا ہے۔ اس کلپ کی خاص بات یہ تھی کہ جو حضرات ویڈیو بنا رہے تھے وہ اس چور کو پکڑ بھی سکتے تھے۔ مگر وہ نہایت بے حسی سے ویڈیو بناتے رہے اور چور بیٹری نکال کر چلتا بنا۔

یہ بھی ایک عمومی رویہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے پنپ رہا ہے کہ واقعہ کی ویڈیو تو کئی لوگ بنا رہے ہوتے ہیں مگر مدد کوئی نہیں کر رہا ہوتا ہے، مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ٹریفک حادثے کے شکار لوگوں کی مدد کے بجائے لوگ ویڈیو اور تصاویر بناتے رہے، اسی طرح بارہا مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی جھگڑے کے دوران لوگ بیچ بچاؤ کرانے کی بجائے تصاویر اور ویڈیوز بناتے رہے اسی دوران لوگ اپنی جان سے جاتے رہے، مگر لوگ مدد کو آنے کی بجائے ویڈیو بناتے رہے۔

آپ گاڑی کھڑی کر کے جائیں واپسی پر گاڑی کے سائیڈ والے شیشے Side Mirrors غائب ہوں گے، اگر گاڑی زیادہ مہنگی نہیں ہے تب بھی آپ پر بلاوجہ کی چٹی پڑ گئی اور بغیر Side Mirrors کے گاڑی چلانے پر حادثے کا امکان الگ، اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ لڑکے موٹر سائیکلز پر گھومتے رہتے ہیں اور جیسے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی گاڑی سے کچھ چرایا جا سکتا ہے وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے کر گاڑی کی کھڑی کا ایک شیشہ توڑ کر دروازہ کھول لیتے ہیں، پھر جس بے دردی سے وہ اندر لگا اسٹیریو، GPS، LCDsystem نوچ کر نکالتے ہیں کہ ڈیش بورڈ AC System سب تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں، اس وقت وہ یہ تفریق نہیں کرتے کہ کوئی عام گاڑی ہے یا نہایت قیمتی گاڑی ہے، وہ چند روپوں کی خاطر پوری گاڑی کا ستیاناس مار کر بھاگ جاتے ہیں، یہی کام عمومی طور پر بڑے بڑے تھیلے لئے سائیکلوں اور پیدل پھرتے کچرا چننے والے بھی کرتے ہیں اور گاڑیوں سے ٹیپ اور Side Mirrors چوری کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر سیٹ پر لیپ ٹاپ یا کوئی اور قیمتی شہ نظر آ جائے تو وہ بھی بونس بطور فوراً ہی اٹھا لی جاتی ہے۔

مندرجہ بالا حالات اور واقعات کے تناظر میں اگر غور کیا جائے تو پائیں گے کہ معاشرہ شدید ترین بے حسی اور بد تہذیبی کا شکار ہے، جسے ہم گدھ جیسی موقع پرستی کے رجحان سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان میں بھی بڑے مافیا اور گروپس کام کر رہے ہیں، یہ پورا دھندہ نہایت ہی مضبوط لوگوں کی سرپرستی میں چل رہا ہوتا ہے۔ آپ شہر میں کہیں بھی گاڑی پارک کریں، اگر آپ کا گاڑی سے کچھ چوری ہو گیا ہے تب تو کوئی نہیں آئے گا، لیکن اگر گاڑی صحیح سلامت ہے تو آپ مافیا کے کارندے کو پارکنگ بھتہ دیے بغیر جا نہیں سکتے وہ آپ سے ناجائز بیس روپے کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہو جائے گا، بلکہ اس کی مدد کو اس جیسے کچھ اور غنڈے بھی آ جائیں گے جو آپ کی فیملی کا لحاظ کیے بنا آپ سے گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کرنے پر آمادہ نظر آئیں گے۔ یہ مافیا کے لوگ بھی پارکنگ کی آڑ میں چوری چکاری میں ملوث ہوتے ہیں۔

لوگ پریشانی میں لوگوں کی فلمیں تو بنا لیتے ہیں مگر مدد کو نہیں آتے، سرعام ایک عورت کو ایک مرد گناہ پر زبردستی آمادہ کر رہا ہے، اس پر تشدد کر رہا ہے اور بیشتر لوگ ویڈیو بنا رہے ہیں، یہ علامت ہے بے حسی و خود غرضی کے اس رجحان کے پروان چڑھنے کی جسے لوگ یا شیخ اپنی اپنی دیکھ کہتے ہیں۔ مگر کب تک، بڑے کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی۔ یعنی جو آج تماشبین ہیں کل تماشا بھی بن سکتے ہیں تب انہیں اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ ان کی باری پر بھی لوگ مدد کی بجائے تصاویر اور ویڈیوز ہی بنائیں گے۔ کیوں کہ کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتہ جانتی ہے۔ آگ کس طرف لگانی ہے ہوا جانتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام خود اپنے عمومی معاشرتی رویوں کا تجزیہ کریں اور انہیں درست کرنے کی کوشش کریں، ورنہ ہمارا حال بھی افریقہ کے پسماندہ اور تشدد کا شکار ممالک جیسا ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ مقامی اور وفاقی حکومت کو نہایت سنجیدگی سے ان معاملات پر غور کرنا چاہیے اور ان کی درستی کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے تاکہ ایک پرامن اور خوشگوار معاشرے کی تعمیر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments